”عوام پر ہی میاؤں“

ہفتہ 19 فروری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

گئے دنوں نامی گرامی صحافی دوست بتا رہے تھے کہ ایک زیادتی کے مقدمے میں ملزم اور مظلوم لڑ کی کو ڈی این اے کروانے کامسئلہ درپیش تھا پو لیس نے بار سفر کا بوجھ ملزم اور مظلوم پر ڈالا فریقین کی مالی حالت اس قدر گئی گزری تھی کہ ملزم اور مظلوم لڑکی کے وارثوں نے مشترکہ گاڑی کا بندوبست کیا ، المیہ ملاحظہ کیجئے چار و ناچار مظلوم لڑ کی کو ظالم کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ کر طویل سفر کی کرب ناکی بر داشت کرنی پڑ ی ، عام نو عیت کے معاملات میں تو پولیس کی جانب سے یہ رسم بد عام ہے جب کو ئی مظلوم تھانہ میں درخواست دیتا ہے پولیس اس سے ” تیل “ کے نام پر رقم کا تقاضا کر تی ہے یا گاڑی کا بندوبست کرنے کی فر مائش کر تی ہے ، کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہمارے ایک جاننے والے کے ساتھ کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا انہوں نے متعلقہ تھا نے میں اپنے مخالفین کے خلاف درخواست دی ، تفتیشی افسر نے ملزمان کے گھر جانے کے لیے ہمارے جاننے والے سے کھلم کھلا فرمائش کی ملزمان کے گھر تک جا نے کے لیے گاڑی فراہم کیجیے بصورت دیگر ہماری طرف سے نہ ہے سمجھیے ، دکھن کے باب کا ایک اور ورق بھی پڑ ھ لیجیے ملک کے نامور تاجر بھی کچھ اسی کر ب سے گزرے ، تاجر کی دکان میں چوری کی واردات ہو ئی نامی گرامی تاجر نے تھا نے میں ایف آئی آر کا ٹی ، مو صوف روزانہ کی بنیاد پر تھا نے کا چکر لگا تے رہے لیکن فرائض کے جذبے سے لیس پولیس چوروں کو تلاش کر نے میں نامراد رہی پو لیس اور پولیس کے رویے سے مایوس ہو کر جانے ما نے تاجر نے چوروں کی تلا ش کا درد سر بھی اپنے سر لیا ، آخرکار موصوف خود چوروں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو ئے، دوڑے دوڑے تھا نے گئے اور پو لیس مطلع کیا کہ چور تین سو کلو میٹر دور واقع شہر میں مو جود ہیں ، پو لیس کے شیر جواں افسر نے جھٹ سے جواب دیا کہ جانے کے لیے گاڑیوں کا بند وبست کیجیے تو چوروں پر ہاتھ ڈالنے کی سعی کر تے ہیں ، مر تا کیا نہ کر تا کے مصداق مو صوف نے دو گاڑیوں کا بندوبست کیا یوں چوروں کو پکڑ نے کا قضیہ مدعی کو قریباً پچاس ہزار میں پڑا ، نکتہ کیا ہے ، کیا پولیس کو تفتیش کے نام پر سر کار سے فنڈ نہیں ملتے ،کیا تیل کے مد میں پولیس کو سرکار معقول رقم نہیں دیتی، پولیس کے گھر کے بھیدی کا کہنا ہے کہ تفتیش کے نام پر اچھا بھلا فنڈ پو لیس کو سرکار کی جانب سے ملتا ہے لیکن یہ فنڈ کہاں جاتا ہے کس مد میں خر چ ہوتا ہے اس فنڈ پر کون ہاتھ صاف کر تا ہے اس کا جواب پولیس کے ارباب اختیار دینے میں ٹال مٹول کر تے ہیں ، یاد رکھیے ، پولیس انصاف کی فراہمی کی پہلی سیڑ ھی ہے پولیس اگر مظلوم کا ساتھ صدق دل سے دے پولیس اگر مظلوم کی اشک شوئی کا فریضہ قانون اور انسانیت کے تقاضوں عین مطابق ادا کر ے پولیس اگر جرائم کی بیخ کنی کے لیے کو شاں ہو جائے ، یقین واثق سے کہا جاسکتا ہے کہ اریب قریب اسی فیصد مظلوموں کو عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی حاجت ہی پیش نہیں آئے ، یعنی ان مظلوموں کی داد رسی سر عت سے تھا نوں میں ہو سکتی ہے لیکن عملا ًایسا نہیں ہے ، پو لیس کا رویہ مظلوموں کے ساتھ خوف ناک حد تک بے رحمانہ ہو ا کرتا ہے ، مظلوم پولیس کے پاس جاکر آہ و فغاں کر تے ہیں ، پولیس سے انصاف فراہم کر نے کی فر یاد کر تے ہیں لیکن پولیس صرف سفارش اور چمک کے بل پر ہی چلنے کی روش کو ہی صائب قدم سمھتی ہے ، مظلوموں کے ساتھ پولیس کے اس رویے کی وجہ سے مظلوموں کو چا ر و ناچار عدالتوں کا رخ کر نا پڑ تا ہے یوں مظلوم سال ہا سال انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکر یں کھا تے رہتے ہیں ، پو لیس کی اس بے حسی کے نتائج کیا نکل رہے ہیں ، اب سماج میں عام طور پر خود ” انصاف“ حاصل کر نے کی سوچ تیزی سے پروان چڑ ھ رہی ہے ، فریقین اب پولیس پر تکیہ کر نے کے بجا ئے اپنے ہاتھوں انصاف کر نے کی روش پر چل پڑ ے ہیں ، جرائم کی شرح میں ہوش ربا اضافے کی اصل وجہ پولیس کا رویہ اور تفتیش کا طر یق کار ہے جس کی وجہ سے پولیس سے سماج کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے ، پولیس میں سیاسی مداخلت ، سفارش اور پیسے کی ریل پیل نے اس داخلی امن کے ذمہ دار ادارے کی جڑ یں کھوکھلی کر دی ہیں ، حکمراں اور پو لیس کے اعلی افسران کو پولیس کو عوام دوست ادارہ بنا نے کے لیے انقلاب آفریں اقدامات اٹھا نے ہو ں گے بصورت دیگر اس طرح کی روش کے ساتھ پولیس کا ادارہ زیادہ عرصہ نکالنے والا نہیں ، ایسا نہ ہو کہ کل کلا ں پولیس کی حالت بھی پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کی طرح ہو جا ئے، عوام پر ہی میاؤں بہت ہو چکی اب عوام کے اداروں کو عوام کے خدمت گار بنا نے کی راہ اپنا نے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :