” آج کے وفادار کل کے غدار “

جمعرات 10 فروری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

آزادی کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی قومی سطح پر ہم اپنی درست سمت کا تعین تک نہ کر سکے ، معاشی تر قی کی منازل کیسے طے کر نی ہے داخلی استحکام کے لیے کیا اقدامات کر نے ہیں ، کس طرح سے پائیدار امن کے قیام کے لیے پالیسی مر تب کر نی ہے ، پڑوسی ممالک سے کس طرح کے تعلقات استوار کر نے ہیں ، اقوام عالم میں خم ٹھونک کر کیسے جینا ہے ، لگی سات دہا ئیوں میں کیا ہو تا رہا ، داخلی اور خارجی سطح پر ملکی مفادات کو مدنظر رکھنے کے بجا ئے محض حکمران قتدار کے مزے لیتے رہے ہیں ، الم غلم حکومتی پالیسیوں کی بدولت داخلی سطح پر کچھ عرصہ کے لیے سکون نصیب ہوتا ہے اس عارضی امن کے بعد پھر سے ملک نقص امن کا شکار ہوجاتا ہے ، حالیہ دنوں میں پھر سے وطن عزیز میں دہشت کی ہوائیں زوروں پر ہیں ، ایک تگڑی فوج سمیت اچھے بھلے قانون کی سربلندی کے لیے قائم اداروں کی موجودگی میں دہشت گرد کیسے ملکی امن کو تباہ کر نے میں کامران ہو جاتے ہیں اس نکتے پر عرق ریزی سے مقتدر حلقوں نے اس طر ح سے مغز کھپائی نہیں کی ، حالات جس کے متقاضی ہیں، ملک میں امن قائم کر نے باب میں گومگوں طرز کی پالیسیاں ہی دراصل دہشت گردوں کی کامل سرکوبی میں رکاوٹ رہی ہیں ، دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کے اہم تر معاملے میں بھی وفاداری اور غدراری کے عناصر کو غلط سلط کیا جاتا رہا ہے ، دہشت گردی سے جاں خلاصی کے لیے ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ مقتدر قوتیں ایک بے رحمانہ پالیسی اپنا کر دہشت گردعناصر کا قلم قمع کر تیں مگر بوجوہ اس طرح کی جارحانہ پالیسی سے احتراز کیا جاتا رہا ہے ، طالبان عناصر کے معاملے میں ” نرم گوشے “ کی ترغیب اور تبلیغ زوروں پر رہی اسی طرح بلو چستان میں دہشت گردی میں ملوث شرپسندوں کے معاملے میں بھی دوغلی پالیسی ریاست کی سطح پر اپنائی گئی اس ” عجب پالیسی “ کے نتائج کیا نکلے ، ایک حکومت غداری کی سند عطا کر کے امن تباہ کر نے والوں کی سرکوبی کے لیے اقدامات کر تی ہے دوسری حکومت اقتدار میں آکر کل کے غداروں کو وفادار کہہ کر ان کے بارے میں مشفقانہ طرز عمل اختیار کر لیتی ہے ، زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے اور امن کے اہم تر معاملے میں اس عجب طرز کے تماشے سے داخلی سطح پر پائیدار امن قائم نہیں ہوسکا ، مہذب ممالک کے حکمران اجتماعی معاملات میں ہمیشہ ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیوں کا چلن عام کرتے ہیں ، ہمارے ہاں لیکن ہر معاملے میں اپنے نمبر ٹانکنے اور سیاست چمکانے کی روش اختیار کی جاتی ہے ، جن دنوں بلو چستان میں قوم پر ست گردانے جانے والے بر سر اقتدار تھے ان ایام میں بلو چستان کے امن پر وار کرنے والوں کے بارے میں نرم بلکہ حد درجہ نرم رویہ اختیار کیا گیا اگر چہ وہ ایام تو کسی حد تک ” بخیر “ گزرے لیکن اسی ” نرم گوشے “ کی وجہ سے پاکستان اور بلو چستان کے امن دشمنوں نے نئے سرے سے پاکستان مخالف قوتوں سے نہ صرف رابطے استوار کیے بلکہ خود کو مضبوط بھی کیا ، اس وقت بلو چستان میں کیا ہو رہا ہے ، دہشت گرد عناصر اس حد تک دلیر ہو چکے کہ قانون نافذ کر نے والے اداروں کے مو رچوں پر حملے کر رہے ہیں ، بلو چستان کے کئی علا قے عملا ً ایسے ہیں جہاں پاکستان سے محبت کر نے والوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو چکا ، کچھ ایسا ہی معاملہ خیبر پختون خواہ کے کئی علا قوں میں ہے ، فوج اور قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے جانوں کی نذرانے وطن پر نچھاور کر رہے ہیں ، سوال مگر یہ ہے آخر کب تک قوم کے مایہ ناز سپوت غلط پالیسیوں کی سزا بھگتے رہیں گے ، پاکستان کی سالمیت کو عارضی امن سے جوڑا نہیں جا سکتا ، وطن عزیز کی سالمیت اور معاشی ترقی کے لیے پائیدار امن کا قیام ہر صورت ضروری ہے اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہو ئے جامع پالیسی بنا کر اس کا نفاذ کیا جائے ، دہشت گردی کے باب میں پسند و ناپسند اور ” سرد گرم “ طرز عمل کو خدا حافظ کہنا ہوگا ، جو بھی قانون کو ہاتھ میں لے جو بھی ملک کے امن پر وار کر ے اس کے ہاتھ کا ٹنے کی پالیسی ریاستی اور حکومتی سطح پر اختیار کر نی ہوگی ، جب تلک دہشت گردی کے باب میں حکومتی سطح پر سفاکانہ پالیسی نہیں اپنا ئی جاتی اس وقت تک معصوم شہریوں کو جان کی امان انسانیت کے دشمنوں سے ملنے والی نہیں ، مقتدر حلقوں کو ابھی نہیں تو کبھی نہیں کی پالیسی اپنا کر امن کے دشمنوں کو شکست فاش دینی ہوگی ، اسی میں ملک اور قوم کی بقا کا راز پنہاں ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :