”سرکار کے منے“

منگل 15 فروری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

عالمی مالیاتی ادارے نے انکشاف کیا کہ بیرونی امداد ااور قرضوں کا کثیر حصہ افسر شاہی ادھر سے ادھر کر لیتی ہے سادے گوروں کو اب پتا چلا کہ ان کی طرف سے دئیے گئے قر ضوں کے استعمال میں افسر شاہی واردات ڈالتی ہے ، یہاں تو روز اول سے یہ معمول رہا ہے کہ ” باہر “ سے جس مد بلکہ جس باب میں منت سماجت کر کے قر ضہ اور امداد حاصل کی جاتی ہے اس میں تگڑ ی رقم اوپر والوں کی نذر نذرانے کی نظر ہو جایاکرتی ہے ، عام فہم سی بات ہے کہ گریڈ سولہ ، سترہ ، اٹھارہ ، انیس ، بیس ، اکیس اور بائیس کے افسران کی خالص تنخواہوں میں کیا کروڑوں کی جائیدادیں بن سکتی ہین ، کیا ان افسران کے تنخواہوں میں شاندار محالات کی تعمیر و خرید ممکن ہے ، کیا ان کی تنخواہوں کے ” ہندسوں “ کو دیکھتے ہو ئے ان کے بال بچے مہنگے ترین ممالک میں مہنگی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ، محض تنخواہوں میں یہ ” من وسلوی “ کسی طورممکن نہیں ، ہو تا کیا ہے ، ملک کی خدمت کے جذ بے سے سر شار ایک طرف تو مراعات کے نام پر غریب عوام کا پیسہ اپنی جیبوں میں ٹھونستے ہیں ، جز وقتی ذرائع اوپر کی وہ کمائی ہے جس کے ذریعے سے غریب عوام کی کھال الگ سے اتاری جاتی ہے باقی ماندہ کسر غیرملکی قرضوں اور ملنی والی امداد میں ہیر پھیر کر کے اپنی دنیا کی رنگینی کو مزید سوا کیا جاتا ہے ، ملک کی معاشی حالت چاہے جیسے بھی ہو طبقہ سیاسیہ اور طبقہ افسرشاہی کے عیش و عشرت کے ساماں میں انیس بیس کی کمی نہیں آئی ، گریڈ سولہ سے گریڈ بائیس تک جس گریڈ میں بھی نصیب یاوری کرے اس کے بعد یہ صاحبان سرکار کے منے بن جا تے ہیں اور ان کی اولادیں سرکار کے داماد ، چاہے طور خم میں ان کی تعیناتی ہو یا نو شکی میں ان کے مراعات اور واجبات میں کو ئی فر ق نہیں پڑ تا، ان کی آنا ان کاجانا ان کا رہنا ان کا کھا نا ان کا پینا سب کا سب سرکار کے کھا تے سے جاتا ہے ، مختلف شعبوں اور محکموں میں اچھے افسران بھی موجود ہیں جو حلال اور حرام میں نہ صرف تمیز سے آگاہ ہیں بلکہ یہ افسران حرام کے لقمے سے اپنا دامن بھی پاک رکھتے ہیں کم نصیبی مگر یہ ہے کہ افسر شاہی کے کھیپ میں ایسے افسران کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ، پتلی معیشت کے نعرے لگا نے والوں کے خزانے سے ” انصاف “ کر نے کے پیمانے الگ ہیں ، عوام کو خزانہ خالی ہے کی چوسنی دی جاتی ہے لیکن اچھنبے کی بات یہ ہے کہ افسر شاہی کے رہن سہن اور گزر اوقات کے لیے ہمہ وقت خزانے میں پیسے مو جود ہوتے ہیں ، مان لیتے ہیں کہ ملکی معیشت کی حالت ناگفتہ بہ ہے ، سوال مگر یہ ہے کیا افسر شاہی کے اخراجات پر ” کٹ“ لگا ئی گئی ، کیا فسر شاہی کے مراعات پر رتی برابر قد غن لگا ئی گئی ، ملکی خزانے پر عوام اور مزدور بوجھ نہیں ہیں ، ملکی خزانے پر اصل بوجھ دراصل یہی افسر شاہی ہے جس پر سالانہ اربوں کھربوں خرچ ہوتے ہیں جواباً یہ ملک و قوم کو کیا دیتے ہیں ، اس نکتے پر آج تلک ملک کے پایسی سازوں نے غور کر نے کی زحمت ہی نہیں کی ، سادہ سانکتہ ہے کہ گزرے ماہ و سال میں متوسط طبقات کی معاشی حالت پتلی ہو تی رہی لیکن طبقہ اشرافیہ اور طبقہ افسر شاہی کی ذاتی معیشت دن دگنی رات چوگنی ترقی کے منازل طے کرتی رہی ، ایک غریب ملک کے افسر شاہی کی رہن سہن معاشی لحاظ سے خوش حال ترین ممالک کے افسران سے زیادہ اعلی و ارفع ہے گویا ملکی خزانے کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر ہاتھ ہوتا رہا ہے اور خوب ہوتا رہا ہے ، غیر ملکی قرضوں کا حجم ہر دن کے ساتھ تیزی سے کیوں بڑھتا جا رہا ہے ، اس لیے کہ بیرون ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے عوام کے نام پر لیے جانے والے قرضوں کو اہل اقتدار اور ان کے سرکاری رفیق عوام پر خرچ کر نے کے بجائے اپنی تجوریوں میں بے دردی سے منتقل کر تے رہے ، اس بد عت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک پر ایک طرف بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا دوسری جانب عوامی منصوبوں پر صد ق دل سے خرچ نہ کر نے کی وجہ سے عوام کی حالت معاشی لحاظ سے پست سے پست ترین ہو تی چلی گئی ، دکھ کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں کو اہل اقتدار اور ان کے سرکاری رفیق اپنی پیٹوں میں ٹھو نستے رہے لیکن ان قرضوں کو اتارنے کے لیے عوام کو آگے کر دیا گیا ، آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عوام پر محصولات اور گرانی کا بوجھ لا دا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)


حضور!بیرونی قرضوں پر جنہوں نے ہاتھ صاف کیا جنہوں نے بیرونی قرضوں سے اپنے بنک بھر ے اب قرضوں کی ادائیگی کے لیے سرکار کے ان ” منوں “ پر ہی بوجھ ڈالیے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا کیو نکہ اقتدار کے مسند پر تشریف فرما حکمران اور ان کے کندھے بنی والی افسر شاہی دونوں سکے کے ایک رخ ہیں ، جب تک سرکار کے منوں اور سرکار کے دامادوں کو قانون کے دائر ے میں نہیں لا یا جاتا اس وقت تک ملک کے خزانے کے دروازے عوام پر بند رہیں گے ، چاہے حکومت الف کی ہو بے کی ہویا ج کی ، جب تک بنیاد درست نہیں ہو گی اس وقت تک عمارت کا ٹیڑ ھا پن بر قرار رہے گا خدا لگتی یہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :