فطرانہ کی کیفیت

بدھ 12 مئی 2021

Ahtasham Riaz

احتشام ریاض

میرے پاس سو روپے تھے اور میں اسے مسجد کے گلے میں ڈالنے کے لئے لے گیا تھا۔ ایک ٹوٹے ہوئے بیس روپے بھی تھے، جو میں نے خوشبو چھڑکانے والے کو دے دیے۔ دراصل یہ بیس روپے وہ تھے، جو میں مسجد کے دروازے پر بیٹھے ہوئے مسکینوں کو دینا چاہتا تھا، لیکن کیونکہ میں غلطی سے خوشبو چھڑکانے والے کو بھول گیا تھا، اس لئے وہ سامنے آیا، تو میں نے وہی بیس روپے اسے دے دیے۔


عام دنوں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ میرے باہر نکلنے تک مساکین جا چکے ہوتے ہیں، اور میں سکون سے نکل آتا ہوں، لیکن آج دعائیں مانگنے کے باوجود ایک عورت وہیں بیٹھی رہی چوکھٹ پر، اور میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ بچا، کہ میں وہ سو روپے اسے دے دوں، اور مسجد کے گلے کا ادھار کر آؤں۔
میں نے اپنی نیت، اپنی کراہت، اپنے ضمیر سے بہت جنگ کی، لیکن فتح اس مسکین عورت کی ہی ہوئی۔

(جاری ہے)


مجھے خوشبو چھڑکانے والے کو دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا تھا، کہ میں نے غلطی کر لی ہے، اور اب کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا میرے دل و دماغ کے ساتھ۔ کوئی کشمکش، کوئی چپقلش، کوئی کھینچا تانی ضرور ہو گی ان دونوں میں۔
مسجد کی صفوں میں باسکٹ لے کر چندہ جمع کرنے والے میرے چاہنے کے باوجود میرے قریب سے گزر گئے، اور میں انہیں بلانے کی جرأت نہ کر سکا۔

اتنے سارے لوگوں میں کوئی کیسے آواز دے کر بلا لے کسی کو، اور جو ہو بھی ایک معزز آدمی۔
چلو ٹھیک ہی ہوا ہے، اتنے سارے لوگوں میں سو روپے دیتا ہوا بھی عجیب سا لگتا ہے بندہ، چپکے سے گلے میں ڈال دوں گا‘، میں نے اپنے آپ کو دلاسہ دیا۔
اور پھر جمعہ کے دو فرض ادا ہوتے ہی اس عورت نے صدائیں لگانی شروع کر دیں۔
’وے میرے بھائیو میری غریب کی مدد کر جاؤ، وے میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، وے میرے چھوٹے چھوٹے بچے دعائیں دیں گے، کوئی صدقہ، خیرات، فطرانہ دے جاؤ‘۔


فطرانے کا سن کر میرا دل پسیجنا شروع ہو گیا،
’فطرانہ دینا تو ہے ہی، ایک سو اسے دے دیتا ہوں‘ میں نے کوئی پر امن حل نکالنا چاہا۔
’لیکن یہ فطرانے میں شمار نہیں ہو گا، یہ تو میں مسجد کے گلے میں ڈالنے کے لئے لایا تھا‘، کوئی اور آواز آئی۔
اتنے میں اس عورت کی صداؤں نے میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا۔
’یا اللہ میرا اتنا قصور بھی نہیں ہے، تجھے پتہ ہی ہے میں کتنا امیر ہوں۔

میرے بیوی بچوں کو پتہ چل جائے، تو وہ ویسے ہی نہ چھوڑیں مجھے۔ تو کیوں میرے دل کو اتنی تکلیف دے رہا ہے اس مسکین کی صداؤں سے‘۔
میں نے اسی شش و پنج میں نماز مکمل کی، اور مکمل ہی کی بس۔
اس مسکین عورت کی آواز بڑی دلدوز اور  اس کے الفاظ بہت تکلیف دہ تھے۔
’وے میرے بھائیو، میری بات کا یقین کرو، وے میرے گھر دیکھ لو جا کر، وے میرے چھوٹے چھوٹے بچے، وے میرا کمانے والا نہیں ہے کوئی، وے میرے بچوں نے عید کرنی ہے، وے مجھ پر ترس کھاؤ‘۔


میرے تو جسم میں لرزہ طاری ہونے والا ہو گیا۔
میں نے اپنی توجہ بدلنے کی کوشش کی۔
’یہ سب پروفیشنل ہوتے ہیں۔ یہ سب ان کا آرٹ ہے۔ ان کے گھروں میں بوریاں بھری ہوئی ہیں پیسوں کی، اور مسجد میں مانگنا تو ویسے ہی منع ہے، اور مسجد میں مانگنے والے کو دینا بھی نہیں چاہئے‘ میرے اندر کئی ایک آوازیں ایک ساتھ بولنا شروع ہو گئیں۔
میں ابھی دعا مانگ رہا تھا اور کسی فیصلے پر نہیں پہنچا تھا، کہ میں نے کیا کرنا ہے۔

بس میں چاہتا تھا، میں اپنا سو روپیہ مسجد کے گلے میں ڈال کر نکل جاؤں کسی طرح۔
’اے، چلو یہاں سے، تمہیں پتہ نہیں ہے مسجد میں نہیں مانگتے‘ میں نے کوئی سخت سی آواز سنی۔
میں نے سوچا، چلو ہو سکتا ہے، وہ عورت چلی گئی ہو۔ لیکن میں نے دعا ختم کر کے کنکھیوں سے دیکھا وہ وہیں دہلیز پر بیٹھی تھی۔ مسجد میں صرف میں یا ایک آدھ اور نمازی بچا تھا۔


بات دراصل یہ تھی، کہ مسجد کا گلہ، دروازے کے قریب ہی رکھا تھا، اور وہیں وہ مسکین عورت بیٹھی تھی۔ میرا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا، کہ میں اس کے سامنے سو روپے گلے میں ڈال دوں اور اسے نہ دوں۔ وہ کیا سوچے گی، اس کا دل کس طرح دھڑکے گا۔ اسے کتنا افسوس ہو گا، کہ یہ سو روپے اسے مل جاتے تو کیا تھا۔
’اگر مجھے روکنے والی آوازیں اتنی زیادہ نہ ہوتیں، تو میں اس مسکین کو ضرور دے دیتا اپنے یہ سو روپے۔

لیکن بندہ کیا کرے۔ کہتے ہیں نہیں دینا چاہئے‘ یہ میری آخری سوچ تھی، بقائمی ہوش و حواس۔
اس کے بعد جب ریک سے اپنے جوتے اٹھا کر میں نکلنے لگا، تو صرف اتنا ہوش ہے مجھے کہ میں نے سوچا، دوسرے دروازے سے نکل جاؤں، لیکن وہاں بھی ایک عورت کو بیٹھے دیکھ کر، میں نے سو روپیہ اسی مسکین کو دینے کا فیصلہ کیا، اور دروازے تک آ گیا۔ میں اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا، اس کے سامنے سو روپیہ گلے میں ڈال کر، اور اسے نہ دے کر۔


’یا اللہ مجھے معاف کر دینا‘ میرے لاشعوری طور پر بولے ہوئے آخری الفاظ تھے۔
میں نے اس مسکین عورت کو سو روپیہ دیا، اور مسجد سے باہر آ گیا۔
مجھے اس کے ہاتھ کی رنگت سے محسوس ہوا، وہ پروفیشنل نہیں ہے۔
’یا اللہ یہ کیسی آزمائشیں ہیں تیری۔ تو بس معاف کر دینا کسی طرح۔ میں تو ویسے ہی تیری دنیا کے قابل نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ میں معافیاں مانگتا ہوا گلی سے گھر تک آ رہا تھا، اور مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اکثر سوچتا ہوں، یہ غریب مسکین بھی اللہ کی رحمت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو پتہ نہیں ہمارے دل کتنے سخت ہو جائیں۔ ان کی وجہ سے کچھ نہ کچھ خوف خدا موجود رہتا ہے ہمارے دلوں میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :