ہم اصل سے گمشدہ لوگ؟

منگل 30 مارچ 2021

Aiman Arif

ایمن عارف

وقت نے فرصت کی گود میں سر رکھا تو خیالات کسمسانے لگے۔ عصر کا کچھ حصہ زندگی کی کہانی کے نام ،اپنے اندر ونی کرداروں سے ملاقات اور اگلے حصے کی تیاری میں گزراتو سوچنے لگی
کیا ہم اپنی اصـــل پہچانتے ہیں؟
 کیا ہم جانتــے ہیں ہم کھو گئے ہیں؟
کیا ہم جانتــے ہیں ہم اپنـی اصـل سے گمشـدہ ہیں؟
 ضمیر سے آواز آئی نہیں ہم تو اپنی اصـل سے دور اس دنیـا کے کھلـونوں میں محو ہو گئے، اپنی تشنـگی کا پردہ بھی نہیں سمجھتـے ہم گم ہو گئے، خود فریبی میـں ۔


 اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی بندگی کا فریضہ انجام دینے کے لیے دنیا میں بھیجا مگرحقیقتِ حال تو یہ کہ ہم اپنے مقصدِ تخلیق کو دنیاوی مصروفیات اور مادی محبت کی وجہ سے فراموش کرچکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی طرف عدمِ توجہ، عبادات، اللّٰہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی ہمارے سینوں سے نکلتی جارہی ہے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ اپنی اصل کھودینے اور اپنے مقصد کو بھول جانے کا احساس بھی ہمارے اندر موجود نہیں۔

(جاری ہے)

احساس کا خاتمہ اور قدرو قیمت سے لاعلمی آہستہ آہستہ ہمیں گمراہی کی طرف مائل کرتی چلی جا رہی ہے۔
اور ہم کبھی غور تو کریں کہ خود کو کن اعمال کے حوالے کر دیا ہے؟ کن اعمال نے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے؟کیا یہ رات دن، مال کمانے کی حرص کا عمل ہے؟میری سوچ ہراساں ہے کہ انسان کو مال بنانے کے لیے تو دنیا میں نہیں بھیجا گیا نا؟ ٹھیک ہے رزق کمانا جائز ہے لیکن زندگی کو مال کے لیے وقف کر دینا کیا ہے؟یہ تو فقط حد سے بڑھی ہو ئی لالچ ہےاور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم دوسروں کو نیچا دکھائیں اور یہ ثابت کریں کہ میری کامیابی دراصل کامیابی ہی نہیں تمہاری ہار بھی ہے!! تو یہ کیسا عمل ہے؟
 ہمیں بس اپنے کام سنوارنے کی فکر ہے،ہمیں فرصت ہی نہیں کہ رکیں، دیکھیں کہ لوگ بیچ راستے میں پریشان ہو کر کیوں بیٹھ گئے ہیں، انکی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائیں۔

اچھا عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہے تو وہ برے عمل کی زنجیریں کاٹتاہے۔ غلامیت سے آزاد کرواتا ہے۔اور اچھا عمل کتنا بھی معمولی ہو، اگر اس میں مستقل مزاجی شامل ہو جائے تو وہ پہاڑ جتنا بلند ہو جاتاہے۔اور یہ عمل میزان پر بھی بھاری پڑ جاتا ہے۔ ہم اگر آج دنیاوی معاملات میں کچھ مخصوص دنوں کو دوسرے دنوں پر زیادہ فوقیت دیتے ہیں، ان دنوں کو تزک و احتشام اور دھوم دھام سے مناتے ہیں تواس کے پس پردہ بھی یہی مقاصد کار فرما ہوتے ہیں۔


 ہم یومِ مزدور، یومِ تکبیر اور یومِ پاکستان مناتے ہیں تو محض ان کو Celebrate کرنا ہی مقصد نہیں ہوتا بلکہ وہ ایام ہمیں قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں، اپنے مقاصد کو ہمیشہ ذہن میں زندہ رکھنے کے لئے مہمیز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بقاء اور ترقی کے لئے اپنے کردار کو مزید نکھارنے کو دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی دنوں میں سے چند دنوں اور راتوں کو بھی اس لئے فضیلت دی گئی کہ یہ دن اور راتیں دوسرے دن اور راتوں سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔

یہ دن اور رات ہمیں جھنجھوڑتے ہیں اور ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اس منصب کے مطابق کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
"شب برات" براۃ بمعنیٰ "نجات" اور" شبِ برات" کا معنیٰ ہوا" گناہوں سے نجات کی رات"۔یہ مبارک ساعت بھی ان خاص ایام کے قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک اہم رات ہے، جو ہمارے احساسِ زیاں کو اجاگر کرتی ہے۔

ہماری بھولی ہوئی اصل یاد دلانے آتی ہے اس لئے کہ قرآن کریم کا الوہی پیغام "لعلکم یتذکرون""لعلکم یتفکرون"کی صورت میں ہر وقت بلند ہورہا ہے۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات ہمارے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد وفا کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللّٰہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔

اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کاموجب بنتا ہے۔ اللّٰہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
"حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ"
"حا میم اور اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔

بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتاہے۔"
جب میں نے شب برات کا دوسرے دنوں اور راتوں سے موازنہ کیا تو شب برات دوسرے شب و روز سے بالکل مختلف نظر آئی کیونکہ اگرعیدالاضحٰی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے احکامات کی بجاآوری کا صلہ تو رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کے عوض عیدالفطر کی خوشی عطا کی جاتی ہے۔

اگر ایک کا تعلق ہمارے باہمی معاملات سے ہے تو دوسری احکامات کی بجا آوری کا صلہ اور انعام ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو قیام کرو اور اس کی صبح کا روزہ رکھو کیونکہ اس رات کو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت غروب آفتاب سے لے کر آسمان دنیا پر آکر پکارتی ہے: ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی رزق کا طالب میں اس کو رزق دوں، ہے کوئی بیمار جو شفا طلب کرے، میں اس کو شفا دوں، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔


ذرا غور تو کیجیے کوئی خط نہیں لکھنا کہ پہنچنے میں کئی دن لگیں گے، کوئی میسج نہیں بھیجنا کہ پتا نہیں پڑھا جائے کہ نہ پڑھا جائے، کسی خاص جگہ نہیں جانا کہ وہاں جائیں گے تب ہی پکار سنی جائے گی۔۔۔فرمایا ہے کہ پکارنے والے اس رات پکاریں تو سہی، میں سنتا ہوں۔ رب سنتاہے۔ وہ دل میں پکاریں، وہ کرب میں پکاریں، وہ خوشی میں پکاریں، وہ شکر اور عاجزی سے پکاریں، وہ سنتا ہے۔

جب سننے والے نے ایسی زبردست گارنٹی دے دی توہم پکارنے والے کس انتظا رمیں ہیں؟ہم کس لیے اپنے لب، اپنی طلب روکے ہوئے ہیں،ہم پکاریں کہ رب سن رہا ہے، وہ عطاء کرنے والا ہے، وہ ہر اختیار پر اختیار رکھتاہے، ہمارے دکھ، مصیتبیں، سب دور ہو جائیں، اگر دعا کی رسی مضبوطی سے تھام کہ پکاریں کہ ہر پکار سنی جاتی ہے، ہر دعا قبول ہوتی ہے۔وہ تو اس رات ’’بنی کلب‘‘ کی بکریوں کے بالوں کی گنتی سے زیادہ اپنی مخلوق کو بخشتا ہے۔


اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کا جائزہ ہی لیں تو ہمیں یہ احساس پیدا ہو جائےاور عبرت حاصل ہو جائے کہ ہم آئے روز اپنے بہت سے اعزاء و اقارب اور دوست احباب کو "کل نفس ذائقۃ الموت" کے ارشاد کے مطابق اپنے سے رخصت کرتے ہیں۔ اُن کا رخصت ہونا کیا اصل میں ہمارے لئے دعوتِ فکر ہے کہ ہم نے اپنے لئے کیا ساماں تیار کررکھا ہے؟
شب برات ایک ایسی رات اور سنہری موقع ہے کہ دنیا و آخرت کے سنوارنے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کو ختم کرکے قربت کی طرف ایک الارم ہے۔

حب الہٰی اور محبت رسول صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک دعوت ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر ہم گناہگار بھولے بھٹکے انسان دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں ۔یہ مبارک رات ہمارے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ اس رات ہماری آنکھیں اللّٰہ کی یاد میں اشکبار ہوں۔ یہ رات اللّٰہ کے فیوضات کا بحرِ بیکراں ہے جس میں غوطہ زن ہوکر اپنے من کو سیراب کیا جاسکے۔

لیکن آج کے دور میں ہم اس کے برعکس اس رات کو پٹاخوں اور آتش بازی جیسے کاموں کی نذر کردیتے ہیں۔ لوگ گمشـدہ اپنوں کے بارے میں اعلان کرواتے ہیں، ہم بھی تو اپنی راہ سے گم اللّٰــہ کے بنـدے اللّٰـہ کے پیارے ہیں، اور اللّٰہ تو ہـر آذان کی آواز، حـق کی جانب پـکارتی ضمیـر کی آواز کے ساتھ اپنےاپنوں کو آواز دیتـا ہـے،کہ اپنی اصل کو پہچان کر سجدہ ریز ہو جاؤ۔تمہاری تلاش کو آسان کر دیا ہے تمھارے رب نے۔
اللّٰہ سبحان و تعالیٰ ہمیں ہر بدعت سے محفوظ رہنے کیلئے کوشاں رکھے۔اور اس مبارک رات میں اپنے ہدایت سے نواز دے۔آمین ثم آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :