محمد مصطفیٰﷺ آئے مرحبا مرحبا

جمعہ 8 اکتوبر 2021

Aiman Arif

ایمن عارف

ماہِ میلاد لے کر بہار آگیا
پھول مہکے چمن پر نکھار آگیا
بلبل خوش نما گیت گانے لگے
جھونکے  خشبو کے جنت سے آنے لگے
درد میں ڈوبے دل مسکرانے لگے
 غم کے مارے بھی خوشیاں منانے لگے
وجد کرنے لگا آج عرش بریں
جھوم کر بول اٹھے آسمان و زمین
مرحبا پیکرے دل ربا آ گئے
 مچ گئی دھوم خیرالوریٰ آگئے
کل شب اپنی ایک college سے گفتگو میں موسمِ بہار  کا ذکر چھڑ گیا۔

۔
گفتگو نے طول پکڑا کہ بہار اپنے جوبن پر آئے تو ہر طرف ایک ترنگ، سرمستی، چہکار اور خوشی کا عالم ہوتا ہے۔ فضا گیت گاتی، ہوا مست و بے خود ہوجاتی ہے۔بہار کے موسم میں‌ رنگ برنگے پھول باغات میں‌ خوش بُو لٹاتے نظر آتے ہیں۔ شجر گویا ہرا رنگ اوڑھ لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

موسمِ بہار کی مناسبت سے پھول خوشی و مسرت کا احساس دلاتے اور ہمیں  فطرت کی طرف بلاتے ہیں۔


کیسے ممکن تھا ذکر نعمتِ رب ذوالجلال تو ہوتا اور وجۂِ نعمتِ رب ذوالجلال نا ہوتا؟.وہ مجھ سے پوچھنے لگیں : فرض کریں آپ کی ملاقات اس ربیع الاول میں رسول اللّٰہ  ﷺ سے ہو تو آپ کیا کہیں گی؟
میں نے لحظہ بھر کے لئے خود کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے محسوس کیا ، اور خود میں خوشی کی لہروں کو دوڑتا اور   سر سے لے کر پاؤں تک خود کو کانپتا پایا، دل کو ورد کرتا پایا کہ "جب بھی حضور ﷺکی بات آئے تو عقل سےرابطہ مت کرنا عشق سے رابطہ کرنا "پھر عشق سے رابطہ کرتے ہوئے کچھ کہنے کی جسارت تو کی لیکن کہہ نہ سکی۔

زبان نے ساتھ ہی نہ دیا, آنکھوں سے آنسوؤں کی قطاریں بند گئیں ۔۔۔ کہ رسول اللہ ﷺ سے میرے عشق کا یہ بیان، میری حیات کی کمائی، چند بے ادب الفاظ میں کیسے سمیٹ لوں؟ کیسے اپنی خوشی کا اظہار کروں؟جن  سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے  رب العالمین نے تمام جہانوں کو تخلیق کر دیا۔ اظہار کو الفاظ دینا تو ممکن نا ہوا لیکن  الحمدللہ میں ان امتیوں میں سے ہوں جن کے لیے  ربّ العزت نے میخانہ معرفت کے دروازے کھول دئیے۔


آج سے کچھ دن بعد جس ماہِ نور یعنی "ربیع الاول" کی آمد آمد ہے اس مبارک مہینے میں یہ مئے طہور مولودِ مسعود تولد ہوئے۔دو شنبہ کا وہ دن ،صبحِ صادق کی ضیاء بار سہانی گھڑیوں کا اجالا ہماری بخششوں کا سامان بن کر پھیلنے لگا۔ اس وقت موسم بہار کی ابتداء تھی۔ تو اس من موہنے مکھڑے کے صدقہ سے ہی بہار کو اتنی فطرتی مسرتوں سے نوازا گیا اور بس اس موسم بہار  کو ہی نہیں بلکہ اس نورانی پیکر کے جلوہ فرمانے سے تمام انسانیت جو ظلم و ستم کی آہنی شکنجوں میں کسی ہوئی کراہ رہی تھی اس کے بختِ خفتہ کو بھی بیدار کر دیا گیا۔


وہ مہینہ کہ جس میں طیورِ خوش نواز مزمہ سنج ہوئے کہ خزاں کی چیرہ دستیوں سے تباہ حال گلشن انسانیت کی سرمدی بہاروں سے آشنا کرنے والا آگیا۔ سر بگریباں غنچے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انہیں جگانے والا آیا اور جگا کر انہیں شگفتہ پھول بنانے والا آیا۔ افسردہ کلیاں مسکرانے لگی تھیں کہ ان کے دامن کو رنگ و نکہت سے فردوس بداماں کرنے والا آیا۔

علم و آگہی کے سمندروں میں حکمت کے جو آبدار موتی آغوش صدف میں صدیوں سے بے مصرف پڑے تھے ان میں شوقِ نمودانگڑائیاں لینے لگا۔
ہر طرف اُس بہار(ربیع الاول) کی آمد کا شور ہے کہ جس میں ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق زور وشور ،شوق و لگن کے ساتھ اس کے استقبال میں مصروف ہے۔نا صرف جن و انس بلکہ رب العالمین بھی اپنے عرش کو اپنے محبوبﷺ کے لیے سجا رہا ہے۔

میرے رب نے سورہ یونس کی آیت نمبر 58۔میں حکم دیا کہ:
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ.
’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ   کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’بے شک! سرور عالم ﷺ    کی شب ولادت شب قدر سے بھی افضل ہے، کیوں کہ شب ولادت سرکار مدینہ ﷺ      کے اس دُنیا میں جلوہ گر ہونے کی رات ہے۔ جب کہ لیلۃ القدر آپ ﷺ کو عطا کردہ شب ہے اور جو رات ظہور ذاتِ سرورِ کائنات  ﷺ   کی وجہ سے مشرف ہو وہ اس رات سے زیادہ شرف و عزت والی ہے جو ملائکہ کے نزول کی بنا پر مشرف ہے۔

‘‘
پھر وہ ابولہب جس نے ﷲ عزوجل کے رسول  ﷺ   کے تولد ہونے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اپنے بھتیجے کی ولادت کی خوشی منائی تو  اس کے اس عمل کی وجہ سے قیامت تک ہر سوموار کو اس کے عذاب میں تخفیف کا  بدلہ ملا تو ہم اگر ﷲ عزوجل کی رضا کے لیے اپنے آقا و مولیٰ محمد رسول ﷲ   ﷺ  کی ولادت کی خوشی منائیں گے تو کیوں کر محروم رہیں گے؟
ہمیں اشرف المخلوقات بنایا گیا لیکن ہم اسفل السافلین کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبنے کے لیے بخوشی تیار رہنے لگے۔

ہمیں عشقِ  الہی و مصطفی   ﷺ    سے معمور دل دیا گیا مگر ہم نے اس دل میں غیر کی محبت کو بسا لیا ۔اسلام کو ہمارے لئے بطور دین منتخب کیا گیا مگر ہم نے اس کی بھی قدر نہ کی اور بالآخر ہمارے اسلام میں بھی مغربی رنگ جھلکنے لگا۔
وہ خوشی جس کا اظہار خود رب ذوالجلال نے  کیا اور پھر اسے ہمارے ایمان کی اساس قرار دیا ہم نے اس خوشی کے اس دن کو فقط تہوار  میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔

گلیاں سجائیں جھنڈیاں لگائیں ،چراغاں کیا مگر تہی دامن لئے واپس آ گئے ۔دل تاریک تر ہوتے چلے گئے اور انتظامات تیز تر ہوتے چلے گئے۔
یہ سچ ہے کہ ہم میلاد النبی   ﷺ کو بڑی عقیدت سے ہر چھوٹے بڑے پیمانے پر منعقد تو کرتے ہیں جسں سے محبت کو اظہار مقصود ہوتا ہے اور ہم گاہے بگاہے کریم آقا ﷺ  سے اپنی عقیدتوں کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ دن خاص دن ہوتا ہے سو ہم خاص جذب و عقیدت سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہاں ایک اہم نکتہ آپ کے گوش گزار کر تی چلوں کہ ہم اظہار محبت کرتے کرتے جانے انجانے میں ریاکاری کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ہر سال منعقد ہونے والی محافل و مجالس بسلسلہ  میلاد النبی ﷺ نمود و نمائش کا شکار ہوتی چلی جارہی ہیں ہم بہتر سے بہترین انتظامات تو کرتے ہیں اور دل کے دریچوں میں صرف ایک آرزو سر اٹھا رہی ہوتی ہے کہ ہماری واہ واہ ہو لیکن ہمیں اس پہلو پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔


پھر یہ کہ اس مبارک ماہ میں جابجا سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے میں صمیمِ  قلب سے ایسے درد دل رکھنے  والے اہل علم کی مشکور ہوں لیکن ان کانفرنسز  میں پیش کی جانے والی سیرت مبارکہ کی جھلکیاں کیوں ہمارے کردار میں پیدا نہیں ہوتیں ۔کیا مقصد صرف کانفرنس میں شرکت کرنا اور لنگر شریف کھانا ہوتا ہے؟ نہیں بالکل نہیں! ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زبانی اظہار محبت  کے ساتھ ساتھ اپنے افعال و کردار سے محبت کا اظہار کریں کیونکہ محبت کی انتہا یہی ہے کہ آپ اپنے محبوب کی من پسند اداؤں کو اپنا لیں یہی محبت امر ہو کر مقبول خاص و عام ہوجاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :