
یاد کی وہ پرچھائیں۔۔۔۔!!
بدھ 10 مارچ 2021

ایمن عارف
کوئی موسم وصل و ہجر کا۔زندگی کی سڑک کے کنارے لگے سائن بورڈ پر دکھ لکھا ہو،خوشی لکھی ہویا وہی بے نام سی اداسی۔یاد کی یہ پرچھائیں ہاتھ پکڑ کر اٹھتی ہےکبھی کبھی دکھ میں ڈھارس دے جاتی ہے۔خوشی اور کامیابی کے لمحوں میں آنسو بن کر بہنے لگتی ہےاور دنیا کی اس بھیڑ میں اپنی "کمی" کا احساس دلا کر اداسی کی سرد اوڑھنی کو اور بھی زرد کر دیتی ہے۔پھر آس پاس ایک میلہ بھی لگا ہو تو سب خالی خالی لگتا ہے۔ ویرانی ہی ویرانی حد نگاہ تک رہتی ہے۔
سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ ہم رفتگاں کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں اور اگر رفتگاں میں جانے والی ہستی ماں کی ہو تو نا ممکن سی بات ہے کہ ماں کی یاد کو بھلایا جا سکے۔ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا ۔
(جاری ہے)
خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا ہے ۔
ماں وہ دُعا ہے جو ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر اُن کی حفاظت کرتی ہے ۔ خُدا نے اس کے عظیم تر ہونے کی پہچان کرائی اس عظیم ہستی کے قدموں تلے جنت رکھ کر ۔ اب جس کا جی چاہے وہ اِس جنت کو حاصل کر سکتا ہے ۔اِس کی خدمت کر کے، محبت کرکے اوراُسے عزت و احترام دے کر ۔۔ہر رشتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے مگر ماں کے رشتے میں کوئی خود غرضی شامل نہیں ہوتی ۔ جو دُنیا میں سب سے زیادہ پُر خلوص ہے اُس کی زندگی کا محور صرف اور صرف اُس کی اولاد ہوتی ہے ۔ دُنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اُس کی دُعائیں سائے کی طرح پیچھا کرتی ہیں اور اُس کی دُعاؤں ںسے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے ، وہ بے قرار ہوتو عرش کو ہلا دیتی ہے ۔ جب دنیا سے جائے تووہ جاتے ہوئے اپنا عکس بچوں میں چھوڑ جاتی یے۔اس کی محبت کی طاقت کو موت بھی شکست نہیں دے سکتی۔اس دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے میں ماں کے وجود کا حصہ تھی اور اب میری ماں دنیا سے جانے کے بعد میری ذات کا حصہ ہے۔میں سارا سال یاد کی اس راہ گزر پر چلتی رہتی ہوں ۔ تکتی رہتی ہوں ارد گرد اسکی یادوں سے بھری ہر شے کو جیسے کوئی مسافر گاڑی سے باہر تکتا رہتا ہے منزل تک پہنچنے سے پہلے۔محبت کی یہ دنیا بڑی ہی انوکھی ہے جو ہر کسی کو دکھائی اور سنائی نہیں دے سکتی۔یہ رازو نیاز اور محبت کے بھید وہی جانتاہے جو اس سے گزر رہا ہو۔یاد کی اس راہ گزر پر چلتے چلتے بالآخر وہ دن آ جاتاہے جب تقدیر نے سب سے بڑا ہجر ہماری قسمت میں لکھا تھا ۔ہائے وہ2007 کا وہ مارچ ۔جس کا آغاز ہی جان لیوا تھا۔ 8 اور 9 مارچ کی درمیانی رات ہماری جنت ہم سے روٹھ گئی تھی۔
ہجر کی بات پرانی ہے
موت تو سب کو آنی ہے
لیکن زیست سمندر میں
تیرے ایک بچھڑنےپر
آج تک خیرانی کے!!
اس دکھ نے پھر زندگی میں خوشی غمی،سودوزیاں،غم وراحت کے پیمانے نئے سرے سے ترتیب دئیے۔یہ دکھ یہ تکلیف زندگی کے میلے سے کسی کا محض چلے جانا نہیں تھا ۔ماں کی جدائی ایسی تھی جس کے چاک پر گھومتے گھومتے ہماری زندگیوں کے برتن نئے سانچوں میں ڈھلےکہ یکسر ہی انکی اشکال بدل دی گئیں ہوں جیسے۔زندگی یقیناً وہ نہیں رہی جو امی جان کے ساتھ ہوا کرتی تھی ۔وہ بہار کے دن خزاں میں ایسے بدلے کہ پھر ہم نے کبھی بہار دیکھی ہی نہیں مڑ کے۔میں اکثر سوچتی ہوں اگر امی جان اتنی جلدی ہمیں چھوڑ کر نا جاتیں تو کیا زندگی کے عنوان اور طرح سے لکھے جاتے؟ اسکا جواب بھی میری اپنی ہی ذات ہے "ویسی نہ ہوتی"۔ماں کی جدائی نے میرے احساس کو ایسا سیراب کیا کہ پھر اس پر الفاظ کے بند کاشت ہونے لگے ۔شعر اگنے لگےاور خیالات لہلہانے لگے۔
ہر تخلیق کا منبع شدید اور گہری اداسی ہوتی ہے،میں بھی اگرچہ پہلے ٹوٹے پھوٹے شعر کہتی اور تحریر لکھتی لیکن پھر بعد میں تو یوں لگا کہ زندگی کی ساری اداسیا ں اس ایک ہجر سے ہی پھوٹتی ہیں ۔
حامد سراج میاں کو پڑھتے ہوئے لفظ آنسوئوں میں دھندلانے لگتے ہیں جو ماں سے بچھڑنے کا دکھ سہہ چکا ہو ،آس کو اس طویل نظم کی سطر میں اپنے غم کے عکس دکھاتی ہیں اور پھر مائیں تو ہوتی ہی سانجھی ہیں ۔ان کے بچھڑنے کا غم بھی سانجھا ہوتا ہے۔
اپنے مادر علمی ( جامعہ محمدیہ غوثیہ للبنا ت الفاطمہ کیمپس نمبر 1 بوکن شریف گجرات) کے ایک پروگرام میں مجھے ایک سو چار سالہ اماں جی ملیں۔جہاں میں نے 6 سال اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔طویل العمر کی مشقت سے درماندہ صرف جسم ہی نہ تھا ذہن اور یا داشت بھی اس کے زیر اثر تھی۔اپنا نام بھی ٹھیک سے یاد نہیں تھا ماضی کی باتیں مگر بڑے شوق سے سنا تیں،اپنی ماں کے ذکر پر انکی آنکھیں رند گئیں۔کہنے لگیں ،ماواں ٹھنڈیاں چھاواں،ماواں فیر نئیں لبھدیاں اور میں حیرت زدہ آنکھوں میں آنسؤوں کا سمندر لیےانکو دیکھ رہی تھی کہ ایک صدی سے اوپر عمر سے خود دادی پڑدادی بن چکی ہیں۔نام تک اپنا ٹھیک سے یاد نہیں لیکن نہیں بھولی تو اپنی ماں۔ہائے کیا ہوتی ہے ماں کہ بھولتی ہی نہیں ہے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہےلیکن اپنے بچوں کے دل کی مکین بن کر ہر پل انکی زندگی میں شریک رہتی ہے۔
اللّٰہ پاک سب بچھڑنے والی ماؤں کو خاتون جنت کی کنیزوں میں شامل فرما دے۔آمین ثم آمین۔ماں کو بچھڑے ہوئے کتنے برس ہو گئےمگر آج بھی مارچ کا آغاز ہوتاہے تو اس کی آمد میں اسی ہجر کی چاپ سنائی دیتی ہے، تکلیف جیسے نئے سرے سے محسوس ہونے لگتی ہے اور دل ایک زرد اداسی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔بوجھل بوجھل سا رہتاہے پھر کچھ نہ بن پڑے تو ماں کی یادکو آنسوؤں کا نظرانہ دے دیتے ہیں۔ان کے ایصال ثواب کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں۔صدقہ و خیرات کر کے دلی سکون پاتے ہیں۔آج 8 مارچ ہے جس روز کالم چھپے گا جانے وہ کونسا دن ہوگا ۔پر میری ذات کی افسردگی میرے قلم تک آئی تو سہی پر حقیقت بیان سے تک نہ پہنچ سکی۔شاید یہ کرب ہے ہی بیان سے باہر۔الفاظ کی قید سے آزاد۔اور اولاد کے لیے تا عمر کا خالی پن۔
عقل میری سر بہ زانو آنکھ نم
قلزمِ خاموش تیری یاد ہے ماں
جس طرح ہو رات کوئی صبح دم
جس طرح شب صبح کی امید ہے
اِس طرح ہے موت سب کے ہم قدم
اہلِ ایماں کو پیامِ عیش ہے
حکم کا پابند ہے لائے گا یم
تو بھی کر پابندیِ حکمِ خدا
اے تلون کیش! اب تو دم بہ دم
ماں کی یاد ایک پرچھائیں ہے
جو سدا ساتھ ساتھ رہتی ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ایمن عارف کے کالمز
-
کون اقبال؟
منگل 9 نومبر 2021
-
محمد مصطفیٰﷺ آئے مرحبا مرحبا
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
بابا جانی کے نام
جمعہ 24 ستمبر 2021
-
وطن کی مٹی گواہ رہنا (یوم دفاع)
پیر 6 ستمبر 2021
-
ہم اصل سے گمشدہ لوگ؟
منگل 30 مارچ 2021
-
یاد کی وہ پرچھائیں۔۔۔۔!!
بدھ 10 مارچ 2021
-
نیت کا قبلہ
ہفتہ 27 فروری 2021
ایمن عارف کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.