نیت کا قبلہ

ہفتہ 27 فروری 2021

Aiman Arif

ایمن عارف

میں اپنی قسمت پہ نازاں ہوں کہ میں ایسے زمانے میں ہوں کہ جہاں اگر آپ علمی خاک چھاننے سے دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر اس راہ میں باہتمام شوق جادہ نووردی کرنے والوں میں سے کسی سے آپکی شناسائی ہے تو میرا خیال ہے کہ آپ اس حقیقت سے ضرور واقف ہوں گے کہ اب تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور تحقیق و جستجو کا بھی حسن رواج قائم ہے۔

ہاں! ایسی کئی شخصیتیں آپکو مل جائیں گی جنھوں نے عمدہ اور منفرد موضوعات پر اپنے قلم حق رقم سے رہنما کتابیں تصنیف فرمائیں اور وقتِ اجل آنے پر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیں۔ مگر ان کے بالمقابل معروف و مشہور موضوعات و عناوین پر بھی خامہ فرسائی کرنے والے چھوٹے بڑے ایسے انگنت افراد ہیں جنکی وجہ سے یہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ڈھب ابد الآباد تک یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔

(جاری ہے)

اس خامہ فرسائی کےسلسلے کو جاری رکھتے ہوئے میں نے اپنا قلم نکاح کے موضوع پر اٹھایا ہے۔
کہ نکاح محض جنسی خواہش کے پورا کرنے کی سندمل جانےکا نام نہیں بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے ،یہ تو انبیاءکی سنت ہے۔قرآن میں ہے کہ " وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً" "ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا " ۔

اوریہ اللّٰہ کے افضل ترین بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے : ” نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے ” ۔چونکہ ہم انسا نوں کی عقل بہت محدود ہے ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کہاں خیر چھپی ہے اور کہاں شر۔ انسان تو آنکھ ,ورنہ عقل پربھروسہ کرتاہے۔ ہماری آنکھ آج بھی معمولی سے معمولی جراثیم نہیں دیکھ سکتی ہم تو یہ تک نہیں جانتے کہ جس پھل کو ہم صحت کیلیے کھا رہے ہیں، دراصل اس میں کوئی بیماری چھی ہے۔

ایک بہت طاقت ور عدسہ جو جراثیم دیکھتا ہے اور ایک الگ سے ٹیسٹ ہوتاہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ صحت کیلیے کتنا نقصان دہ ہے تو وہ عدسہ"نیت کا قبلہ "ہےجب ہم اچھی خریدو فروخت کے باوجود بھی اشیاء کے فائدہ مند ہونے کی گرنٹی نہیں دے سکتے تو نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کو کیسے ماپ تول کر اسکے بہتر ہونے یا نا ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کڑوی دوا میں شفا ہے یا مٹھاس میں تباہی۔

ہم ظاہری حالات سے فلاحی حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب تک ہماری نیت کا قبلہ درست نہ ہو کیونکہ قبلہ تو ایک ہی ہوتا ہے اور وہ بھی درست ہو تو ہی عبادت کو شرف قبولیت نصیب ہوتا ہے۔
کوفے کے ایک عظیم بُزرگ حضرت سَیِّدُنا ابو محمد ، سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے ایک شخص نے اپنی زَوجہ کے متعلِّق عرض کی : اے ابومحمد! میری بیوی ہر وقت میری بے عزّتی کے درپے رہتی ہے۔

آپ سر جھکاکر کچھ سوچنے لگے پھر بولے : کیاتم نے اُس سے نکاح اِسلئے کیا تھا کہ تمہاری عزّت میں اضافہ ہو؟ اُس نے اِثبات میں سر ہلایا تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص (نکاح کے ذریعے) حُصُولِ عزّت چاہتا ہے اُسے ذِلّت میں مبُتلا کر دیا جاتا ہے ، جوشخص حُصُولِ مال کا خُواہش مند ہو اُسےفقر میں مبُتلا کردیا جاتا ہے اور جو شخص دین کا ارادہ رکھتا ہو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لیےدین کے ساتھ ساتھ عزّت اور مال بھی جمع فرمادیتا ہے۔


شادی کو اسلام میں وہ مقام حاصل ہے کہ اس رشتے کو جوڑنے اور توڑنے میں کھیل و تماشہ اور ہنسی و مذاق کی گنجائش ہی نہیں ہے ،اور آج کے زمانے میں شادی سے بڑا مذاق شاید ہی کوئی ہو۔ ارشاد نبوی ہے تین کام ایسے ہیں کہ اس سلسلے میں سنجیدگی حقیقت ہے اور ہنسی مزاح بھی حقیقت ہے ، نکاح ، طلاق اور رجعت ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تو اسے محض ضرورت نسل انسانی نہیں رہنے دیا بلکہ اس مقدس رشتے کو "نصف ایمان" فرمایا کہ جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللّٰہ تعالی کا تقوی اختیار کرے۔

اسلام نے شادی کو اتنی اہمیت دی کہ اس کے لئے کوشش کرنے والے انسان کے ساتھ اللّٰہ تعالی کی خصوصی مدد رہتی ہے ،
آج کل ہم نکاح کیلئے دین دار عورت و مرد کے اِنتخاب کے لیے کوشاں نہیں نظر آتے بلکہ پیسہ،گاڑی ،بینک بیلنس اور بڑی بڑی عمارات کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ عزّت و مال عطا فرما دیتا ہےاگر ہر نیک و جائز کام کی طرح نکاح جیسی عظیم سنّت کی ادائیگی میں بھی نیّت کے قبلے کو دُرُست رکھنے کی کوشش کی جائےکیونکہ اگر نیّت کا قبلہ دُرُست نہ کیا جائے تو وَبال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اگر وَبال نہ بھی اُٹھانا پڑے تو کم از کم نکاح جیسی پیاری سنّت ادا کرنے کے ثواب سے ہی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


شادی کو اسلام میں دین کا ایک بڑا حصہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے لہذا ہر صاحب استطاعت کو چاہئے کہ وہ شادی کرے ، عالی تعلیم ، اونچی نوکری،اور کثیر مال کا حصول اس میں رکاوٹ نا بن سکے۔ممکن ہے کہ نکاح کی برکت سے اللّٰہ تعالی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و فراخی میں بدل دے ، نکاح کو نصف ایمان یا نصف دین ترغیب اوراہمیت کے پیش نظر قرار دیاگیا ۔

عام طور پر انسان کی دینی و دنیاوی بربادی یا تو پیٹ کے لئے ہوتی ہے یا پھر شرمگاہ کے لئے بلکہ عمومی طور پر یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ انہیں دونوں کاموں کی فکر وسعی میں پڑ کر لوگ دین سے دوری اختیار کرلیتے ہیں کہ اگر کسی نے شادی کرلی اپنے نصف دین کو محفوظ کرلیا تو باقی نصف کے حفاظت کی فکر ہی نہیں، اس طرح تو شادی صرف شہوت رازی کا ذریعہ بن کے رہ جاتی ہے۔

بعض جاہل لوگ تصور کرتے ہیں کہ نکاح انسانی آزادی پر پابندی ہے حالانکہ یہ ایک مبارک عمل اور اللّٰہ تعالی کے نیک بندوں کی سنت ہے ، البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی کرنے والا نکاح کی تمام فضیلت کو حاصل بھی کرلے ، لیکن اگر انسان کی نیت،اسکا دل جس کے لیے اللّٰہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر انسان کے جسم میں موجود خون کا لوتھڑا[دل] درست ہو گا تو پورا جسم درست ہو گا اور اگر یہی خراب ہو گا تو پورا جسم ہی خراب ہو گا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی ازدواجی زندگی کی ابتدا نیک نیتی سے کریں اپنے دل کے قبلے کی سمت درست رکھیں تا کہ سنت احسن طریقے سے ادا ہونے کو ساتھ ہمارے لیے خیر کا وسیلہ بھی بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :