
وطن کی مٹی گواہ رہنا (یوم دفاع)
پیر 6 ستمبر 2021

ایمن عارف
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
(جاری ہے)
دشمن نے تو شب خون مارا تھا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ یہ اقبال کے شاھین ہیں۔اور یہ شاھین جب بیدار ہوئے تو ازلی دشمن بھارت کو تگنی کا ناچ نچایا کہ رہتی دنیا تک یہ جرات اور بہادری کے کارنامے تاریخ میں درخشاں رہیں گے۔دشمن جو ناشتہ صبح لاھور میں کرنے کے زعم میں تھااسے اقبال کے شاہینوں نے اُڑانیں بھری تو دشمن پر سکتہ طاری کر کہ اسکے دماغ سے کھرچ کر رکھ دیا۔پاک فوج کے طیارے چنگاڑتے ہوئے خونخوار شیروں کی طرح دشمنوں پر کچھ اس طرح جھپٹے کہ آسمان بھی عش عش کر اٹھا۔ا سے پاک جوانوں نے انہی کی صفوں میں گھس کر گھنٹوں میں نہیں،منٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں ان پر قیامت برپا کر کے انہیں انہی کے پیروں کی دھول چٹا دی۔اور اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر یہ انسان ہیں یا فولادی اجسام۔وہیں غازی ایم ایم عالم نے تمام دنیا کو خیرت میں ڈال دیا کہ کہیں آسمان سے فرشتے تو مدد کے لیے نہیں اترے کہ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمنوں کےپانچ طیارے گرا دیے،اور تو اور میجر عزیز بھٹی نے پانچ دن تک دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی کو روکے رکھا۔ ملاحظہ تو کیجیۓ ذراکیا شوق فدائی تھا کہ اب اقبال کےشاھین برسوں ہمارے بیچ غازی ایم ایم عالم اور غازی سپاہی مقبول حسین کی صورت میں رہیں گے۔
دشمن یہ شاید بھول چکا تھا کہ جن پاکستانیوں سے وہ نبردآزما ہونے کی جسارت کر رہا ہے وہ مسلمان ہیں۔وہ باعمل مسلمان کہ جنکی گھٹی میں شامل ہے کہ جنگ وجدل میں رب کے حضور پانچوں اوقات میں سجدہ ریزہونا ہے۔اسی سے مدد کی التجا اور اسی سے فتح کی آرزو رکھنی ہے۔ان میں کچھ اللّٰہ والے تو ایسے بھی ہیں کہ جب لوگ سو جاتے ہیں تو وہ تہجد تک رب کہ حضور قیام میں کھڑے رہتے ہیں۔وہ بھول چکا تھا کہ پاکستان تو بنا ہی اسلام کی بقا کے کیے۔اسکا تو وجود ہی عطائے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم محبوبِ رب العالمین ہے۔اسی لیے تو عاشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا:
دشمن تو لاہور پر شب خون مار کر فتح کا متمنی ہوئے بیٹھا تھا پر ہمارے ربِ کائنات کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ ابھی سورج کی شق بھی نا پھوٹی تھی کہ ایسی جزبہ ایمانی سے لبریز ہوا چلائی کہ کوئی نشئی،کام چور،جوئےباز،جھگڑالو،لٹیرا،فراڈیا،باقی نا رہا،وہ لوگ کہ جن سے معاشرہ ہی نہیں انکے پیداکرنےوالے ماں باپ تنگ تھے انھیں بھی پاک فوج کا بازو بنا دیا۔وہ لوگ جو ہر کسی کے لیے ناکارہ تھے کسی کو غازی بنا دیا تو کسی کو شہادت کو رتبہ عطا کر دیا۔امیر غریب،چھوٹے بڑے،سنی شیعہ سب تمام فرق مٹا کر پاکستانی ہونے کا نعرہ لگا رہے تھے۔برائی کا کہیں نام و نشان تک نا باقی رہا تھا۔
اگر میں کہوں تو یہ کہنا ہرگز غلط نا ہوگا کہ یہ تو بظاہر اک جنگ کا منظر ہے اصل میں تو یہ وہ جزبہ ایمانی ہے کہ جو امت محمدیہ کو ورثے میں ملا ہے۔
مگر افسوس ہم نے اپنے ماضی سے سبق حاصل نہ کیا اور آج بھی ہمارے حکمران امریکہ کی جھولی میں بیٹھنے کے مشتاق ہیں جنہوں نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا اور پاکستان کی امداد کو جنگ کے موقعہ پر روکے رکھا اور ہمیں اس بری طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم دشمن کی اس چال کو سمجھ کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔
پینسٹھ (65ء)کے بعد ہماری قوم زلزلے پر اکٹھی ہوئی پھر ہم لوگ سیلاب پر اکٹھے ہوئے پھر ہم کرونا وائرس کی وبا پر اکٹھے ہوئے لیکن ہمارے حکمرانوں نے باہمی سیا ست سے ہمیں ایک دوسرے سے ایسا بیگانہ کر دیا ہے کہ اب اگر کوئی سڑک پر حادثہ پیش آتا ہے تو ہم لوگ کھڑے خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔
کیا یہ ہماری تاریخ کہ اوراق پر درج قربانیوں کی مثالوں کا خاصہ ہے؟کیا آج ہمارا ملک گوں نہ گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے تو اس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے؟ہم ہی وہ لوگ ہیں کہ دنیا کی ہوس اور لالچ نے ہمارے اندر انسانیت کے چھپے ہوئے عنصر کو ختم کردیا ہے اس قدر نفسا نفسی کا عالم ہے کہ لوگوں کے اس ہجوم میں انسان تلاش کرنا مشکل ہوگیاہے۔آج انسان کے ظاہر و باطن میں تضاد ہے اور یہ تضاد انسانیت کو موت کی جانب دھکیل رہا ہے۔
غلطی کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی ہے جس نے ہر بات کو حکومت پر ڈالا ہوا ہے اور اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اگر ہم خود قطرہ قطرہ کر کے اس ملک کہ سنوارنے میں اور اس وطن عزیز کے موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو وہ دن دور نہیں کے اس ملک کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہو سکتا ہے۔
6 ستمبر وہ دن ہے کی جب جرات و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔یوم دفاع تجدید کا دن ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان نفرتوں، عداوتوں کی خلیج کو پاٹ کر اپنی گم کردہ راہ کو پا لیں اور متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرادیں کہ ابھی ایمان کی حرارت دِلوں میں زندہ ہے۔
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ایمن عارف کے کالمز
-
کون اقبال؟
منگل 9 نومبر 2021
-
محمد مصطفیٰﷺ آئے مرحبا مرحبا
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
بابا جانی کے نام
جمعہ 24 ستمبر 2021
-
وطن کی مٹی گواہ رہنا (یوم دفاع)
پیر 6 ستمبر 2021
-
ہم اصل سے گمشدہ لوگ؟
منگل 30 مارچ 2021
-
یاد کی وہ پرچھائیں۔۔۔۔!!
بدھ 10 مارچ 2021
-
نیت کا قبلہ
ہفتہ 27 فروری 2021
ایمن عارف کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.