کون اقبال؟

منگل 9 نومبر 2021

Aiman Arif

ایمن عارف

فروغ کہکشاں کو ناز ہے جن کی جبینوں پر
یہ تلقینِ خودی پیدا کی وہ نوجواں تو نے
انھیں کے زور بازو سے ہے اب گردش زمانے کی
بدل کر رکھ دیا آخر مزاج آسماں تو نے
" اقبالؒ  کون‘‘ کے عنوان سے اپنے جذبات احساسات اور تاثرات کی ترجمانی کرنے کی بساط بھر کوشش کروں گی کہ ﷲ برترو بزرگ میری مدد اور نصرت فرمائے اور مجھے اقبالؒ کے کلامِ بلاغت کے نظام سے بھرپور استفادہ کی صلاحیت اور استطاعت سے سرفراز فرمائے! ربِّ زدنی علما۔

ربِّ زدنی علما۔ربِّ زدنی علما۔
رَبَّنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
کون اقبال؟؟
انسانی روح کو بیدار کرنے والے شاعر، اصول و ضوابط کی باریکی پرکھنے والے قانون دان اور۔

(جاری ہے)

۔۔۔ مسلمانوں کے لیے آزاد ملک کا خواب دیکھنے والے مفکر پاکستان ۔۔۔۔۔۔شعر و ادب کے تشنہ لبوں کو مئے نوشی کے آداب سکھانے والے اقبال۔

۔۔۔ اپنے بے نظیر تخیل اور نرالے اندازِ بیان کے سبب اردو نظم کے سب سے عظیم شاعر" علامہ محمد اقبال"۔
وہ اقبال کہ صبح کی ہو اجب پیام مشرق لاتی ہے تو ہمارے لیے اقبال کی یاد بھی ساتھ لاتی ہے۔ سورج جب حجاز کی طرف رخ کرکے غروب ہوتا ہے  تو ہمیں ارمغان حجاز دکھائی دیتا ہے ۔مساجد سے آنیوالی آوازاور وقت کی اہمیت کا احساس دلانے والی ہر صدا ہمارے لئے بانگ درا ہے جسے سن کر ہمیں اقبال ؒیا د آ جاتے ہیں۔


کبھی سوچا ہے کہ محمد اقبال کیا تھے؟میں سنتی رہی کہ وہ شاعر تھے مگر یہ کیسے شاعر کہ جنہوں نے لب و رخسار کی باتیں نہیں کیں، وزن اور بحور کی قید میں جکڑی یہ کیسی شاعری تھی جوزلفوں کی زنجیر سے آزادرہی۔یہ کیسی غزل تھی کہ جسمیں چشمِ غزالاں کاتذکرہ نہیں۔اقبال کیسے شاعر تھے یہ امر بھی اقبال نےخود ہی واضح کیا کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے سوزِ زندگی کا دروں
یہ عقدہ عام کرنے کے باوجود اپنی شاعری کو کائنات میں بھرے اس ”رنگ“ سے رنگین ہونے نہیں دیا۔

وہ عجب سخن گو تھے کہ انہیں خطاب تو شاعرِ مشرق کا دیا گیا ، مشرق میں بسنے والے ان کے اشعار سن کر داد دیتے رہے مگر ”واہ واہ “ کی صدائیں مغرب سے بھی آتی رہیں اور مغرب کے دلدادگانِ اقبال نے اُن کے کلام کاغیر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا تاکہ وہ اس عظیم شاعر کی شاعری سے محروم رہ کر تمام ترعلوم و آگہی سے بہرہ مند ہونے کے باوجود مشرق کے ہم پلہ ہونے سے قاصر نہ رہ جائیں۔


محمد اقبال وہ جو حکیم الامت بھی ہیں مگر ایسے حکیم نہیں جوجڑی بوٹیوں کی پڑیا تھما کر نسخے پر تحریر کر دیتے کہ:
”جوشانیدہ، صاف نمودہ، قندِسفید انداختہ، بنوشند“
وہ ایسے حکیم تھے جو مسلمانوں کے لئے اپنی حکمت کے بل پر نسخے تجویز کرتے تھے۔اُن کے نسخوں میں تشخیص و تجویزیوں تحریر ہوتی تھی کہ:
غبارآلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تُو اے مرغِ حرم !اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
کہیں نسخہ یوں تجویز کرتے کہ:
خرد کے پاس جنوں کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہماری خوش بختی کہ آسمانِ ادب کے درخشندہ آفتابوں میں علامہ اقبالؒ  بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں ملتِ اسلامیہ کے افق پرایک نمایاں شناخت کے ساتھ نمودار ہوئے۔

جس منبع نور سے اقبال ؒ نے روشنی مستعار لی وہ سدا زندہ اور سدا درخشندہ ہے۔سایہ اور شب اقبالؒ کے جہانِ فکر میں ناپید ہے۔فکرِ اقبال میں راہِ منزل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ظلال اور ظلام کی عیالو پنہاں پناہ گاہوں کی مکمل تصویر موجود ہے۔فروغِ انسانیت کی راہ میں جتنی بھی مرئی اور غیر مرئی رکاوٹیں حائل ہیں اس نابغئہ روزگارمفکّر شاعر نے ا ن کے ازالہ کیلئے راہنمائی کی۔

علامہ اقبالؒ کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے 82 برس ہوئے لیکن انہوں نے اپنی فکر رسااور اخاذنظرسے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ آج بھی صد فیصد صحیح ثابت ہو تے ہیں۔
اُس ایک ہولناک تاریکی اور ہمہ جہت طوفان بلا خیز کے احساس نے اقبالؒ کو گراں خواب مسلمان کو جگانے پر مجبور کیا۔علامہ مرحومؒ نے مسلمان کو اس تازہ ستیزہ کاری میں کامیاب ہونے کیلئے اپنے آبآء واسلاف کا وہی آزمودہ نسخہ کیمیا برتنے کا مشورہ دیا جو سالارِ بدؐر کو تھما دیا گیا تھا۔

جب جب موجِ طوفان امتِ مسلمہ کے حصار کے  کسی بھی حصے سے ٹکرانے لگتی ہے تو کاشانہء نبیؐ(امتِ مسلمہ) کی بے خواب بلبلیں اقبالؒ کے سرودِ سحر آفریں کو اپنے درد انگیز لہجے میں ڈھال کر ایک ارتعاش اور انقلاب کی فضا پیدا کرتی ہیں۔
لیکن لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ اب انقلابی فضا کہاں ہے؟ملت کے جوانوں کو آج خدا بیزار اور آخرت فراموش تہذیب چہار طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

اس گھیرے سے نکالنے کیلئے اقبالؒ کا دردو سوزسے بھر پُر کلام جو کششِ ثقل کی حیثیت رکھتا ہے موجود تو ہے لیکن شاید اقبال کے شاہینوں میں اس کشش کو محسوس کرنے کی حس ناپید ہو چکی ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے ہم کو زمین پہ آسمان نے دے مارا
اقبال نے عشق کیا تو بانگِ درا لکھی اور اپنے عشق سے مشارق ومغارب کو بھی دعوت عشق دے ڈالی۔

آج ہمارا عشق کیسا ہے؟ کہ تمام عاشقانِ رسول آپس میں ہی دست و گریبان ہیں؟۔آج ظالم و مظلوم ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نعرہ لگا کر دعویٰ کررہے ہیں عاشق رسول ہونے کا؟واقعہ سناتے ہیں غزوہ بدر کااور آنسو بہا رہے ہیں واقعہ کربلا پہ اور قتلِ عام کر رہے اپنے ہی جیسے عاشقانِ رسول کا؟ کبھی آنسو گیس سے تو کبھی فائرنگ سے تو کبھی تیزاب سے؟ جبکہ بیسویں صدی کا عشق(اقبال) بھی پیروی کا حکم دیتا ہے۔

ہمارے نبی آخر الزماں نے تو یہ فرمایا تھا کہ" اگر دورانِ جنگ تمھارا مقابلہ کفار سے ہو تو انھیں مسلسل اذیت دے کر نا مارو بلکہ ایک ہی ضرب سے کام تمام کردو"۔
اقبال تو وہ ہے کہ جس نے اپنے قلم کے ذریعے عصمت رسول کو محفوظ بنا کر یہ پیغام دیا کہ سڑکوں پر نکل کر نعرہ لگانے سے ہی نہیں بلکہ قلم سے بھی باطل کی طرف سے چھوڑے گئے تیروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

ہواؤں کا رخ بدلہ جا سکتا ہے۔
اک اہم نقطہ ذکر کرنا بھی میں از حد ضروری سمجھتی ہوں کہ انٹرنیٹ کی دُنیا میں اور بالخصوص فیس بُک پر اقبال کے نام سے بہت سے ایسے اشعار گردِش کرتے ہیں جن کا اقبال کے اندازِ فکر اور اندازِ سُخن سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ میرا کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال سے محبت رکھنا یہ تقاضا کرتا ہے اور اقبال کا حق ہے کہ ہم ایسے اشعار کو ہرگز اقبال سے منسوب نہ کریں جو اقبال نے نہیں کہےبلکہ اقبال تو بارگاہ عزت مآب میں حاضر ہو کر یہ عرض کرتے کہ :
گرد دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآن مضمر است
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا
"اگر میرے دل کا آئینہ جوہر سے خالی ہے اور اگر میری باتوں میں قرآنی فکر کے سوا کچھ بھی پایا جاتا ہے تو قیامت کے دن مجھے ذلیل و رسوا کر دینا اور اپنے پاؤں مبارک کی بو سے محروم کر دینا"
اتنی بڑی بات فقط وہی کر سکتا ہے کہ جسے یقین کامل ہو کہ اس نے قرآن و سنت کی ہی ترجمانی کی ہے۔

تو میں کیوں نا کہوں کہ یہ اقبال ہی" نباض عصر"ہیں۔
بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حرم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر
اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے
اس دور کی ظُلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغِ محبّت دے جو چاند کو شرما دے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :