غیر معیاری تعلیمی نظام

منگل 29 دسمبر 2020

Aimen Tanveer

ایمن تنویر

پاکستان میں تعلیم کے نام پر بے تحاشا پیسہ کمایا جارہا ہے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کی بھرمار ہے ہر گلی کے نکّڑ پر سکول یا کالج کا ہونا لازمی حصۂ بن گیا۔ جو شخص خود ناکام ہوگیا اس نے کالج بنالیا تیسرے درجے میں پاس ہونے والے طلباء جن پر اور کوئی مہربان نہ ہوتا تھا وہ کالج ان کو دستک دینے لگے ان کا معیار یہ ہے کہ سال بھر کی فیس جمع کروانے کے بعد طلباء اگر سکول یا کالج جانا پسند کریں تو ٹھیک ورنہ کوئی جبر نہیں سال کے آخر پر جرمانہ دیں یا منت سماجت کر لیں اور امتحانات کے لئے داخلہ بھجوا دیں اب اسکول بنانا کون سا مشکل کام ہے بس ایک کوٹھی کرائے پر لو اور کالج کھولو ہر شہر میں یہی ہو رہا ہے سال دو سال کاروبار کیا پھر اسکول نئی جگہ نئے نام سے شفٹ کر لیا پیسہ کمایا اور پھر فرار۔

(جاری ہے)

معیاری اداروں کی تعداد اتنی کم ہے کہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے،  زیاده تعداد ہے  تو دوسرے اور تیسرے درجے کے اداروں کی ان پر پرانے نئے سرکاری و غیر سرکاری سب شامل ہیں  ہمارے تعلیمی طریقہ تعلیم کا انحصار رٹا لگانا ہے تحقیق سے اساتذہ تک دور بھاگتے ہیں اپروچ کرنے یا پڑھانے کی بجائے اساتذہ کو دولت جمع کرنے اور ترقی پانے سے ہی سروکار رہتا ہے بچوں کا وزن کم اور کتابوں کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے ہر شہر میں پیسہ کمانے آنے کی مہم جاری ہے جس میں کبھی کمپیوٹر کورسز اور کبھی ٹیکنیکل تعلیم کے نام پر لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے ہر کوئی پیسہ کمانے کے چکر میں ہے.،جیسے بھی ہے چاہے کسی کا مستقبل تباہ ہو جائے ہمارے ملک میں کوئی طالب علم اگر گریجویشن یاماسٹر بھی کرلیتا ہے تب بھی وہ کوئی چیز نہیں جانتا وہی کورے کا کورا رہتا ہے  کچھ کرنے کی بات تو دور کچھ سوچ بھی نہیں سکتا اس لئے جب ہم کبھی کبھی بزرگوں کے پاس بیٹھتے ہیں تو وہ اگر حساب کا کہہ دے تو ہمیں لالے پڑ جاتے ہیں کیلکولیٹر کی تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن بزرگ یہ کہتے ہیں کمپیوٹر کی پیدائش تمہارا کیا گا تمہیں حساب کتاب تو آتا نہیں جانے کیسی تعلیم ہیں جو تم حاصل کر رہے ہو۔


میرے خیال میں تعلیم سے متعلق تمام مسائل کا تعلق ان  پرائیویٹ سکولوں سے ہے جہاں تعلیم دینے کی بجائے ناچ گانے سکھا کر والدین سے ہزاروں روپے لے لیے جاتے ہیں۔
 طالب علم بھی کم عمری کے باعث  اسی میں اپنا فائدہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کتاب پڑھنے والے خود ان کے ساتھ ناچ گانا اور کھیل کود میں شریک ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت کم ہے۔


حکومت نے  بھی اس جانب عملی اقدامات سے گریز کی ہیں جس کی وجہ سے ہماری آئندہ نسل کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر ہمارے تعلیمی نظام کا مقابلہ دوسرے ممالک سے کیا جائے تو ہم ان کے مقابلے میں صِفر ہیں، کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں میں وہ تعلیم نہیں دی جاتی  جس کا کوئی فائدہ ہو کتابیں صرف رٹنے کے لئے پڑھائی جاتی ہے، کچھ سیکھنے یہاں سمجھانے کے لیے نہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے تعلیمی اداروں سے رجوع کرتے ہیں تو انہیں انٹری ٹیسٹ میں ہی باہر کر دیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے تعلیم  رٹا لگا کر حاصل کی ہوتی ہیں لہذا میں وزارت تعلیم اور اعلی حکام سے اپیل کرتى ہوں کہ وہ اس جانب ضرور توجہ دیں کیوں کہ آج کے بچے کل جوان ہو کر ہمارے ملک کے باگ ڈور سنبھالیں گے اگر ان کی تربیت درست نہ ہوئی تو ہم ان بچوں کا  ہی نہیں بلکہ وطن پاکستان  کا مستقبل بھی تاریک کر دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :