اِی۔اسپورٹس

جمعہ 27 اگست 2021

Ali Hadi

علی ہادی

ہر نسل اپنے دور کی مناسبت سے الگ سوچ، عادتیں اور شوق رکھتا ہے۔ اس بدلتی دنیا میں اب کھیل کے بھی انداز اور طریقے تبدیل ہو چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد جسمانی کھیل کود کے مقابلے میں تقریبا ساری دنیا میں کمپیوٹر، لیپ ٹٓاپ اور موبائیل فون پر گیمس کھیلی جا رہی ہیں۔ انہیں الیکٹرونق اسپورٹس یا پھرای۔اسپورٹس کہا جاتا ہے۔

اب یہ بچوں اور نوجوانوں کا پسندیدا مشغلہ بن چکا ہے اور اس نے ایک انڈسٹری کی سی شکل لے لی ہے۔
ای۔اسپورٹس میں بہت سی گیم شامل ہیں، جس میں گاڑیوں کی ریس، کرکیٹ، فوٹ بال، ٹینس اور دیگر گیمس شامل ہیں۔ دنیا میں جسمانی کھیل کی طرح ای۔اسپورٹس کے ٹورنامینٹس بھی منقعد کیے جانے لگے ہیں۔ 1972ع میں پہلی ٹورنامینٹس منقعد کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

جس میں 10 ہزار سے زائد لوگوں نے حصہ لیا۔

موبائیل فون کے ذریعے کروڑوں لوگ گیمس کھیلتے ہیں جس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق ای۔اسپورٹس ہالیووڈ سے بھی زیادہ پیسے کمانے والی انڈسٹری بن چکی ہے۔ ان میں سے کچھ گیمس کم عرصے میں بہت مشہور ہوئیں، جس کے بعد ساری دنیا میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے اک دوسرے کے ساتھ گیمس کھیلنے لگے۔ ای۔اسپورٹس میں دو طرح کی گیمس ہیں ایک وہ جو صرف انٹرنیٹ کے ذریعے ہی کھیلی جاتی ہیں اوردوسری وہ گیمس جن کی ایپ ڈائون لوڈ کرنے کے بعد بغیر انٹرنیٹ کے کھیلا جا سکتا ہے۔

ای۔اسپورٹس میں اب تک کتنی ہی گیمس آچکی ہیں جو لوگوں میں دلچسپی کا سبب بنتی ہیں ان میں سے "پب۔جی" دنیا بھر میں کافی مقبول ہوئی۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بچے اور نوجوان ان گیمس کا حصہ بنتے ہیں، مگر پاکستان میں ای۔اسپورٹس انڈسٹری دنیا کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان مین پیپسی نے کچھ سال پہلے ملکی سطح کا ایک ٹورنامینٹ کرایا جس میں ملک بھرسے ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے حصہ لیا اور ٹورنامینٹ جیتنے والے کے لیے 1 ملین کا انعام رکھا گیا تھا۔

دیگر ملکوں کی طرح پاکستان بھی اس انڈسٹری سے اپنی معیشت کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس انڈسٹری سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیں، خاص طور پہ کمپیوٹر اور دزائنگ سے جوڑے لوگ اس سے بہت فائیدہ لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان کو ای۔اسپورٹس کے عالمی اداروں کی مدد سے اقدامات کرنے پڑے گے جس سے یہ انڈسٹری پاکستان کے لیے فائدیمند ثابت ہوسکتی ہے۔


کوئی بھی چیز بذاتِ خود منفی نہیں ہوتی، اس کا استعمال انسان کے اپنےاختیار میں ہے۔اگر انسان اس کا استعمال منفی، جنونیت اور پاگل پن کی حد تک کرنے لگے تو اس کے فوائد ناپید ہو جاتے ہیں اور اس سے ہماری زندگی بھی اجیرن ہوسکتی ہے۔ لہذا ہماری بنیادی زمیداری ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی چاہے وہ کوئی بھی ہواسے مثبت طریقے سے استعمال کریں اور اسے اپنے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اگر ہم اس کا مثبت استعمال کرتے رہے تو یہ ہمارے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :