ٹیکنالوجی ہر دور میں

ہفتہ 12 جون 2021

Ali Hadi

علی ہادی

سائنس ہم پر رحمت ہے یا زحمت اس کا موازنہ ہر فرد اپنی سوچ اور فکر کے مطابق کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی اس سے خوش تو کوئی نالہ و زاری  کرتانظر آتا ہے۔ یہ ہر فرد کی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ مگر سائنس نے انسان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا، گذشتہ سو سالوں میں سائنس نے جتنی ترقی کی اتنی کسی اور دور میں نہیں کی۔ انسان ابتداء سے ہی کسی نہ کسی ٹیکنالوجی کا قائل رہا  ہے، اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اور اپنے دفا ع کے لیے  نت نئی ایجادات کرتا رہا ہے۔

اکثر لوگ موازنہ کرتے نظر آتے ہیں کے موجودہ دور بہتر ہے یا گزرا ہوا؛ میں سمجھتا ہوں کسی چیز کا موازنہ کرنا ہی غلط ہے چاہے کسی دور کا موازنہ ہو یا پھر کسی انسان کا دوسرے انسان سے۔جو انسان جس دور میں پیدا ہوا اس کو اسی دور میں ہی رہنا ہے اور زندگی بسرکرنی ہے ، نہ گذرا  وقت واپس آسکتا ہے اور نہ ہی  زمانہ اور ہم چاہ کر بھی خود کو اس دور سے الگ نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)


کیا پچھلے زمانے کے لوگوں کے پاس کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی، ایسا ہر گز نہیں ہے ہر دور کے انسان نےکسی نہ کسی ٹیکنالوجی کو اپنے مروئے کار لایا ہے۔ اگر ہم اہرام مصر کی بات کریں جو دنیا کے سات عجوبات میں شامل ہے، جنہیں آ ج سے تقریبا ساڑھے چار ہزار سال پہلے تعمیر کیا گیا تھااور ان اہراموں میں  اس وقت کے شاہی خاندانوں کے افراد کو دفن کیا جاتا تھا بل خصوص مصر کے بادشاہوں کو دفنایا جاتا تھا ان اہرام  کا شمار انسا ن  کے بنائے ہوئے عظیم شاہکاروں میں ہوتا ہے،آج تک عقلِ انسان حیرت زدہ ہے اس  کی بناوٹ پر اور آج تک اس سوچ میں ڈوبہ ہوا ہےکہ  کس طرح ان کو پایا تکمیل پہنچایا ہوگا، کون سی ٹیکنالوجی استعمال کی ہوگی بہرحال اہرام مصر  دنیا ئے قدیم کی اعلی سائنسی ترقی کے ٹھوس اور جیتے جاگتے ثبوت ہیں ، اس حوالے سے ایلن مسک نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اہرام مصر ایلین کا شاہکار ہے یعنی ان کی تعمیر ایلین{خلائی مخلوق} نے کی یہ ان کا ذاتی  نظر یہ ہو سکتا ہے۔

یہاں پر میں اپنے قارئین کو ایلن مسک کے بارے میں بتاتا چلوں ، ایلن مسک کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہےاور یہ بہت بڑے تاجر،  سرمایہ کار ، موجد ، اسپیس  ایکس اور ٹیسلا کمپنی کے مالک ہیں جن میں جدید ترین گاڑیاں بنائیں جاتی ہیں، وہ ایلن مسک ہی ہیں جو رفتار کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے جا رہے ہیں جس کو انہوں نے  ہائیپر لوپ کا نام دیا ہے، اس کی رفتار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیں کراچی سے دبئی جانے میں تقریبا دو گھنٹے لگ جاتے ہیں لیکن ہائیپر لوپ محض آدھہ گھنٹہ میں یہ سفر طے کرے گی ۔

اس ٹیکنولوجی کے حوالے سے پھر کبھی   مزید لکھوں گا، فل حال اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
کوئی بھی دور ٹیکنالوجی سے خالی نہیں  رہا ہر دور کے انسان نے اپنی ٹیکنالوجی کے مطابق زندگی بسر کی۔ ہر دور میں انسان ایجادات کرتا رہا ۔ جب انسان پہاڑوں میں غار بنا کے رہتا تھا اور اس غار کو بنانے کے لئے جو آلہ استعمال کیا اس کا شمار بھی ٹیکنالوجی میں ہی ہو گا، جب انسان نے شکار کرنا شروع کیا اور شکار کرنے کے لیے جو آلہ استعمال کیا وہ بھی تو کوئی ٹیکنالوجی ہوگی، اپنے دفاع کے لئےتلواریں، تیر و ترکش ، زرعہ اور ڈھال  بنانا یہ بھی اک قسم کی ٹیکنالوجی ہی ہے، پھر  انسان کا قلم ایجاد کرنا پھر  پتوں پہ کبھی چمڑوں اور پھر کاغذ پر لکھنا ، غالبا  جو چیزیں بھی انسان  نے اپنے گزر سفر کے لیے ایجادکی ان کا شمار کہیں نہ کہیں ٹیکنالوجی میں ہی ہوتا ہے۔

کیونکہ انسان کا دماغ ہی ٹیکنالوجی کا منبع ہے۔
میں سمجھتا ہوں  یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ آج کے دور میں جو ٹیکنالوجی ہےوہ پچھلے دور کی ہی ترمیم ہے۔ ہاں مگر جتنی جدت اب آئی اتنی کسی اور دور میں نہیں آئی، آج جدید ٹیکنالوجی نے  ساری دنیا کو ایک گلوبل ولیج  میں تبدیل کردیا ہے،ماضی کی جو مشکلات درپیش تھیں اب وہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کافی حد تک حل ہو چکی ہیں۔

ٹیکنالوجی نے ہماری نقل و حمل کو بہت آسان کردیا ہے، سالوں کی مسافت ہفتوں میں اور مہینوں کی مسافت دنوں اور گھنٹوں بدل گئی ہے۔پہلے جس کام کے لیے دسیوں آدمی درکار ہوتے تھےاب ان کاموں کو مشین بہتر طریقے سے انجام دیتی ہے۔ ٹیلی فون اور موبائل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے رشتہ داروں سے سالوں بے خبر رہتے تھے مگر آج ان کی ہر پل کی خبر رہتی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہی  انسان اپنے قدم  چاند پر رکھ سکااوراب اپنے قدم مریخ پر جمانے والا ہے۔
ٹیکنالوجی بذاتِ خود کوئی منفی چیز نہیں ہے، اس کا استعمال انسان کے اپنےاختیار میں ہے۔اگر انسان اس کا استعمال اپنے منفی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے تو اس کے فوائد ناپید ہو جاتے ہیں۔ لہذا ہماری بنیادی زمیداری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کواپنے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کا منفی استعمال ہماری زندگی اجیرن بھی بنا سکتا ہےاور اگر ہم اس کا مثبت استعمال کرتے رہے تو یہ ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :