جیسی عوام ویسے حکمران

پیر 21 جون 2021

Ali Hadi

علی ہادی

میری زیادہ تر کوشش یہی رہی ہے کہ میرا موضوع سیاسی نہ ہو، اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ ہے مجھے سیاست سے کوئی خاص لگاو نہیں ہے،اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھے یہ ساری باتیں  بلا نتیجہ لگتی ہیں  جن کا نہ سر ہے نہ پاوں میں نے لوگوں کو بارہا ایسی گفتگو یا بحث کرتے دیکھا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، گھنٹوں بحث اور مبا حثہ کرنے کے بعد بلا نتیجہ اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

لوگ خود کو اس معاشرے سے الگ سمجھتے ہیں اور صرف دوسروں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں، ہرشخص خود کے علاوہ ہر دوسرے بندہ کو غلط ہی سمجھ رہا ہوتا ہے۔ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن کی بحث کرنے کا مقصد صرف اور صرف اپنی برتری ثابت کرنا ہوتی  ہے، ان کو کوئی مطلب نہیں اپنی اصلاح  سےان کو مطلب نہیں معاشرے سےان  کو کوئی مطلب نہیں لوگوں سے ان کو غرض ہے تو بس اپنی برتری سے۔

(جاری ہے)

"بقول سقراط کے ہر کوئی اپنے علم کو کل سمجھ رہا ہوتا ہے ،اور یہی اس کی سب سے بڑی جہالت ہے"
ہمارے ملک میں مختلف جماعتوں نے حکومت کی ، کسی نے دو بار ، کسی نے تین بار توکسی نے صرف ایک بار ۔حکومتیں بدلتی رہیں مگر نہ بدلی تو ملک کی حالت،  میں سمجھتا ہوں کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار  جتنا حکومت پر ہے اتنا ہی اس ملک کی عوام  بھی منحصر ہے۔

مگر ہمارے ہاں تو ایک ہی اصول ہے جو کرنا ہے سیاستدانوں نے کرنا ہے اور ہمارے سیاستدان بھی ہماری عوام کی نس نس سے واقف ہیں پھر ان سے بھی جو بن پڑتا ہے وہ کرتے ہیں وہ حکومت میں آتے ہیں اپنے لوگوں کو نوازتے ہیں اپنے بینک اکاونٹ بھرتے ہیں اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں اپنی پروپرٹی بیرون ِملکوں میں بناتے ہیں اور پھر حکومت پوری ہوتے ہی بیرونِ ملک چلتے بنتے ہیں اور ہماری باشعور عوام ان سیاست دانوں کے لیے آپس میں گتھم گھتہ نظر آتی ہے، میں سمجھتا ہوں ہمارے سیاستدان ہمارے معاشرے کا چہرہ ہیں اور ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں وہ بھی اسی معاشرے سے ہی پروان چڑھ کر آتے ہیں، پھر ہم کس منہ سے ان کا برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں مطلب منافقت کی بھی حد ہے۔

مسئلہ دس روپے کی کرپشن یا دس ارب کی کرپشن کا نہیں ہے مسئلہ ہمارے معاشرے کی سوچ میں پائی جانے والی کرپشن کا ہے پھر جس سے جہاں اور جتنا بن پڑتا ہے وہ کرپشن کرتا ہے۔پھر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جیسی عوام ہوگی ویسے ہی حکمران ہونگے  ۔
مسولینی {اٹلی کا مشہور آمر} نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا؛ میں سو سال بھیڑ کی طرح زندگی گزارنے پر ایک سال شیر کی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہوں، ایک سال شیر بنوں اور دوسروں کو پھاڑ کھاوں اور ان پر ڈر اور خوف بٹاوں اور ان پر حکومت کروں۔

مسولینی باقاعدہ سے ایک رقم اپنے دوست کو دیا کرتا تھااور کہا کرتا تھا کہ میرے اس قول کا کسی کو پتا نہ چلے ۔پر کیوں ، وہ ایسا کیوں چاہتا تھا کہ اس کی بات کا کسی کو پتا نہ چلے ، شاید اس لیے نہیں چاہتا ہوگا کیوں کہ اگر لوگوں کو یہ بات پتا چلی تو ان کے دلوں میں بھی شیر بننے کی خواہش جاگ جائے گی، کیوں کے مسولینی کے شیر بنے کے لیے روری ہے کے لوگ بھیڑ ہی رہے تب ہی وہ شیر بن پائے گا اور ان پر اپنی حکومت قائم کر پائے گا۔

اور ہمارے  ملک کے حکمران بھی یہی چاہتے ہیں کے ہماری عوام بھیڑ ہی رہے تاکہ وہ کرپشن کرتے رہیں۔ ناجانے کب ہمیں ہوش آئے گااور نا جانے کب ہم سمجھے گے کہ عزت کی زندگی گزارنہ ہمارا بھی حق ہے،اچھی تعلیم، بہتر علاج، بہتر روزگار،فوری انصاف یہ سب ہمارا بنیادی حق ہے۔ آخر کب ہم اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گےاور آخر کب ہم خیالی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آئیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :