ہاں میرا شہر کراچی

ہفتہ 5 جون 2021

Ali Hadi

علی ہادی

جب سے کالم نگاری شروع کی ہے نت نئے  موضوع  سوچتا رہتا ہوں         کہ کس پہ لکھا جائے ، کبھی بہت جلد خاکہ تیار ہو جاتا ہے اور کبھی مطالعہ کی ضرورت پڑ جاتی ہےکبھی اسی کشمکش میں نیند بھی  طاری ہوجاتی ہے اور کبھی نیند کی غنودگی میں  متن تیا ر ہوجاتا ہے، ایک لکھاری کی خواہش اور ضرورت ہے کہ اس کا قلم چلتا   رہے ۔        بہرحال     اب اپنے اصل   موضوع کی طرف آتا ہوں    کچھ دنوں سے کراچی  کے بارے میں یہ کچھ منفی خبریں پڑھی ، تو  خیال  آیا کے کچھ کراچی کہ بارے  میں لکھا جائے ، اب اس کشمکش میں پھنس گیا کہ  آیا وہی لکھا جائے جو سال ہا  سال   ہم کراچی کے بارے میں سنتے ،  پڑھتے  اور دیکھتے آرہے ہیں ، یا وہ لکھو جس  کا کراچی اب حقدار ہے  بلا آخر یہ  طے پایا کہ  کراچی کےمثبت چہر ےکے  بارے میں لکھوں جس کا کراچی اب  حقدار بھی ہے۔

(جاری ہے)


کراچی میں لاکھ مسائل سہی مگر میرے  دل کے  ہمیشہ قریب ہی رہا ہے میرا بچپن ، میری جوانی یہی گزری بلکہ جوانی گزر رہی ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں  جب کسی کی  ایک آواز پر سارا شہر کراچی چند منٹ میں بند ہو جایا کرتا تھا اور اس دوران لوگ اپنے گھروں تک محصور  ہو کر رہ جاتے تھے اور آئے دن ۱۰ یا ۱۲ لوگوں کے قتل کی خبر سننا      روز کا معمولا   بن گیا تھا۔

مگر وہ دن تھے اور آج کے دن  کراچی نے پیچھے موڑ کے نہیں دیکھا ۔ کراچی کی خوشیاں ،  روشنیاں ، رونقیں  بحال  ہوگئیں  جو  چھن چکی تھیں۔
روداد اپنی میں سناوں کس طرح
جو گزری مجھ پر اپنوں کی وجہ سے گزری       
مختلف قوموں نسلوں  مذاہب  رسم  و رواج کو  سموئے ہوئے اس شہر کو کراچی کہا جاتا ہے کراچی  اپنے اندر ایک عجیب کشش  رکھتا ہے جس کہ بنا پر  اس کو   پاکستان کا سب سے بڑا شہر  ہونے کا اعزاز حاصل ہے  اور دنیا         کا چھٹا  بڑا شہر ہے جس کی آبادی  غیر  سرکاری  ذرایع کے مطابق         3کروڑ  جب کہ سرکاری ذرایع کے مطابق تقریبا   سوا  دو کروڑ ہے۔

کراچی  پاکستان کا سب سے بڑا    صنعتی ، تجارتی ، تعلیمی ، مواصلاتی  و  اقتصادی مرکز ہے، ملک کی سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ  بھی کراچی میں موجود ہے اور ملک بھر کا 60 فیصد ریونیوں بھی یہ شہر فراہم کرتا ہے، پاکستان کا سب سے مصروف ہوائی اڈا   جناح  انٹرنیشنل  ایئرپورٹ بھی اسی شہر میں ہے اور پاکستان کی   سب سے بڑی دو پورٹ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم  اسی شہر میں موجود ہیں۔

اور پاکستان کی سب سے بڑی چیرٹی  آرگنائزیشن  ایدھی  ولفئیراور جے ڈی   سی   بھی اسی شہر میں موجود ہیں   جو مستحق  افراد کی مدد اپنی  اولین فرائض سمجھتے ہیں۔
کراچی کو روشنیوں کا شہر،نا سونے والوں کا شہر  اور شہر قائد بھی  کہا جاتا ہے   کیونکہ  بانی پاکستان کی جائے پیدائش اور ان کی  آخری آرام گاہ بھی اسی شہر میں ہے،کہا جاتا ہے کہ آپ اس شہر سے تو جا سکتے ہیں  مگر اسے اپنے دل سے نہیں نکال سکتے یہی اس شہر کی خوبصورتی ہے،   اگر اس شہر کی روشنیاں اور رونقیں دیکھنی ہوں تو  یا آپ ساحل سمندر کا رخ کیجیے یا پھر فوڈ اسٹریٹ کا، ویسے تو کراچی  کی ہر شے دل کو چو جاتی ہے مگر یہاں کے کھانوں کا کیا کہنے ،  جاوید کی نہاری ہو یا  پھر  اسٹوڈنٹ بریانی ، حسین آباد کی  فوڈاسٹریٹ  ہو یا برنس روڈ کی ،  یہاں پر بہت اعلیٰ اور لزیز کھانے میسر ہیں اور   کراچی  والے   ان  جگہوں پرجانا  اپنا  فریضہ سمجھتے ہیں ، پورے پاکستان کے کھانے تو یہاں میسر ہیں  مگر کراچی کی بریانی  کسی اور شہر میں میسر نہیں ۔


 ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے بھی  یہ دوسرے  شہروں پہ برتری رکھتا ہے، ویسے تو  کراچی میں بہت سے تفریحی مقامات   ہیں مگر سمندر  کے ہوتے ہوئے کسی اور تفریحی مقام ذکر کرنا  فضول  لگ رہا ہے۔ کراچی کا بہترین تفریحی مقام ساحل سمندر ہے جس میں سے  جزیرہ چرنا    ایک ہے ،یہ کیماڑی ٹاون میں مبارک گوٹھ کے قریب  واقع ہے اور کراچی کے حسین مقامات میں سے ایک ہے۔

کراچی کی مصروف ساحل کلفٹن بیچ ہے جسے سی ویو بھی کہا جاتا ہے یہ کراچی کانمایا ں اور مصروف مقام ہے جو دن رات لوگوں کی گہما  گہمی سے گھرا رہتا ہے ۔ دن ہو  یا رات   یہ شہر زندگی سے بھرپور نظر آتا ہے۔
کراچی کی مثال اس دیے کی ماند ہے جو  خود تو جلتا ہے مگر دوسروں کو روشنی بخشتا ہے، کراچی میں ہزاروں لوگ   دل میں   ہزاروں خواہشیں لیے آتے ہیں جن میں کچھ کرنے کی لگن اور کچھ  بن کے دکھانے کی جستجو ہوتی ہےاور  کراچی بھی ایسے لوگوں کو اپنے دل سے لگاتا ہے۔
"حکومت وقت کو چاہے کے کراچی کے مسائل پہ توجہ دے تاکے یہ شہر اپنے آب وتاب کو پہنچے  اور اس کی روشنیاں اور رونقیں  ہمیشہ بحال رہیں"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :