صحافی خود خبر نہ بنیں

منگل 27 نومبر 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

تصور کریں کہ ہمارے ملک کے کسی معتبراخبار کا کوئی نامور اخبار نویس کسی جنگ زدہ علاقے میں صحافتی ذمہ داریاں اداکرتا ہوااغوا کر لیاجائے۔اغواکار اسے کئی سال تک حبسِ بے جا میں رکھیں۔برسوں کی اذیت کے بعدوہ داعش جیسی کسی دہشت گردتنظیم سے رہائی پا کرپاکستان واپس آئے توہمارے تاثرات ایسے اخبار نویس کے بارے میں کیا ہوں گے؟ہمارامیڈیا اس واقعے کوکیسے نشر کرے گا؟اس صحافی اوراس کے اہل وعیال کا بیانیہ کیا ہوگا؟
میراخیال ہے کہ ہماراعمومی تاثرمثال میں پیش کئے گئے خبرنگارکے بارے میں یہی ہوگاکہ وہ بڑامظلوم ہے۔

دہشت گردوں کے زیرعتاب رہ کراس نے صحافت کے لئے بڑی قربانی دے دی ہے۔۔اس شخص کی جرات اور بہادری کو سلام پیش کریں گے۔میڈیا میں ایسے اخباری رپوٹر کوہیروکے طور پرپیش کیاجائے گا،جس نے عین میدانِ جنگ میں رپوٹنگ کا بیڑااٹھایا۔

(جاری ہے)

اس راہ حق میں دہشت گردوں کے ساتھ نبردآزمارہ کر سرخروٹھہرا۔خود اس مثال کا صحافی غالباًاس کارنامے پراعلیٰ صحافتی اقدار کا حوالہ دیکراور دیگراچھی اچھی باتیں کرکے ہمارے دل گرمائے گا۔

اس کے عزیزواقارب ایسے ہیروصحافی پر فخرکااظہار کریں گے۔کیا کیا جائے کہ یہاں واقعہ تو ہوبہوویساہی پیش آیاہے جیسی میں نے فرضی مثال دی،مگرجاپان میں اس واقعے کا ردعمل یکسرمثال کے برعکس نظرآیاہے۔
واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے جاپان کا معروف صحافی جمپے یاسوداشام سے رہائی پاکر جاپان پہنچاہے۔تین سال پہلے اسے دہشت گرد تنظیم داعش نے ایک کاروائی کے دوران حلب کے قریب سے اغواکرلیاتھا۔

مذکورہ صحافی شام اور عراق کے موضوع پرکئی کتابوں کامصنف ہے،اس کے تجزیے اور تبصرے مستقل قومی اخبارات میں شائع ہوئے اور ٹیلی ویژن پر اس کی رپوٹیں اکثرنشرہوتی تھیں۔ٹوکیوپہنچنے پر اس کے والدین اور بیوی نے اس کا استقبال کیا۔میرے لئے حیرانی یہاں سے شروع ہوئی۔اس صحافی نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے ایک تو یہ کہا کہ گزشتہ تین سال سے زائد عرصہ جواغواکاروں کی قید میں اس نے گزاراہے وہ جہنم سے بھی بدتر تھا۔

اس کے ساتھ ہی اس نے کہاکہ میں قوم سے معافی مانگتاہوں کہ میں نے ایک مشکل اور پریشانی کھڑی کردی تھی۔مگرآپ سب لوگوں کابہت شکریہ ،آپ کی بدولت میں بحفاظت واپس وطن پہنچ گیا ہوں۔مذکورہ صحافی کایہ واحدبیان ہے جومیڈیاپرنشرکیاگیا۔قومی اخبارات کے اندورنی صفحات پررہائی اور وطن واپسی کی خبر شائع ہوئی ہے اور اس پر تبصرے بھی۔میرے لئے بھی یہ معذرت اس لئے بھی حیرت کا سبب بنی چونکہ اس سے پہلے اسی صحافی کی بیوی بھی میڈیاکے سامنے معافی مانگی مانگ چکی ہے،کچھ عرصے کی بات ہے جب اس نے اپنے خاوند کے سبب ملک میں پیدا ہونے والی پریشانی پرمعذرت طلب کی ۔

اگلی حیرت میرے لئے یہ تھی کہ جاپانی وزیرِاعظم نے متذکرہ صحافی اور اس کے خاندان کو ملاقات کے لئے وقت دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔
سوشل میڈیاپرشام سے رہائی پاکرپہنچنے والے اس صحافی پر بے رحم تنقید ہو رہی ہے۔اس کے رویے کو غیرذمہ دارانہ ،غیرشائستہ اور غیر پیشہ ورانہ قراردیاجارہا ہے۔معاشرے کو نقصان پہنچانے اور صحافتی اقدار کی پامالی کا اس پر الزام لگایا جارہا ہے۔

میرے لئے یہ صورتحال سمجھنامشکل ہے۔اس کی وجہ شائد میرااپنا بھی ”میڈان پاکستان “ہوناہے۔ ایک پڑھے لکھے دوست سے اس موضوع پر میں نے رجوع کیا،کہ آخر مذکورہ صحافی کی غلطی کیا ہے؟کیوں اسے معافی مانگنی پڑرہی ہے؟معاشرہ کیوں اس پر غصے کا اظہار کررہا ہے؟جبکہ اس نے کوئی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے،بلکہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کررہا تھا۔

میرے اہل علم دوست کا کہنا تھاکہ پہلی غلطی تواس نے یہ کی ہے کہ وہ اس علاقے میں جا پہنچاجہاں پرجانے سے جاپانی حکومت نے اپنے شہریوں کو منع کررکھا تھا۔اس صحافی کا شام جانے کا مقصد چاہے جو بھی ہومگر اس نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کونظرانداز کیاہے،یہاں یہ تذکرہ برمحل ہوگاکہ جاپانی معاشرے میں کوئی بھی طبقہ اور کسی بھی پیشے سے منسلک فرد یاافرادکسی خصوصی سلوک کے مستحق نہیں ہوتے ہیں۔

یہ صرف الفاظ نہیں ،اس ملک کی بڑی اہم زمینی حقیقت ہے۔کسی کو کوئی استثنیٰ نہیں،کسی بھی صورت حال میں۔دوسری اہم بات جو شعبہ ابلاغیات سے منسلک میرے اس فاضل دوست نے بتائی وہ بہت اہم ہے،اس کہناہے کہ صحافی کو کسی بھی صورت میں خود خبر نہیں بنناچاہیئے،اخبار نویس کا کام خبر ڈھونڈنا ہے،اور خبرشائع کروانا ہے،بذات خود خبر بنناصحافتی اقدارکے منافی رویہ ہے۔

یہی دو بنیادی وجوہات ہیں جن کی بناء پر ہی حال ہی میں رہائی پانے والے جاپانی صحافی کی اپنے وطن میں پذیرائی نہیں ہوئی بلکہ اسے معذرت خواہانہ رویہ اپناناپڑا۔فلسفے کے شعبہ سے منسلک توشیروتیراداجوکہ صوفیہ یونیورسٹی ٹوکیومیں پڑھاتے ہیں،ان کاایسے صحافیوں کے متعلق کہنا ہے کہ ”وہ تو بے چارے مظلوم ہیں،ان سے کوئی غلطی نہیں ہوئی مگرپھربھی انہیں معافی مانگناپڑتی ہے،حالانکہ انہوں نے کسی قانون شکنی کاا رتکاب نہیں کیاہوتا،مگرپھربھی قصوروار گردانے جاتے ہیں،چونکہ یہ معاشرے کی ذہنیت ہے کہ ایسے صحافی سماج کونقصان پہنچاتے ہیں،لہٰذاقصوروار ہیں۔اس واقعے سے ایک چیز تو پاکستانی صحافیوں کو ضرورسیکھنی چاہیئے،وہ یہ کہ صحافی کوخود خبرنہیں بنناچاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :