ٹیکس قوانین میں ہم آہنگی

منگل 30 نومبر 2021

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

 چیف کمشنر ریجنل ٹیکس آفس ایک کھلی کچہری سے خطاب کر  رہے تھے  اور وہاں مختلف کاروبار سے متعلقہ لوگ بھی موجود تھے۔کمشنر صاحب  نے فرمایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے مطابق قانون میں  چاول،گندم، کپاس،گنا وغیرہ کے کاروبار سے متعلقہ لوگوں کے لئے ودہولڈنگ ٹیکس کی استثناء موجود ہے۔جس کے لئے سیکنڈ شیڈول کے پارٹ 4 کے کلاز 12اے کے مطابق کاروباری حضرات کو ایک سرٹیفیکیٹ محکمہ مال سے تصدیق کروانا ہوتا ہے۔

جس کا نمونہ ٹیکس کی کتاب میں موجود ہے اور اس  میں کاشتکار کی معلومات جیسا کہ نام ،شناختی کارڈ نمبر، موضح، خسرہ نمبر ، قیمت،مقدار اور پتہ وغیرہ درج کرنا ہوتاہے۔بظاہر یہ عمل آسان نظر آتا ہے لیکن دراصل کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے  جیسے پٹواری کو بلا کر  خسرہ،کھیوٹ اور کھیتونی  کا حساب لگوانا ہے۔

(جاری ہے)

یا کچہری  میں جا نشینی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا یا پولیس اسٹیشن جا کر رپٹ درج کرانا۔

ہمارے ہاں قوانین کی حد تک تمام اصول و ضوابط درست معلوم ہوتے ہیں لیکن عمل درآمد کے وقت یہی کام کوہ گراں  دکھائی دیتے ہیں۔ٹیکس ریٹرن بھرنے کے لئے حکومت نے بہت سے اقدامات کئے ہیں اور   ایف بی آر نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی سسٹم کے لئے 3.8 ارب روپے  کی رقم مختص کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لئے بے شمار اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

یہ بات اس حقیقت سے عیاں ہے کہ ایف بی آر کی تمام تر کوششوں اور میڈیا کمپین کے باوجود صرف 3 ملین سے بھی کم لوگوں سے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کی ہیں۔ جبکہ  ایف بی آر نے  رواں مالی سال جو لائی تا اکتوبر 1841 ارب روپے کا نیٹ ریونیوحاصل کیا ہے جو کہ اس عرصہ کے مقر ر کردہ ہدف 1608ارب روپے سے 233ارب روپے زائد ہے۔ اس طرح پچھلے سال اس عرصہ کے حاصل کردہ ریونیو 1347 ارب روپے کے مقابلے میں محصولات کے حصول میں ریکارڈ 36.6 فیصد اضافہ حاصل ہوا ہے۔


گورنمنٹ کسی بھی ملک کی ہو، اس کو چلانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، حکومتیں اس رقم کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں، لیکن زیادہ تر انحصار عوام سے ملنے والے ٹیکس پر ہوتا ہے۔ حکومت کے لیے ٹیکس باقاعدہ ایک "ریوینیو"  ہے اور اس کی سالانہ انکم اسٹیٹمنٹ میں انکم کی مد میں ٹیکس آتے ہیں۔ اور ’’اخراجات‘‘ کی مد میں صحت، تعلیم سبسڈیز، انفراسٹریکچر اور قرض فراہمی/واپسی وغیرہ سروسز آتی ہیں۔


پاکستان میں بھی ٹیکس کا باقاعدہ ایک نظام ہے۔ جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حکومت عوام کی سہولیات جیسے تعلیم، صحت، انفراسٹریکچر اور سبسڈیز مہیا کرنے پر صرف کرتی ہے۔ ٹیکس کا ایک باقاعدہ طریقہ کار اور قانون ہوتا ہے جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ہے۔ آزادی کے بعد انڈیا اور پاکستان نے  انگریز دور کا ٹیکس کا نظام اختیار کر لیا تھا، جس کا نام انکم ٹیکس ایکٹ 1922 تھا۔

پھر پاکستان نے قیام کے 32 سال بعد اپنا ٹیکس کا قانون بنایا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 تھا۔ 2000 ء تک یہی قانون چلتا رہا۔ 2001 ء میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ہے، جو تاحال فعال ہے۔یہاں ٹیکس کے لیے دو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، جن کی وضاحت ناگزیر ہے۔ ایک’’ایکٹ‘‘اور آرڈیننس۔‘‘ ایکٹ ایسا قانون ہے جو پارلیمنٹ پاس کرتی ہے یعنی ملک کا وزیر اعظم پاس کرتا ہے اور ’’آرڈیننس‘‘ وہ قانون جسے صدر مملکت پاس کرتا ہے۔

  روزنامہ پاکستان کے معروف کالم نگار
محترم نسیم شاہد نے 30 ستمبر 2021سے پہلے ملتان سے تعلق رکھنے  والے  اپنے ایک پروفیسر دوست کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی مشکلات سے آگاہ کیا تھا کہ کس طرح ٹیکس جمع کروانے کے آخری دنوں ایک پڑھے لکھے انسان کو بھی وکیلوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کم ریٹرن جمع کرائے جانے کی ایک اہم وجہ ٹیکس دہندگان کے بارے میں ایف بی آر کے سخت قوانین ہیں جن کی وجہ سے عام شہری یہ سمجھتا ہے کہ ایک بار ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے زندگی بھر کیلئے مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔


وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ و ریونیوشوکت ترین نے ٹیکس گزاروں کو سہولت دینے کے لئے تمام  ان لینڈ ٹیکس قوانین کو ہم آہنگ اور یکجا کرنے کے لئے ان لینڈ ریونیو کوڈ کو وضع کرنے کا باضابطہ افتتاح کیا ہے۔ ان لینڈ ریونیو کوڈ کو وضع کرنے سے تجارتی آسانی کو فروغ ملے گا اور بہت سے قوانین اور ریگیولیشنز کی وجہ سے ٹیکس نظام کی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملے گا۔

ایف بی آر مقامی سطح پر چار بڑے ٹیکس قوانین کا نفاذ اور عمل درآمد کروا رہا ہے جن میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 اور اسلام آباد حدود (خدمات پر سیلز ٹیکس) آرڈیننس 2001 شامل ہیں۔ اسی طرح ان چار ٹیکس قوانین پر عمل درآمد کے لئے مفصل رولز بھی بنائے گئے ہیں ۔ اس طرح ٹیکس گزار  کو آٹھ قانون کی کتابوں سے راہ نمائی لے کر اپنی ٹیکس ادائیگی کو پورا کرنا پڑتا ہے۔

جوکہ ایک انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس قوانین کو ہم آہنگ اورسادہ بنایا جائے جو کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دوسرے امدادی اداروں کا بھی دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ اسی طرح سول سوسائٹی، وکلاء اور اعلی عدالتوں کی طرف سے بھی قوانین کی پیچیدگی کوقوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ قرار دی جاتی  رہی ہے۔

پچھلی حکومتوں نے اس اقدام کو اٹھانے کا چیلنج نہ لیا ۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان چار قوانین کو یکجا کرکے قانون کی ایک کتاب بنا دی جائے جس کے لئے صرف رولز کی ایک ہی کتاب ہو گی۔  جس کے بعد تمام سٹیک ہولڈرز بشمول چیمبرز آف کامرس، تجارتی تنظیمیں ، ٹیکس وکلاء اور فیلڈ دفاتر سے  مشاورت کی جائے گی امید ہے  کہ ان لینڈ ریونیو کوڈ کو یکم جولائی 2022 سے نافذ کر دیا جائے گا۔جس سے عام آدمی کے لئے بھی ٹیکس کی ادائیگی آسان  ہوگی ، حکومت کےلئے ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوگااور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :