تسخیر کائنات اور ہم

جمعرات 17 فروری 2022

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

ماڈرن ٹیلی سکوپ کی ایجاد کا سہرہ  جرمنی  کے ایک عینک  ساز  ہنس لپرے  کے سر جاتا ہے ۔ جس نے 1608 میں ابتدائی ٹیلی سکوپ بنائی ۔لیکن   آسٹرانومی کی  فیلڈ میں اس کا باقائدہ استعمال گلیلیو نے کیا اور قدامت پسند مذہبی تنظیموں کے ہاتھوں اس کی بھاری قیمت بھی اٹھائی۔سترویں صدی کے پہلے نصف میں سلطنت عثمانیہ میں  مراد چہارم اور برصغیر میں شاہ جہاں اہم حکمران واقع ہوئے ہیں۔

سلطنت عثمانیہ  بھی  تعلیم اور سائنس کے میدان میں خاطر خواہ کام نہ کر سکی ۔ادھر شاہ جہاں ، تاج محل جیسے عظیم شاہکار بنوا رہا تھا۔مسلمان فلسفہ اور سائنس میں  پیچھے کی طرف جا رہے تھے اور مغرب ترقی کے زینے طے کر رہا تھا۔  گلیلیو نے  اشیا کی حرکات، دوربین، فلکیات کے بارے میں بیش قیمت معلومات فراہم کیں۔

(جاری ہے)

اس کے بعد نیوٹن اور آئن سٹائین نے سائنس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

جنگ عظیم دوم میں ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی طاقتوں میں  سرد جنگ اور میزائل کی دوڑ شروع ہو گئی۔ 1969 میں انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا  اور دوسرے سیاروں کی تسخیر کا بھی آغاز ہو گیا ۔بیسویں صدی کے آخری عشرے میں کمپیوٹر ،انٹر نیٹ عالمی سطح پر پھیلا   اور  ہبل ٹیلی سکوپ نے بگ بینگ تھیوری کو درست ثابت کر کے  سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا   میں تہلکہ مچا دیا۔

سٹیفن ہاکنگ نے   وقت کی مختصر تاریخ ۔ گرینڈ ڈیزائن  ،  بلیک ہول اور تھیوری آف ایوری تھنگ کے بارے  میں لکھا۔ سٹرنگ ،ایم اور  ملٹی یونیورس کا نظریہ دیا۔ اور دنیا میں پوچھے جانے والے بڑے سوالوں کے جواب دئے۔زمین کے متعلق اولین  ماڈل یہ تھا کہ یہ حالت سکون میں ہے۔  1920 کی  دہائی میں ایڈون ہبل نے اپنے مشاہدات   شائع کئے جن کے مطابق زمین مسلسل پھیل رہی ہے۔

اگر چہ ہبل نے اس پھیلاؤ کا باقائدہ مشاہدہ نہیں کیا تھا لیکن اس نے کہکشاؤں سے خارج ہونے والی  روشنی کو ابزرو کیا تھا۔یہ روشنی اپنے ساتھ مخصوص  خصوصیات کا حامل سپیکٹرم بناتی ہے۔ جس کا انحصار کہکشاؤں کی بناوٹ پر ہوتا ہے۔چونکہ ہر کہکشاں زمین کی اپنی گردش  کے ساتھ ایک خاص نسبت سے حرکت کر رہی ہے  لہذا یہ روشنی ایک معلوم مقدار کے مطابق تبدیل ہو گی۔

مختلف کہکشاؤں کے سپیکٹرا  کا جائزہ لینے کے بعد  ہبل ان کی ولاسٹی آسانی سے معلوم کر سکتا تھا۔اس کے مشاہدے کے مطابق یہ کہکشائیں مسلسل دور جار ہی تھیں لہذا اس نے اخذ کیا کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اور یہ بات قرآنی احکام کے مطابق بھی درست ہے۔ ہبل ٹیلی سکوپ 1990 میں لانچ کی گئی تھی۔ناسا اور دوسرے اداروں کے سائنسدانوں نے ان تیس برسوں میں بے پناہ محنت کی  اور 25 دسمبر 2021 کو  جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی خلا میں بھیج  دیا۔

جب کہ مسلمان ممالک نے ان تیس برسوں میں کبھی خلیج میں  جنگ دیکھی۔ تو کبھی فلسطین ،کبھی کارگل تو کبھی بوسنیا۔ کبھی چیچنیا تو کبھی کشمیر۔ ستمبر 2001 کے بعد ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان پر  امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے  جنگ  مسلط کر دی۔ اور اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارے پیارے ملک پاکستان کے   تمام  اداروں  کے بے شمار آفیسرز اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور اقتصادی طور  پر بھی ملک بہت کمزور ہوا۔

  سویلین لوگوں نے بھی ملک  کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔
جیمز ویب سپیس ٹیلی  سکوپ کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں 30 برس کا عرصہ لگا ہے اور اسے 21 ویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔

یہ دیو ہیکل خلائی دوربین کائنات کے ان حصوں کی دیکھنے کی کوشش بھی کرے گی جہاں تک ہبل ٹیلی سکوپ کی نظر بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔اس ٹیلی سکوپ میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ زمین سے کہیں دور موجود سیاروں کے ماحول اور وہاں موجود گیسوں کی جانچ کے ذریعے زندگی کے شواہد تلاش کر سکے گی۔ اگلے چھ ماہ میں اس ٹیلی سکوپ کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہو جائیں گےاس کے علاوہ مصنوعی ذہانت اور آن لائن بزنس نے دنیا کے کاروبار کا  طریقہ کار بدل دیا ہے۔

روائتی  جنگوں ، تہذیبوں کے تصادم  کی بجائے اقتصادی اور سائنسی  ترقی نے لے لی ہے۔ ففتھ جنریشن  وار فئیر نے پچھلے تمام جنگی طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا ایک پاور فل ٹول بن چکا ہے اور غیر ریاستی ادارے ایک پہچان بن چکے ہیں۔   تحقیق اور تعلیم کا حکم ہمیں دیا گیا تھا اور اس پر عمل مغربی اقوام کر رہی ہیں ۔
مغربی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلسل نئے نئے کارنامے انجام دے رہی ہے  اور ہمارے ہاں وہی پرانے مسئلے ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔

بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کی نئی لہر نے جنم لیا  ہے اور دہشت گردوں کے پاس جدید ہتھیار اور  ماڈرن سازو سامان ملا ہے۔آئی ایم ایف کے قرضوں ، مہنگائی اور  نت نئے ٹیکسوں نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پس پرد ہ میں چلا  گیا ۔ مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت عروج پر ہیں ۔ عدالتوں میں انصاف نہیں مل رہا   اور سڑکوں پر انصاف تقسیم ہو رہا ہے۔

سیالکوٹ جیسے واقعات  نے عالمی سطح پر  ہمارے امیج کو متاثر کیا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو بے شمار قدرتی   خزانوں  اور معدنیات سے بخشا ہے۔ یہاں ٹورازم  فروغ پا  سکتا ہے۔ بشرطیکہ  مری  میں برف باری کے دوران ہونے والی ہلاکتوں جیسے واقعات نہ ہوں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے کی بجائے ملکی تعمیر  میں مثبت کردار اد ا کریں۔ تمام صوبوں میں یکساں ترقی کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔

کسی صوبے کو ترقیاتی فنڈ سے محروم نہ رکھا جائے۔ بلوچستان اور سندھ کے قدرتی وسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حاصل کیا جائے ۔ گوادر کی بندر گاہ اور سی پیک کے منصوبے سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ ہمیں بحیثیت  قوم ایک ہو کر اور اپنے  ذاتی مفاد سے با لا تر ہوکر  پاکستان کی ترقی  کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :