یوم یکجہتی کشمیر

جمعہ 5 فروری 2021

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

یوم یکجہتی کشمیر ہر سال 5 فروری کو پاکستان سمیت پوری دنیا  میں منایا جاتا ہے۔دوسرے اسلامی ممالک اور مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اس  دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور عالمی ضمیر کو  جگانے کے لئے اقوام متحدہ کے دفاتر میں  قراردادیں جمع کروائی جاتی ہیں تاکہ یہ بین الاقوامی ادارہ اپنے منشور کے  مطابق 70 سال   پرانے مسئلے کو حل کروائے اور کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے ۔

چند دن پہلے  میں نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو  دیکھی تھی  جس میں ایک بھارتی مقبوضہ  کشمیر کی خاتون کہتی ہے کہ وہ اس بحران کے دوران پیدا ہوئی اور وہ یہ سوچتی ہے کہ شائد اس بحران اور کشمیر کی آزادی کے بغیر ہی وہ اس دنیا سے چلی جائے گی۔یہ بات بین الاقوامی  امن  کے اداروں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے ۔

(جاری ہے)

عام لوگ ان  اداروں کے  محض دکھاوے کے اجلاس ،  انٹرنیشنل میڈیاکی لائیو کوریج اور حاضرین کی کھوکھلی  تقریروں سے تنگ آ چکے ہیں۔

مسئلہ کشمیر ایک ضرب المثل بن چکاہے جب کوئی معاملہ حل طلب نہ نظر آئے تو لوگ کہتے ہیں کہ معاملہ تو مسئلہ کشمیر کی طرح طوالت اختیار کر گیا ہے۔یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی کوششوں کے باعث 1990 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوا  تاکہ کشمیر کا مسئلہ  بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جاسکے اوراس دیرینہ مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل نکالا جاسکے۔

لیکن تیس برس گزرنے کا باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں کھڑا ہے۔اور مزید مظلوموں  اور نہتے کشمیریوں کی شہادت  کا باعث بنا ہے۔اس دن کو منانے کے لئے کوہالہ پل کے علاوہ دوسرے اہم مقامات پر انسانی   ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اس دن کی مناسبت سے خصوصی پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔اخبارات خصوصی ضمیمے شائع کرتے ہیں۔

ٹی وی چینلز پر سپیشل ٹاک شو کئے جاتے ہیں۔ آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے تو کشمیر کی آزادی کے لئے ٹویٹ،فیس بک پوسٹ، یوٹیوب کلپ ، واٹس ایپ سٹیٹس لگانے سے بھی کشمیر کی آزادی میں حصہ ڈالا جاتا ہے اور جب کشمیر ریلی میں حصہ لیا تو انسٹا گرام پر تصویر لگا دی۔ بین الاقوامی فوجی مبصرین کو کنٹرول لائن پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جاتا ہےاورملک بھر میں کشمیر کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔

موجودہ حکومت  نے پاکستان کے سرکاری نقشے میں کشمیر اور جوناگڑھ ریاست کو پاکستان کا حصہ دکھا یا ہے اور اور اسلام آباد میں کشمیر  روڈ کا نام تبدیل کر کے " سری نگر " ہائی وے رکھ دیا ہے۔ اس دن مختلف سکولوں میں بچے اکثر یہ گانا گنگناتے ہیں کہ :-
ماں کشمیر تو جنت ہے نا جنت میں طوفان ہے کیوں؟
 حق تو حیوانوں کے بھی ہیں درد میں پھر انسان ہے کیوں؟
 یاد ہے تم کو ساروں کے دکھ، میرا دکھ کیوں یاد نہیں؟
اب تو ہے آزاد یہ دنیا ،پھر میں کیوں آزاد نہیں؟
یہ سچ ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار  جانوروں تک کے  حقوق کی بات کرتے ہیں  لیکن کشمیر کے مسئلے پر قلم اور آواز  اٹھاتے انہیں ڈر لگتا ہے۔

مقامی ہوٹلوں کے آٹو کنٹرولڈ  ٹمپریچر ہالز میں تقریریں کرنے والے  کشمیر  کے بارڈر کی لائف اور  فائرنگ کی مسلسل آواز  کے دوران ، اپنی فیملی ، والدین  اور بچوں سے دور سپاہیوں کی صورتحال کا صحیح ادراک نہیں کر سکتے۔ کشمیر ، سیاچین اور مغربی سرحد پر کھڑے سپاہی جب اپنے ہی ملک کے لوگوں کو پاک فوج کے خلاف  باتیں کرتے سنتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے جن کے دفاع کے لئے ہم  سرحد اور برف پوش پہاڑیوں  پر کھڑے ہیں  انہیں احساس ہی نہیں ہے - وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم  چند ہزار کی تنخواہ کے عوض یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں -  ایک ایسا ہی سپاہی یہ سوچتا ہے کہ میں ایسے سب لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر صرف تنخواہ کی بات ہوتی تو میری ایک سال کی تنخواہ بھی یہاں ایک رات گزارنے کے لیے ناکافی ہے -
کاش وہ یہ محسوس کر سکتے کہ اس کے لئے انسان کی رگوں میں غیرت مند خون کا دوڑنا اور پیٹ میں حلال کا لقمہ ہونا بہت ضروری ہے - مادر وطن کا دفاع تنخواہ کے بدلے نہیں ہو سکتا،بلکہ اس کے لئے مٹی سے محبت , شہادت کی تڑپ ، اور جذبہ ایمانی بہت ضروری ہے - لیکن وطن فروش، لٹیروں اور ان کے چاہنے والوں کو کیا پتہ کہ مادر وطن سے محبت کیا ہوتی ہے۔


افتخار عارف کہتے ہیں ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
ہم نے خو د کشمیر ،سیاچین اور مغربی سرحد میں   شہید ہونے  والے جوانوں اور افسران کے جنازے اٹھائے اور ان کے فیملی ممبرز اور والدین سے ملے ہیں ۔جوان بیٹوں کو مٹی میں دفنانے کے لئے اعلی جذبہ ایمانی ،  بہادری اور مضبوط اعصاب  چاہئے ہوتے ہیں۔

اور شہادت کا اعزاز ہر ایک کو نصیب بھی نہیں ہوتا۔لیکن کشمیر ی ماؤں، معصوم بچوں  اور بزرگ  زخمیوں کی آہ و پکار کا سرحد کے اس پا رکھڑے انڈین فوجی کی ڈیوٹی اور سفاکی میں کوئی فرق نہیں پڑتا  اور وہ اپنی جارہانہ  کاروائیاں جاری رکھتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں اس دن سارا لوگ صرف  اضافی سو کر گزار  دیتے ہیں ۔اس  سلسلے میں کشمیر کمیٹی کی کارکردگی  بھی برائے نام ہے۔

کشمیر  کے مسئلے کے حل کے لئے مختلف ادوار میں مختلف آپشنز پر غور ہوتا رہا ہے لیکن زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ جنت نظیر ٹکڑا کسی بھی صورت میں بھارت کے تسلط میں نہیں رہ سکتا۔مشہور انگریز  مصنف  آلسٹیر لیمب کے مطابق شیخ عبداللہ  کی ملی بھگت کے باعث قیام پاکستان کے وقت کشمیر پاکستان کے ساتھ نہیں مل سکا جس کی سزا معصوم کشمیری آج تک بھگت رہے ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا پائدار حل    سارک ، او آئی سی، دیگر علاقائی تنظیموں  اور اقوام متحدہ کے تعاون سے  نکالا جائے۔اور کشمیریوں کے خون سے مزید ہولی نہ کھیلی  جائے۔ تا کہ یسین ملک آزاد ٖفضا میں سانس لیں اور سید علی گیلانی  اپنی حیات میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنتے  دیکھ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :