مرقع گجرات

منگل 2 نومبر 2021

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

جی ٹی  روڈ پر واقع ہونے کے باعث گجرات شہر کو پنجاب کے اہم شہر ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ موٹر وے بننے سے پہلے تمام لوگ  لاہور سے  راولپنڈی  اور شمالی علاقہ جات کو جانے کے لئے یہاں سے گزر کر جاتے تھے۔زمانہ  طالبعلمی سے چھمب سیکٹر اور 1965 میں پاک فوج کی جانب سے اس میں اعلی جنگی مہارت  دکھانے اور دشمن کو زیر کرنے کی داستانیں سنی تھیں۔

2000 میں بحیثیت کیپٹن چھمب سیکٹر میں تعیناتی ہوئی تو اس سیکٹر کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا۔ ان دنوں گجرات سے  مجید ٹرانسپورٹ  بس سروس کے  ذریعے چھمب تک  جایا کرتے تھے ۔ گجرات سے سفر کے دوران براستہ جلال پور جٹاں  مختلف قصبے  اور دیہات  دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ گجرات شہر کو اچھی طرح دیکھا ۔گجرات میں سروس شوز کی مشہور فیکٹری ہے اس کے علاوہ فرنیچر اور بجلی کے پنکھے بھی گجرات شہر کی پہچان ہیں۔

(جاری ہے)

گجرات شہر کا  اعلی اور پائیدار فرنیچر کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جی ایف سی اور یونس فین کے پنکھے زیادہ مشہورہیں اور پاکستان  سے باہر بھی بھیجے جاتے ہیں۔ 2013   کے عام انتخابات میں بھی  ضلع گجرات میں ڈیوٹی کے دوران گجرات کے شہر اور گرد ونواح کو اچھی طرح جاننے  کا موقع ملا۔گجرا ت سے لے کر جلالپور جٹاں، لکھنوال،بھاگووال،سرخ پور، ٹانڈہ،بڑیلہ،اعوان شریف، کڑیانوالہ، دولت نگر اور  کوٹلہ  ارب علی خان  وغیرہ دیکھنے کا موقع ملا۔

گجرات شہر میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے دفاتر سے بھی رابطہ رہا۔ ۔سروس کے دوران گجرات  کے گاؤں لادیاں کا نام میجر عزیز بھٹی شہید کے حوالے سے سنا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی مسلح افواج میں گجرات شہر کے لوگوں نے اپنی بہادری اورجرات کا لوہا منوایا ہے۔بابائے اردو صحافت  مولانا ظفر علی خان کے رسالے "زمیندار"  کے حوالے سے گجرات کے زمیندار  ڈگری کالج  کا نام بھی بہت مشہور ہے اور اس  کالج کے فارغ التحصیل  طالبعلم   کئی دہائیوں سے  ملک کے مختلف شعبوں میں  خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

گجرات کی سیاست میں چوہدری ظہور الہی ، شجاعت حسین ،پرویز الہی اورچوہدری احمد  مختار   قابل ذکر ہیں۔یہ قدیمی شہر دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔ دریا ئے چناب سے منسوب "سوہنی مہینوال" کی لوک داستان بہت مشہور ہے۔ دریاؤں کی  وجہ سے  یہاں کی زمین بہت ذرخیز ہے، زیادہ تر گندم، گنے اور چاول کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔گجرات ایک قدیمی شہر ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اسکندر اعظم کی فوج کو ریاست کے راجا پورس سے دریائے جہلم کے کنارے زبردست مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔  شہر کے محکمانہ نظام کی بنیاد 1900میں برطانوی سامراج نے ڈالی۔ مغلیہ دور میں، مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا۔کھاریاں کے علاوہ سرائے عالمگیر بھی ضلع گجرات کے مشہور شہر ہیں۔ سرائے عالمگیر میں مشہور "ملٹری کالج جہلم " بھی واقع ہے ۔

یہ کالج قیام پاکستان سے پہلے سے قائم ہے ۔ جہاں سے پاک فوج کے کئی اعلی افسران نے تربیت حاصل کی ۔ ہم  نے  1992 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول جوائن کی ۔ پی ایم اے سے آتے اور جاتے ہوئے بھی شہر گجرات کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔جی ٹی روڈ پر بے شمار ہوٹل موجود ہیں۔ تاہم میاں جی کے ہوٹل کی دال بہت مشہورہے۔آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔

فیس بک اور واٹس ایپ نے رابطوں کو قائم رکھنا آسان کر دیا ہے۔ گجرات  سے تعلق رکھنے  والے محترم شیخ عبدالرشید صاحب سے سوشل میڈیا کی بدولت رابطہ ہوا اور ہم ان کی تعلیمی اور ادبی صلاحیتوں کے گرویدہ ہو گئے۔چند دن پہلے ان کی حالیہ تصنیف " مرقع گجرات" موصول ہوئی تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔گجرات سے ہمارے دوسرے مہربان دوستوں میں جناب قاسم علی شاہ ( مشہور موٹیوویشنل سپیکر) بھی شامل ہیں۔

کتاب کے شروع میں مصنف نے گجرات شہر اور اس کے علاقے کی تاریخی اہمیت اجاگر کی ہے۔کتاب لکھنے کے لئے مصنف نے بہت زیادہ محنت کی اور کئی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔کتاب پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہو ا کہ بڑیلہ شریف( گجرات کے مشرق میں واقع قصبہ) سے تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت ایم زمان کھوکھر ایڈووکیٹ  کی تھی۔ جنہوں نے علمی ،ادبی اور سماجی خدمت کے شعبے میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔

اسی طرح  جلالپور جٹاں کے تاریخی شہر سے تعلق رکھنے والے رنبیر سنگھ نے برصغیر کی صحافت و سیاست میں بڑا جذباتی اور جوشیلا کردار ادا کیا۔اسی طرح صحافت کی دنیا کے ایک عظیم نام ریاض بٹالوی قیام پاکستان کے بعد  ضلع گورداسپور کے گاؤں بٹالہ سے ہجرت کر کے گجرات آبسے۔ فلمی دنیا کے ایک عظیم نام اعجاز درانی اور  فلمی  گانوں کے مصنف راجندر کرشن  کا تعلق بھی گجرات کے قصبہ  جلالپور جٹاں سے تھا۔

پنجاب کے مشہور گلوکار  عنایت حسین بھٹی کا تعق بھی گجرات سے تھا۔1953 میں فلم شہری بابو میں ایک فقیر منش سائیں کا کردار ادا کیا جس پر انہی کا گایا ہوا نغمہ" بھاگاں والیو  نام جپو مولا نام "فلم بند ہوا اور پھر یہی نغمہ ان کی شناخت بن گیا۔۔آخر میں مصنف نے ایک کامیاب بزنس مین ملک ناظم حسین اعوان کی داستان تفصیل سے لکھی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ملک ناظم حسین اعوان مین بازار کڑیانوالہ   میں مصنف کے والد  شیخ عبدالمجید (مرحوم ) کے پاس دوکان میں بیٹھے تھے  ان کے والد نے مصنف کو بلایا اور ملک صاحب سے کہا کہ اس بچے کی رہنمائی کریں ۔

ملک ناظم حسین اعوان نے بتایا کہ ایک چینی کہاوت کے مطابق  "جس کے چہرے پر مسکراہٹ اور اس کا اخلاق اچھا نہیں اسے دوکان نہیں کھولنی چاہئے۔کاروبار میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے خوش اخلاق ہونا  بنیادی  خصوصیت ہے"۔اس کتاب کے پڑھنے سے گجرات کے شہر اور اس کے لوگوں کے بارے مزید پڑھنے کو دل کرتا ہے ۔امید کی جاتی ہے  مصنف اگلی کاوش میں اس عظیم علاقے کے بارے کوئی اور اہم گوشہ اجاگر کریں گے۔مشاہیر گجرات کی یہ عظیم کتا ب پورب اکیڈمی اسلام آباد نے   پبلش کی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :