اگر وزیر اعظم نا اہل ہو گئے تو

اتوار 2 جولائی 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

فرض کریں۔ صرف ایک لمحے کو فرض کریں کہ جے آئی ٹی اپنی تحقیقات کے بعد کچھ ایسے ثبوت عدالت کو پیش کرتی ہیں جن کی بناء پر عدالت منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیتی ہے یا پھر ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں جن میں وزیر اعظم اخلاقی اور عدالتی دباو کی بنا ء مستعفی ہو جاتے ہیں تو پھر سیاسی منظر نامہ کیسا ہو گا۔ اس ملک کی سیاست میں کون سی تبدیلیاں آئیں گی اور کیا چیز ساکن رہے گی۔

اس فیصلے کے اس ملک پر اثرات کیا ہوں گے اور امکانات کیا ہوں گے۔
نااہلی کی صورت میں نااہلی صرف وزیر اعظم کی ہو گی اس وجہ سے حکومت مسلم لیگ ن کی ہی رہے گی مگر وزیر اعظم کوئی اور ہوگا۔اس بات پر بحث کا موقع نہیں کہ وہ شخص کون ہو گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جو بھی ہو گانواز شریف کے انتہائی قریبی احباب میں سے کوئی قابل اعتماد شخص ہوگا۔

(جاری ہے)


عمران خان اس کو بہت بڑی اخلاقی فتح قرار دیں گے۔

کرپٹ حکمرانوں کو سزا دلوانے کا سارا کریڈٹ لیں گے۔ پی ٹی آئی کے لوگ بھنگڑے ڈالیں گے۔ سوشل میڈیا پر تاریخی خوشیاں منائی جائیں گی۔ پی ٹی آئی کے عہدیدار ٹی وی چینلوں پر فتح کا جشن منائیں گے۔ کرپٹ حکمرانوں سے نجات پانے کی خوشی میں یوم تشکر بھی منایاجا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے اظہار مسرت کے لئے دھرنے کا علان بھی کر دیا جائے۔یہ بات واضح ہے کہ نااہلی کی صورت میں پی ٹی آئی کو اخلاقی برتری حاصل ہوگی اور عمران خان اس کو گو نواز گو کے نعرے کی کامیابی تصور کریں گے۔

لیکن فتح کا یہ جشن دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت اور مضبوط بلدیاتی نظام کی وجہ سے شائد بہت معمولی سی تبدیلی شہری علاقوں کے ووٹ بینک میں آ سکتی ہے مگر دیہی علاقوں کے ووٹرز کو پاناما جیسے سکینڈلز سے کوئی غرض نہیں ہے۔لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔
اگر وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو عدلیہ پر دباؤ بڑھے گا کہ عمران خان کے فارن فنڈنگ کیس اور بنی گالہ والے کیس کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔

یہ دونوں کیس پاناما کی طرح دقیق نہیں اس میں سے بہت سی باتیں عمران خان پہلے ہی سرعام تسلیم کر چکے ہیں۔عدلیہ وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے بعد، انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عمران خان کو بھی نا اہل قرار دے سکتی ہے۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ پی ٹی آئی کا جشن فتح بہت ہی قلیل مدت کے لیے ہوگا۔ جلد ہی خوشیوں پر اوس پر جائے گی۔ اگر ایسا ہوا اور دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین منظر عام سے ہٹ جانے کی وجہ سے اقتدار میں چور دروازوں سے آنے والوں کے لئے رستہ کھلے گا جو کہ جمہوریت کے لیے کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔


چونکہ وزیر اعظم نواز شریف تیسری دفعہ کڑوڑوں لوگوں کے ووٹوں سے وزراعظم منتخب ہوئے ہیں۔انکی جڑیں عوام میں موجود ہیں۔ بیوروکریسی اور دیگر اداروں میں انکے چاہنے والے بھی ہیں۔ ان پر جان چھڑکنے والے بھی ہیں۔ انکا رد عمل یوسف رضا گیلانی سے مختلف ہوگا۔ عوام کی ایک بہت بڑی تعدادجے آئی ٹی کے سارے منظر کو بہت خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ اگر منتخب وزیر اعظم کو نااہل کیا گیا تو اس کا عوامی رد عمل بھی ہو سکتا ہے ۔

نواز شریف اس رد عمل کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس بحالی کیس میں ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ نواز شریف کارکنوں کو متحرک کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔زخم خوردہ کارکن ایک دفعہ سڑکوں پر آ جائیں تو پھر فیصلوں کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور پھر بپھرا ہوا ہجوم ہی مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرتا ہے۔
اگر وزیر اعظم کو نااہل کر دیا جاتا ہے تو حکومت کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

یہ بات درست ہے کہ وزیر اعظم کے لیے نام نیا ہوگا
لیکن حکومت پھر بھی نواز شریف کی ہوگی ۔ نواز شریف کا جو کنٹرول اپنی پارٹی پر ہے اس کی گرفت کمزور نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہی حکومت ہو گی ،یہی پالیسیاں ہوں گی اور ترقی کے ان سب منصوبوں کی تکمیل کا کریڈٹ بھی نواز شریف کو ہی ملے گا۔
اگر جے آئی ٹی کچھ مبہم ثبوت پیش کر کے عدلیہ کے توسط سے وزیر اعظم کو نااہل کروائے گی تو پس پردہ جو بھی سازش ہو ،نام کرپشن کا لیا جائے گا اور اس واقعے کو انصاف کا علمبرداربنا کر پیش کیا جائے گا۔

کرپشن کے خاتمے کی طرف ایک حتمی اقدام تصور کیا جائے گا۔لیکن ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی جمہوری حکومتیں کرپشن کے نام پر ختم ہوئیں ۔ لیکن کرپشن کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔ جمہوری حکومتوں کو برطرف کرنے کے نتیجے میں ہمیشہ کرپشن بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ یہ بات درست ہے کہ جمہوری حکمرانوں کا ہمیشہ بدنام اور برطرف کرنے کے لئے کرپشن کا نعرہ لگایا گیا ہے لیکن اس دلدل میں بہت سے اور لوگوں کے پاوں دھنسے ہوئے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے۔


اگر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے تو اگلے انتخابات میں ہمدردی کا ووٹ مسلم لیگ ن کو ملے گا۔ مسلم لیگ ن اپنی الیکشن مہم ہی اسی بنیادپر تیار کرے گی۔ہمارے ہاں لوگوں کو جذباتی کر کے الیکشن لڑنے کی روایت پرانی ہے۔ آپ بے نظیر بھٹو کی انتخابی مہم یا اللہ یا رسول، بے نظیر بے قصور کو یاد کریں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم یاد کریں۔

یہ قوم تجزیاتی نہیں بلکہ جذباتی قوم ہے ۔ اس کے جذبات کو ہوا دینا دشوار نہیں۔نا اہلی کی صورت میں دو ہزار اٹھارہ میں نواز شریف اور زیادہ اکثریت سے انتخاب جیتیں گے ۔
میاں نواز شریف اب جو باتیں بہت دھیمے لہجے میں کر رہے ہیں ان کو ان باتوں کو واشگاف انداز میں کہنے کا موقع ملے گا۔جن کٹھ پتلیوں کا وہ ذکر کر رہے ہیں انکے نام بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

جو لوگ تاریخ کا پہیہ پیچھے موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں انکی شناخت بھی ہو سکتی ہے۔ جب میاں صاحب کہتے ہیں میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے مگر نہیں کہ رہا ۔ تو اسکا مطلب ہے کہ پھر میاں صاحب وہ سب عوام کے سامنے کہیں گے۔ جو مسلم لیگ ن کے لیے تو یقینا سود مند ہو گا لیکن دوسرے سٹیک ہولڈرز شائد اس سے اتنے خوش نہ ہوں۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ نواز شریف ایسے عناصر کے خلاف کھل کر بولے ہیں بلکہ کئی ایک کے تو نام بھی گنوا دیئے ہیں۔

اب جو بھرم ہے وہ وزیر اعظم کے عہدے کا ہے، جب وہ نہیں رہے گا تو بہت سے نامعلوم افراد اور اداروں کا نام قوم کو معلوم ہو جائے گا۔
اگر وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا جاتا ہے تومسلم لیگ ن لازما خفیہ ہاتھوں کو مورد الزام ٹھہرائے گی۔ اس کا کچھ اندازہ وزیر اعظم کی لندن میں پریس ٹاک سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جس سے اداروں میں تناؤ بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔

خدا نہ کرے لیکن ایسے میں جمہوریت کی گاڑی پھر پٹری سے اتر بھی سکتی ہے۔ ایک دفعہ پھر سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور نہ جانے کتنی دہائیوں کا عذاب ہمارے سر ہو جائے گا۔ ایسے میں ملک کی ترقی کی رفتار بھی رک سکتی ہے۔ غربت بھی بڑھ سکتی ہے اور محرومیوں کی وجہ سے شدت پسندی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔لوڈ شیدنگ ختم کرنے کی طرف جتنی بھی پیش رفت ہوئی ہے وہ سب رک سکتی ہے اندھیرے ایک بار پھر ہمارا مقدر ہو سکتے ہیں۔


جے آئی ٹی کی تشکیل سازی پر اگر اتنے بہت سے سواات نہ ہوتے تو شائد لوگ ذہنی طور پر عدالت کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے لیکن جے آئی ٹی کے حوالے سے وٹس ایپ کالز، حسین نواز کی تصویر لیک، خفیہ ایجنسیوں کی معلومات کی فراہمی کی وجہ سے جے آئی ٹی کا وجود خود مشکوک ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں لوگ اس سارے واقعے کا ذمہ اداروں پر ڈال دیں گے جو کہ ملکی ساکھ اور سلامتی کے لئے خوش آئند بات نہیں ہے۔


اگر جے آئی ٹی کے سب ممبران اچھی شہرت والے حاضر اور ریٹائر فاضل جج ہوتے تو شائد بات بن بھی جاتی لیکن اب سب جانتے ہیں کی
جے آئی ٹی کیسے بنی ہے؟ممبران کیسے چنے گئے ہیں؟کون کون اس میں شامل ہے اور کس کے ایماء پر شامل ہے۔ کون کون سے ادارے ان تحقیقات میں مدد دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں یکطرفہ ثبوت دینے سے اگر عدالت کی جانب سے نااہلی کا فیصلہ آ بھی جاتا ہے تو ان سب ممبران کے ساتھ ساتھ انکے اداروں پر بھی جانبداری کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔

جس کے نتیجے میں ان ا داروں کو عوامی غیض و غضب کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ تاریخ ایسے غیر جمہوری فیصلے کرنے والوں کے ساتھ بہت بہیمانہ سلوک کرتی ہے۔ ان ممبران کا یہ بات یاد رکھنا ہو گی۔
آج کا کالم سب مفروضوں پر مبنی ہے۔ دعا یہی کرنی چاہیے اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو اس کو ضرور سزا ملنی چاہیے لیکن بلا وجہ جمہوری نظام کو کرپشن کے نام پر زک پہنچانے کی کوشش اب کی بار ملک کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :