اپنے پش اپس خود نکالو!!!

جمعرات 17 ستمبر 2020

Arif Anis

عارف انیس

( زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )
ساری کہانی یہی ہے کہ اپنے ڈنڈ خود نکالنے پڑیں گے. یو ہیو ٹو ڈو یور اون پش اپس!
یہ قانون فطرت ہے. آپ جتنا چاہیں زور لگا لیں اس کو بدل نہیں سکیں گے. آپ کسی سے جتنا بھی پیار کرتے ہوں اس کو چاہتے ہوں، اس کے لیے پش اپس کرنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا.

اگر وہ بھوک سے نڈھال ہے، آپ اس کی محبت میں دنیا کا لذیذ ترین کھانا کھا لیں، اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا. اگر فاقہ کریں گے تو پھر بھی اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا. یہی پرسنل ڈیویلپمنٹ کی ساری سائنس ہے.
آپ اپنی زندگی خود تعمیر کرتے ہیں.

(جاری ہے)

چونکہ پیدا ہوتے وقت ہم کوئی مینول ساتھ نہیں لاتے تو زندگی کو جو ہے ، جیسے دستیاب ہے، ویسے ہی گزارنا پڑتا ہے.


ہٹ اینڈ ٹرائل ایک طریقہ ہے. کرتے جائیں اور سیکھتے جائیں. جو کام آجائے اسے جیب میں ڈال لیں اور باقی سلیٹ صاف کردیں. تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس مرحلے میں بہت کچھ ایسی عادتیں بھی سیکھ جاتے ہیں جو ہمارے رستے میں دیوار بن جاتی ہیں.
اسی لئے مرشد یا مربی ضروری ہے. اور یہ مرشد کوئی مافوق الفطرت پانی پر چلتا ہوا کوئی صوفی نہیں، بلکہ کوئی بھی شخص ہے جو آپ سے کسی کام میں بہتر ہے.

بس دو ہاتھ بہتر ہے. آپ اس سے اس مہارت کو سیکھیں، اپنے آپ کو آپ گریڈ کریں اور آگے چلیں. کہتے ہیں انسان کے ہر عشرے کا ایک الگ مرشد ہوتا ہے، کیونکہ ہر دس سال بعد آپ بدل جاتے ہیں، زندگی پرائمری سے سیکنڈری اور پھر یونیورسٹی میں آجاتی ہے.
اسی طرح ہر دس سال بعد آپ کی عادتیں، رویے، پیٹرن، سوچنے، سیکھنے سمجھنے کے طریقے بھی باسی ہوجاتے ہیں.

ہمیں ان کو ونڈوز سافٹ وئیر کی طرح آپ گریڈ کرنا پڑتا ہے. اپنی ہارڈ ڈرائیو میں سے کچھ نکالنا اور کچھ اضافہ کرنا پڑتا ہے. ورنہ پروگرام کرپٹ ہوجاتے ہیں اور مشین بظاہر تو ٹھیک ٹھاک نظر آئے گی، مگر اندر سے جان بحق ہوچکی ہوگی.
ہاں، یہ بھی آپ کے بس میں ہے کہ آپ بدلنے سے انکار کر دیں اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح قائم ہوجائیں اور جیسے دنیا میں آئے تھے ویسے ہی تشریف لے جائیں.

یہ آپ کا حق ہے اور آپ کو اس سے کوئی نہیں روک سکتا.
پیارے لوگو، اچھی باتیں، کہانیاں، حکایتیں جمع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں. اشفاق احمد کے اقوال، واصف علی واصف کے ٹکڑے، میاں محمد بخش اور شاہ لطیف بھٹائی کے دوہے یہ سب کسی کام کے نہیں ہیں اگر آپ ان کو کام میں نہیں لائیں گے. ہم دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں، ہمیں جتنا مرضی کلام حفظ ہو، بات صرف اسی وقت بنے گی جب، جتنا بھی مذہب ہم مانتے ہیں، ہم اس کو جینا شروع کر دیتے ہیں.
آج اگر ایک بات آپ سیکھنا چاہیں تو وہ یہی ہے کہ اگر آپ ایک چیز بھی جان چکے/چکی ہیں تو اس کو جینا شروع کردیں.

کیا آپ بتا سکتے/سکتی ہیں کہ وہ ایک بات کون سی ہے؟
میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ نماز بہت ہی خوبصورت تھیوری ہے. آپ کہتے ہیں کہ میں شکر گزاروں میں سے ہوں، بس ایک ہی رب کی عبادت کرتا ہوں، اسی سے مدد مانگتا ہوں اور اسی کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں. پھر آپ سلام پھیرتے ہیں اور تھیوری سے پریکٹیکل میں آجاتے ہیں. اب وہ ساری عبارتیں اور دعائیں جو پڑھی تھیں، ان کو جینے کا وقت ہے.

یہ ثابت کرنے کا وقت ہے کہ جو وعدہ وعید آپ نے نماز پڑھتے وقت کیے تھے، ان پر واقعی آپ کا ایمان قائم ہے. اور صرف آپ ہی ان کو جی سکتے ہیں. اور آپ ہی اپنے اعمال کے سو فیصد ذمہ دار ہیں.
جیسے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا کہ پکڑنے والے کے لیے صرف ایک الف کافی ہے. اگر اس الف کو جی لیا جائے ورنہ دفتر کے دفتر کافی نہیں ہوں گے.
جب آپ چائنیز بانس کا درخت اگاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ آپ کو چار سال تک کچھ نظر نہیں آتا.

ہاں، چوتھے برس ایک ہلکی سی کونپل زمین کا سینہ چیر کر باہر نکل آتی ہے.
ان چار برسوں میں پانی دینے والا پانی دیتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ بیج کو کیا ہوا. دکھائی دیتا ہے کہ چٹیل میدان ہے اور بس. لیکن ان چار سالوں میں اس درخت کے اندر ساری نشوونما زمین کے اندر ہوتی ہے. جڑیں دور گہرائی اور چوڑائی میں پھیل جاتی ہیں تاکہ اپنے سر پر پڑنے والا بوجھ برداشت کرسکیں.
پانچویں سال چینی بانس کا درخت صرف 6 ہفتوں میں میں تقریباً 90 فٹ اونچا اور لمبا ہوجاتا ہے.

ایک وقت تو ایسا بھی آتا ہے کہ صرف 24 گھنٹے میں اس درخت کی نمو 39 سے 48 انچ تک ہوجاتی ہے.
جب آپ موٹیویشن پر کتابیں پڑھتے ہیں، لیکچر سنتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں، تو آپ کے اندر جڑیں دور تک پھیلتی جاتی ہیں، مگر آپ 90 فٹ سربلند صرف اس صورت میں ہوتے ہیں جب آپ ان چیزوں کو کر گزرتے ہیں. تھیوری اپنی جگہ، پریکٹیکل اپنی جگہ!
اپنے آپ کو بدلنے کا بہترین وقت کل تھا، یا پھر آج ہے! کوئی بھی موٹیویشنل سپیکر یا لکھاری یا خطیب آپ کے حصے کے ڈنڈ نہیں نکال سکتا، نکال بھی لے تو آپ کو فائدہ نہیں ہوگا.
آئیے اپنے حصے کے ڈنڈ خود نکالتے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :