
روح رمضان المبارک
اتوار 26 جون 2016

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
روزہ جہاں انسان کو بہت سی برائیوں سے بچاتا ہے وہاں جسم انسانی کو افعال پر بھی بہتر اثرات مرتب کرتا ہے اور ساتھ انسانی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جس سے صبر و براداشت، ایثار و قربانی اور ضبط نفس کے اعلیٰ اوصاف کی تکمیل ہوتی ہے۔
روزہ قدرتی صبر یوں بھی دیتا ہے چونکہ ہمارا دھیان کھانے اور پینے کی طرف نہیں ہوتا اس لیے ہمارے دماغ میں موجود Hunger Centerکو کوئی محرک نہیں ملتا اور اس طرح ہمیں بھوک اور پیاس کا ویسا احساس نہیں ہوتا جیسا عام دنوں میں ہوتا ہے۔ہمارے ساتھ یہاں کام کرنے والے یورپین ہمیں روزے رکھتا دیکھ کر محو حیرت ہوتے ہیں اور وہ اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔شمالی یورپ کے ممالک جن میں سویڈن ، فن لینڈ، ناروے اور آئس لینڈ شامل ہیں وہاں روزے کا دورانیہ بیس گھنٹوں سے زائد ہے۔ قطب شمالی کے اس خطہ کے کچھ علاقوں میں تو ان دنوں دن رات کا تصور ہی نہیں۔ ان لمبے روزوں کی بابت اکثر لوگ سوال کرتے ہیں اور مختلف قسم کے فتوے بھی گردش میں ہیں کہ مکہ یا استنبول کے قوت کے مطابق روزہ رکھ لیا جائے یا پھر سولہ گھنٹے کا روزہ رکھیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ روزہ فاقہ کشی کا نام نہیں کہ سولہ گھنٹے یا کسی اور شہر کے وقت کے مطابق رکھاجائے۔ نماز اور روزہ کے اوقات مقامی ہوتے ہیں اور روزے کا دورانیہ خود اللہ تعالیٰ نے صبح صادق سے رات تک مقرر کیا ہے (۱۸۷/۲) پھر کون اسے تبدیل کرکستا ہے۔ اجتہاد اس معاملہ میں ہوسکتا ہے جو قرآن میں موجود نہ لیکن جو قرآن میں واضع طور ہو اسے کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ لمبے روزوں کا حل بھی قرآن میں موجود ہے اور اگر قرآن حکیم میں تدبر کیا جائے تو سورہ بقرہ میں بیماروں، مسافروں اور بہت مشکل سے رکھنے والوں کو قضا کی سہولت دی گئی ہے۔ جن ممالک میں دن رات کا تعین مشکل ہے، یا بہت لمبے روزے ہیں یا موسم کی وجہ سے کوئی بہت ہی مشقت سے سیے رکھتا ہے کہ کوئی کام ہی نہ کرسکے تو وہ اس زمرے میں آجاتا ہے اور یورپی فتویٰ کونسل جس میں یورپ مین رہنے والے بہت سے علماء شامل ہیں انہوں نے بھی یہی فتو یٰ دیا ہے۔ یہاں ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اگرچہ شمالی یورپ کے ان ممالک میں بہت لمبے روزے ہیں لیکن چونکہ موسم گرم نہیں ہوتا تو یہاں رہنے والے بڑے تو ایک طرف اکثر بچے بھی روزہ دار ہیں۔ اگر انسان نے کوئی کام کرنا ہو تو وہ کرلیتا ہے لیکن اگر فرار کی راہ تلاش کرنا ہو تو ہو وہ پھر کٹھ حجتوں پر اتر آتا ہے۔لوگ کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ روزے فرض ہوتے ہی اسی سال یعنی سن۲ھ میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر جنگ لڑنا پڑی تھی اور موسم بھی گرمیوں کا تھا لیکن انہوں نے روزے رکھ کر کفا رسے جنگ لڑی اور فتح مبین حاصل کی۔ اس میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ احکامات پر عمل کرنے میں پوری صدق دل سے کوشش کرنی چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.