ویلفیئر ریاست سے بھی آگے
اتوار 8 جنوری 2017
(جاری ہے)
ظاہر ہے یہ وہاں ہوگا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔
اسلام کا موازنہ یہودیت، عیسائیت، بدھ مت، ہندو مت اور دیگر مذاہب کی بجائے نظاموں سے کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ۔ عام لوگ تو ایک طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی اسلام کے بارے میں غلط فہمی ہوتی ہے اور وہ بھی اسلام کو ایک مذہب ہی سمجھتے ہیں ہے حالانکہ قرآن حکیم میں مذہب کا لفظ تک موجود نہیں۔ اسلام ایک دین اور نظام زندگی ہے جبکہ مذہب اس کا صرف ایک جزو ہے ۔ اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ تو تمام مذاہب کے لئے ایک چیلنج ہے۔ یہ ایک زندگی گذارنے کا ایک نظام ہے جو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور انفرادی ہر سطح پر اپنا پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے انبیاء اکرام اس وقت کے سیاسی نظام کو بدلنے کی جد دجہد کرتے تھے، وہ صرف نمازیں پڑھانے یا بتوں کی عبادت سے روکنے نہیں آتے تھے۔ ہر نبی اور رسول اپنے دور کے سیاسی و معاشی نظام کو چیلنج کرتے تھے جس میں انسانوں نے انسانوں کو محکوم بنا رکھا ہوتا تھا۔ حضرت شعیب، حضرت صالح اور حضرت نوح نے لوگوں محض خدا کی رسمی عبادت کی تبلیغ نہ کی بلکہ اپنے دور کے استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد کی۔ حضرت ابراھیم، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اپنے وقت کے حکمرانوں اور اس سیاسی نظام کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ سیاسی نظام وہی رہے اور لوگوں کو نماز روزے کی تبلیغ کریں ۔دین آتے ہی سب سے پہلے سیاسی نظام کو چیلنج کرتا ہے ۔خود حضور اکرام نے مکہ میں ابتد میں ہی اعلان کیا تھا کہ مجھے مملکت کے لئے وزیروں کی ضرورت ہے ۔ کفارمکہ آج کے ان دانشوروں سے زیادہ باشعور تھے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام محض ایک مذہب ہے اور ریاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔اگر اسلام صرف مذہب ہی ہوتا تو شائد کفار مکہ کو اسے تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن وہ اسے ایک نظام زندگی کے طور پر اپنانے کے لئے تیار نہ تھے جو ہر زندگی کے شعبہ میں ان پر پابندی اور آزادی کی حدود متعین کرتا تھا ۔اگر اسلام چند مذہبی رسومات کا نام ہوتا تو کفار مکہ ہجرت کے بعد بھی جنگیں لڑنے مدینہ کا رخ نہ کرتے۔ انہیں علم تھا کہ اگر یہ نظام مدینہ میں قائم ہوگیا تو اس کی لپیٹ میں پورا عرب آجائے گا اور ان کا انسانی استحصال پر مبنی نظام ختم ہو جائے گا۔ یہ حقیقت کفار مکہ کو معلوم تھی لیکن آج کے کئی دانشور نہیں سمجھ پاتے اور اس کی وضاحت علامہ اقبال نے نوحہ ابو جہل کے عنوان ے بہت تفصیل اور خوبصورتی سے کی ہے۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب ایک معاہدہ ہے جس میں مومن اپنی جان اور مال کے بدلے جنت حاصل کرتا ہے (48/10 ) ۔ یہ معائدہ جزوی نہیں بلکہ مکمل طور پر قبول کرنا ہوگا(2/208 )۔اگر اسلام محض ایک مذہب ہوتا تو پھر واقعی ریاستی امور کا اس سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور ریاست سیکولر ہی ہونی چاہیے لیکن ایسا ہے نہیں ۔اگر قوت نافذہ نہیں تو اسلام صرف وعظ بن کر رہ جائے جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے کہعصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.