تحریر سے تقریر تک
جمعہ 20 اکتوبر 2017
(جاری ہے)
یہ سارا منظر نامہ نگاہوں میں اس لئے گھوم گیا کہ ڈنمارک میں مقیم معروف بلاگر جناب رمضان رفیق نے اپنی کتاب تحریر سے تقریر تک عنائیت کی۔ وہ چار دیگر کتابوں کے بھی مصنف ہیں اور ان کے سفری بلاگ قارئین میں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے زرعی یونیوسٹی فیصل آباد سے زرعی علوم میں گریجوایشن اور ایم ایس سی آنرز کیا۔ مجھے بھی اس درسگاہ کا طالب علم ہونے کا فخر حاصل ہے۔ جناب رمضان رفیق جوزمانہ طالب علمی سے بہت اچھے مقرر ہیں اور بعد میں توکئی تقریری مقابلوں کے منصف بھی رہے ہیں، اپنی اس کتاب میں انہوں نے فن خطابت کے بنیادی اور اہم اسرارورموزلکھے ہیں جو اس میدان میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے رہنما ثابت ہوں گے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں تقریر، مباحثہ، فی البدیہہ اظہار خیال اور نظامت کے گر بھی بتائے ہیں۔ انہوں نے تقریر کے اہم اجزاء، ابتدائیہ، متن، اختتام، جسمانی حرکات، لہجہ، تلفظ، الفاظ کی ادائیگی کا فن، اسٹیج کا خوف اور سامعین پر سحر طاری کے اصولوں کی بھی وضاحت کی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ تقریر کا آغاز بہت اہم ہے اور ابتدائی چند لمحات میں لوگ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اس مقرر کو سنا جائے یا نہیں۔ایک کالم کے بارے میں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی چند سطریں پڑھ کر قاری فیصلہ کرتا ہے کہ پورا کالم پڑھاجائے یا نہیں۔۔ افتتاحیہ کسی مقرر کا کمال ہوتا ہے جس میں سامعین کی سماعتوں کو گرفت میں لیتے ہوئے ان پر سحر طاری کرنا ہی اچھے مقرر کی خوبی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کرکٹ میں اگر اچھا بلے باز آتے ہی چوکا اور پھرچھکا لگا دے تو تماشائی کسی اور طرف توجہ نہیں دیتے اور اس کھلاڑی کا کھیل پر جوش ہوکر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح تقریر کا اختتام بھی ایسا ہو کہ سامعین پر ایسا تاثر چھوڑ کر جائیں کہ مقرر کے چلے جانے بھی اس کا اثر قائم رہے اور مجمع دیر تک تالیوں سے گونجتا رہے۔
رمضان رفیق نے تحریر و تقریر کی اس کتاب میں مختلف موضوعات پر تقاریر بھی شامل کی ہیں جو قارئین اور خطابت کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کے لئے بہت معاون ہوں گی۔ اسی طرح مباحثہ جات کے باب میں اہم عنوانات شامل کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کا ایک حصہ بزم اطفال پر مشتمل ہے جس میں بچوں کے لئے تقریری مقابلوں کے لئے تقاریر شامل ہیں۔ بر محل اشعار کا تقاریر اور مباحثہ جات میں استعمال ایک لازمی اور اہم جزو ہوتا ہے۔ رمضان رفیق نے ایک باب میں منتخب اشعار بھی دیئے ہیں جن سے مقررین اپنے خطاب کوموثر بنا سکتے ہیں۔کتاب کے پنجابی حصہ میں انہوں نے بہت سے پنجابی مباحثے بھی شامل کیئے ہیں جو ایک عمدہ کوشش ہے۔ انہی پنجابی مباحثوں میں ایک عقلاں آلے بھکھے مرن مورکھ کھان جلیب پڑھ کر مجھے اسی موضوع پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں 1986 میں انٹر ہال مباحثو ں میں اس موضوع پر ہونے ولا مباحثہ یاد آگیا جس میں مجھے سجناں دا موری مقرر کیا گیا ۔ مختصر یہ کہ رمضان رفیق کی کتاب تحریر سے تقریر تک ہر ایک درسگاہ کی لائبریری میں ہونی چاہیے اور ہر ایک طالب علم کا اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ طلبہ کے علاوہ ان لوگوں کو بھی یہ کتاب اپنے پاس رکھنی چاہیے جنہیں عملی زندگی میں کسی چھوٹے یا بڑے اجتماع میں تقریر کرنے یا کسی اجلاس یا نشست میں اظہار خیال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ ڈنمارک میں مقیم معروف ادیب، صحافی، شاعر اور براڈکاسٹر جناب نصر ملک نے رمضان رفیق کی شخصیت پربہت خوب تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
روح کے تار چھیڑ دیتا ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.