شکریہ مودی

جمعہ 14 دسمبر 2018

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

میری طرح قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو ان حالات کا حقیقی ادراک نہیں ہے جو قیام پاکستان کا موجب تھے۔ تقسیم ہند کے بعداب تیسری نسل بھی جوانی کی دہلیز پار کررہی ہے اور بعض اوقات ان کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا اور اگر ہندوستان ایک ہی ملک ہوتا تو بہت اچھا ہوتا ۔دوقومی نظریہ کے مخالف سیکولر سوچ کے حامل عناصر بھی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ ہماری نئی نسل کو ان حالات سے آگاہی نہیں جن کی وجہ سے پاکستان ناگزیر تھا۔

ایسے عناصر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے ان وجوہات کو نظر انداز کردیتے ہیں جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے پیامبر جناح کو قائد اعظم بننے پر مجبور کردیا تھا۔

(جاری ہے)

وہ لوگ نہرو رپورٹ کے جواب میں قائد اعظم کے چودہ نکات سے صرف نظر کرتے ہیں۔ وہ کانگریسی وزارتوں کے بعد یوم نجات سے بھی اغماض برتے ہیں اور مسلم لیگ کی جانب سے قرار داد لاہور پیش کرنے کے محرکات سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

ایسے نام نہاد مورخین یہ تو بتائیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے 1946میں کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز کو تسلیم کر لینے کے باوجود کیوں انڈین نیشنل کانگریس نے قبول نہ کیا حالانکہ یہ ہندوستان کو متحد رکھنے کی آخری کوشش تھی۔انہیں مشورہ ہے کہ کہ وہ تعصب کی عینک اتار کر تاریخ کا مطالعہ کریں یا کم از کم سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب ہی پڑھ لیں، حقیقت ان پر آشکار ہوجائے گی۔


ان تاریخی حقائق اور پس منظر کو سمجھنا ہماری نئی نسل کے لئے شائد مشکل ہوتا لیکن بھارتی قیادت نے ہمارا یہ کام آسان بنا دیا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں پر قیامت صغیری برپا کرنے کے مودی سرکار کے مسلسل اقدامات جو ذرائع ابلاغ سے پوری دنیا اور ہماری نوجوان نسل تک پہنچ رہے ہیں وہ مطالبہ پاکستان کو درست ثابت کررہے ہیں۔ اقلیتوں پر ہروقت خوف کے پہرے ہیں اور بی جے پی اور آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف زہر پلا پراپوگنڈہ کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔

انتہا پسند مسلمانوں پر ظلم کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور ایسی ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر آتی ہیں کہ دیکھی نہیں جاسکتیں۔ان عناصر کو مودی سرکار کی مکمل آشیر باد حاصل ہے ۔ ریاست جموں کشمیر میں بھارتی جبر میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان پر ہر وقت خوف اور ظلم کے پہرے ہیں۔انتہا پسند طبقہ نے بھارت کو ہائی جیک رکھا ہے جو اسلام اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرتا ہے۔

وہاں رہنے والے سب لوگ ایسے نہیں لیکن وہ بے بس ہیں۔ وہاں مسلمانوں کو ہر سطح پر اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑتی ہے۔بھارتی مسلمان ہمارے وجود کا حصہ ہیں اور ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کو لیاقت نہرو معائدہ کے تحت بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر باز پرس کا حق حاصل ہے۔
یورپ میں پروان چڑھنے والی پاکستانیوں کی تیسری نسل کو بھی بھارتی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر کبھی انہیں کسی وجہ سے بھارت جانا ہو تو انہیں ویزا تک نہیں دیا جاتا چاہے وہ یورپی شہریت ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔

دادا دادی یا نانا نانی کا تعلق بھی اگر پاکستان سے ہو تو انہیں پاکستانی پس منظر والی ویزا کیٹگری میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر سیکورٹی اور پولیس رپورٹ کا بہانا بنا کر ویزہ سے انکار کردیا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس پالیسی پر ان کے شکرگزار ہیں کیونکہ یورپ میں پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ واضح ہو جاتا ہے۔

ہمیں اپنی اس نسل کو بھارت کی اصلیت بتانے کی ضرورت نہیں یہ کام خودبھارت کررہا ہے جس پر اس کے ممنون ہیں۔ نقصان بھارت اپنا خود ہی کررہا ہے اور دوقومی نظریہ کی صداقت پر مہر ثبت کررہا ہے ۔مودی حکومت کی یہ پالیسی بھارت کے سنجیدہ حلقوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہے جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف جن اہل یورپ کے علم میں یہ صورت حال آتی ہے وہ اسے کم ظرفی اور اوچھا پن قرار دیتے ہیں۔


کرتار پور راہداری کھلنے سے بھارت بوکھلا گیا ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرے۔ وزیراعظم عمران خان کی اس موقع پر کی گئی تقریر کا مودی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ یورپ میں مقیم بہت سے سکھ دوستوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت بہت مجبور ہوگئی تھی کی اس راہداری کو کھولنے کی تجویز قبول کرے۔ دنیا اس کا خیرمقدم کررہی ہے لیکن بھارتی فوج کے سربراہ کی عجیب شرط سامنے آئی کہ پاکستان سے اس وقت تک دوستی نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان ایک سیکولر ریاست نہ بن جائے۔

ان سے عرض ہے کہ بابا پہلے اپنے گھر کی خبر تو لیں اور بھارت کو پہلے سیکولر دیش بنائیں۔کس سیکولر ملک میں گائے ذبح کرنا جرم ہے؟ سیکولر دیش میں سب شہری برابر ہوتے ہیں۔ یہ کیسا سیکولر ازم ہے کہ اقلیتوں کا جینا حرام ہے۔ پہلے BJP اور RSS پر پابندی لگائیں پھر سیکولر ازم کا لیکچر دیں۔ پاکستان کو مشورہ دینے سے قبل بہتر ہے کہ یہ مشورہ پہلے خود اپنی حکومت دیں۔

یہ کیسا سیکولر دیش ہے کہ تاریخی شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں. اگر مسلمانوں کے رکھے ہوئے سارے نام بدلنے ہیں تو پھر اپنا نام ہندو اور ہندوستان بھی بدل دو کیونکہ یہ بھی تو مسلمانوں نے رکھے تھے۔ تاج محل، قطب مینار، لال قلعہ اور وہ سب عمارتیں گرادیں جو مسلمانوں نے تعمیر کی تھیں۔
بھارت میں مودی سرکار نے جو حالات پیدا کردئے ہیں ان کی وجہ سے اب پاکستانی نوجوان نسل قیام پاکستان کی وجوہات کو اچھی طرح سمجھ گئی ہے۔

گذستہ دنوں بھارت کے ایک دانشور سے وہاں کے حالات کے بارے میں بات ہورہی تھی اور ہم نے عرض کی کہ یہ حالات ایک اور پاکستان کے قیام کا باعث ہوں گے تو بھارتی دانشور نے کہا کہ ایک نہیں بھارت میں کئی پاکستان بنیں گے۔ ان کی یہ بات تاریخی تناظر میں بالکل درست ہے کیونکہ ہندوستان کا جغرافیہ تبدیل ہوتا رہا ہے اور آئندہ آنے والے وقت میں تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہرائے گی۔

بھارتی دانشور کی بات سن کر میرا ذہن چوہدری رحمت علی کی اسکیم کی طرف چلا گیا۔ نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی نے برصغیر کی تقسیم کا جو منصوبہ پاکیشیا لٹریچر سیریز کے تحت دیا تھا اس کے مطابق برصغیر میں 12 مسلم ریاستیں قائم ہونا تھیں۔ ان ریاستوں میں سے پاکستان تو وجود میں آچکی ہے اور باقی ریاستیں بانگستان (بنگال اور آسام)، عثمانستان، صدیقستان، فاروقستان، حیدرستان، معینستان، ماپلستان، صفیستان، نصارستان، دینیا اور پاکیشیا شامل ہیں۔

ریاست جموں کشمیر بھی تاج آزادی پہنے گی۔ برصغیر کبھی ایک مملکت نہیں رہا۔ ہماری نوجوان نسل جو تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان کے بارے میں اگر کچھ غلط فہمیوں کا شکار تھی لیکن نریندر مودی کی سرکار نے ہمارا وہ کام آسان کردیا جس پر ان کے شکرگزار ہیں اور کہتے ہیں کہ شکریہ مودی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :