
پارلیمان کی آوازیں اور شتر مرغ پر سوار حکمران
ہفتہ 15 اگست 2020

ارشد سلہری
(جاری ہے)
تمہد باندھنے کا مقصد پارلمان کا کردار واضع کرناہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹیرین کیا وہ فرض ادا کررہے ہیں جوعوام کی جانب سے سونپا گیا ہے ۔عوامی مسائل پر پارلیمان میں بحث ہوتی ہے؟قانون سازی کی جارہی ہے؟ریاست کا بیانیہ تشکیل کر عوام میں بیانیہ کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ قوم کی سیاسی و سماجی اور اخلاقی تعمیر کی جارہی ہے؟عدم تشدد ،عدم برداشت ،شدت پسندی ،انتہا پسندی اور منافرت کے خلاف پالیمان اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہے؟افسوس ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے برعکس پارلمان سے آوازیں سنائی دیتی ہیں۔پارلیمان بے وقعت ہے۔سیاستدانوں نے ہوس اقتدار میں پارلیمان کو بے توقیر کردیا ہے۔سیاسی جماعتیں بے بس ہیں۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں میں انتخابی سیاست کا رجحان جڑپکڑ گیا ہے۔سیاسی تعلیم اور نظریات کی آبیاری کا کام بالکل بھی نہیں ہے۔مانگے تانگے کے انتخابی امیدوار پر انحصار رہ گیا ہے۔پارٹی ٹکٹ کارکنان اور پارٹی کے تربیت یافتہ عہدے داروں کی بجائے طاقت و دولت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی اخراجات کرنے والے اور پارٹی کو فنڈ دینے والے کو دیئے جاتے ہیں ۔اس کا پارٹی کے نظریات ،منشور متفق اور ممبر ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے۔سیاست کا نقشہ بدل گیا ہے ۔تمام سیاسی جماعتوں کی روش ایک ہے ۔جس کا اظہار ہم پارلیمان میں دیکھتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ اقتدار کیلئے سیاست دانوں کی آخری امیدمقتدرہ ہی رہ گئی ہے۔
حکمران جماعت تحریک انصاف نے سیاسی نظریات ،سیاسی تعلیم اور سیاسی اقدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے کام ہی تمام کردیا ہے۔حکمران جماعت نے اقتدار کے لئے نظریات کی سیاست دفن کردی ہے۔پارلیمنٹ میں لائے گئے ممبران کے فرائض میں اپوزیشن کے خلاف بولنا اور اپنی جماعت کا دفاع کرنا ہے اور نان ایشوز پرشورمچانا ہے۔تحریک انصاف کے بارے میں اس حقیقت سے سب واقف ہے کہ سیاسی فکر سے نابلد ہیں ۔تحریک انصاف کی ملک کے نوجوانوں سے فکر چھین کر ان میں عدم برداشت اور تکرار کی خو ڈال دی ہے جس کی بنیاد پر اک خاص اصطلاح یوتھیا یا قوم یوتھ سامنے آئی ہے۔
تحریک انصاف نے ہوس اقتدار کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کیے آج انہی ہتھکنڈوں کا شکار نظر آتی ہے۔صبر سے کام لیتے اور بطور سیاسی جماعت اپنے پارلیمنٹرین تیار کرکے میدان میں اتارے ہوتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور عمران خان عوام کے حقیقی لیڈر بن کر ابھرتے مگر آج تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے خود پر افسوس کر رہے ہیں ۔
حکمران جماعت شتر مرغ پر سوار ہے ۔ شترمرغ انسان کو اپنی پشت پر بٹھاکر بڑی تیزی سے دوڑ سکتا ہے لیکن اجلدی تھک جاتا ہے ۔ شتر مرغ سیدھا بھاگنے کے بجائے لہرا کر دوڑتا ہے۔ ہر لمحہ دائیں بائیں مڑتا ہے لہذا اس پر سوار کو بہت چوکس اور ہوشیار ہوکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ورنہ کسی بھی لمحے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ارشد سلہری کے کالمز
-
عبادات سے سماجی ذمہ داری زیادہ ضروری ہے
جمعہ 2 جولائی 2021
-
اسلامی نظام کیا ہے اور نفاد کیسے ہوگا
بدھ 30 جون 2021
-
آزاد کشمیر الیکشن ،پاکستان میں مقیم منگلا ڈیم کے ہزراروں متاثرین کے ووٹ کینسل کیوں؟
ہفتہ 19 جون 2021
-
عمران خان اور قیادت کا بحران
بدھ 9 جون 2021
-
آئی ایس آئی کی پبلک ڈومین بند کی جائے یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے
منگل 8 جون 2021
-
درست خیالی کا فقدان کیوں؟
ہفتہ 5 جون 2021
-
الو کے پٹھے
جمعہ 4 جون 2021
-
اسد طور پر تشدد کے خلاف احتجاج کا جائزہ
پیر 31 مئی 2021
ارشد سلہری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.