پہلا جمہوری محاز اور درست خیالی کی تحریک

جمعہ 18 دسمبر 2020

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

جمہوریت یونانی زبان کے دو لفظوں ڈیموس اور کریسی کا مجموعہ ہے۔ڈیموکریسی ۔ڈیمو کا مطلب عوام اور کریسی کا مطلب بالادستی یعنی حکومت یا اقتدارہے۔ اشرافیہ سے نچلے طبقات کی حکومت کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔اگر ریاست پر اشرافیہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر بھی اقتدار میں آجائے ۔تب بھی اشرافیہ کی حکومت کو جمہوری حکومت نہیں کہا جا سکتا ہے۔

جمہوریت اور جمہوری حکومت صرف محکوم اور غریب عوام کا اقتدار میں آنا ہے۔جمہوریت اپنی اصل میں لبرل اور سیکولر ہوتی ہے۔
لبرل ازم سے مراد لبرٹی اور ایکوالٹی  ہے۔قانون کے اندر رہتے ہوئے ہر شخص کو آزادی ہوکہ وہ اپنے تمام حقوق کا استعمال آزادی کے ساتھ کرسکے ۔ریاست میں اسے مساوات اور برابری کی بنیاد پر تمام تر مواقع حاصل ہوں لبرل ازم ہے۔

(جاری ہے)


سیکولرازم سے مراد مذہبی آزادی ہےکہ ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکے ۔ریاست کی جانب سے اس پر کوئی پابندی اور روک ٹوک نہ ہو۔سیکولرازم مذہب کے خاتمہ یا لادینیت کی بات نہیں کرتا ہے۔ سیکولرازم صرف یہ کہتا ہے کہ تمام مذاہب کے تقدس کا خیال رکھا جائے اور ریاست سے مذہب کو الگ رکھا جائے۔ہر مذہب کی عزت کی جائے۔
باالفاظ دیگر جمہوریت ،مساوات ،آزادی اور انسانی حقوق کا مجموعہ ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں 123 ممالک میں جمہوری حکومتیں ہیںاور جمہوریت کو پریکٹس کیا جارہا ہےجبکہ  دنیا کےباقی ممالک میں جمہوریت کی آبیاری اور نفاد کےلئے جدوجہد جاری ہے۔
وطن عزیز میں جمہوریت کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری ہے۔جمہوریت آتی ہے تو ہضم نہیں ہوتی ہے ۔کوئی طالع آزما اٹھتا ہے ۔جمہوریت کا بستر گول کردیا جاتا ہے۔جمہوریت کے بسترے کو کھولنے اور بچھانے کےلئے پھر کئی سال کی محنت درکار ہوتی ہے۔

پچھلے 73 سال سے ہم یہی پریکٹس کررہے ہیں ۔جمہوریت کے ساتھ یہ کھیل جاری و ساری ہے۔
پاکستان میں ایک دوسرا کھیل بڑے شوق سے کھیلا جارہا ہے کہ ریاست ،سیاست اور جمہوریت میں ابہام ،شک وشبہات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی یہی صورتحال ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے اس جلتی پر مزید تیل ڈالا ہے۔ سیاسی وابستگی کا اصول ،میرٹ،نظریات ،تنظیم ،نظم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف الخیال اور رجحانات کے لوگوں کو محض لالی پاپ دیکر سیاسی جماعت بنالی ہے۔


 پاکستان کے عوام تبدیلی کے نعرے کوجمہوریت،انسانی حقوق اور مساوات کے مصداق لیکر دھوکہ کھا گئے ہیں۔
سیاسی جماعت ہم خیال لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔جس کا اساسی نظریہ ہوتا ہے۔سیاسی جماعت کا خاص بیانیہ ہوتا ہے۔جو اک نظم اجتماعی کے تحت طے کردہ مقاصد کےلئے جدوجہد کرتی ہے۔سیاسی جماعت مختلف الخیال لوگوں کا ہجوم نہیں ہوتا ہے۔
  حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے اور عوام کو مایوسی کا سامنا ہے۔

یہی نہیں ہے کہ عوام گذشتہ ادوار کی طرح محض حکومت سے مایوس ہوئے ہیں بلکہ تمام پارلیمانی قیادت اور سیاسی جماعتوں سے بھی مایوسی کا برملا اظہار کررہے ہیں۔ یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے۔
ابہام ،شک شبہات اور مایوسی کا یہ عالم سیاسی کارکنوں کے لئے زیادہ تکلیف دہ ہے۔تکلیف ،ابہام اور شک وشبہات سے نکلنے کےلئے سیاسی کارکن نئے سیاسی گروپ ،سیاسی جماعتیں اور سیاسی تنظیمیں بنا رہے ہیں ۔

لاہور میں مقیم راجہ جاوید مجتبیٰ نے بھی پہلا عوامی جمہوری محاذ(فرسٹ ڈیموکریٹک فرنٹ )تشکیل دیکر آئین کے تقدس اور قانون کی بالادستی کےلئے جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔راجہ جاوید مجتبیٰ تحریک انصاف کے کلیدی رہنماوں میں شمار کیے جاتے تھے۔راجہ مجتبیٰ نے درست خیالی کا علم بھی اٹھایا ہے۔
 سیاسی رجحانات اور درست خیالی کی تحریکوں کا جنم لینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حالات انگڑائی لے رہے ہیں ۔عوامی جمہوری محاذ کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔پاکستان کے سماج میں جمہوریت،مساوات ،آزادی اور انسانی حقوق کے فروغ کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :