
قرض چارپھولوں کا
بدھ 30 جون 2021

اسد طاہر جپہ
مغربی معاشرہ خاندانی نظام کی دولت سے کب کا محروم ہو چکا اس لئے وہاں والدین اور اولاد کا اک واجبی سے تعلق اور رسمی سا اہتمام موجود ہے۔بلوغت کے ساتھ ہی بچے والدین سے مکمل آزاد ہو جاتے ہیں اور بڑھاپے میں وہ اپنے والدین کو اولڈہومز کے سپرد کردیتے ہیں جہاں وہ اپنی باقی ماندہ زندگی گزاردیتے ہیں۔عام طورپر بچے اپنے والدین کو سال میں اک آدھ بار ملنے جاتے ہیں،اُن کے لئے چھوٹے موٹے تحائف بھی لے جاتے ہیں اورکچھ وقت ان کے ساتھ گزار کر واپس آجاتے ہیں۔بدقسمتی سے اکثروالدین اپنے جان سے پیاروں کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں مگر اُن کی اولاد وہاں کبھی نہیں آتی ،شایداسی لئے سال میں وہ ایک مرتبہ مدرزڈے اور فادرزڈے مناتے ہیں۔اس کے برعکس ہمارے معاشرہ میں خاندانی نظام آج بھی ہماری طاقت ہے جہاں کم ازکم تین نسلیں اکھٹی رہتی ہیں لہذا ہم اپنے غم اور خوشیاں بانٹ لیتے ہیں۔
ہر سال کی طرح گذشتہ دنوں پھر فادرز ڈے آیا تو ایک روز قبل ہی میرے تینوں بچوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کھُسر پھُسر شروع کر دی اور اُن کی سرگوشیاں بتدریج بڑھنے لگیں۔ وہ اپنے انداز میں چھوٹے چھوٹے کارڈ ڈیزائن کرتے ہیں اور اُن پر مجھ سے محبت کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے رقم کرتے ہیں، میری تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اپنے دستخط کرکے رات بارہ بجے مجھے پیش کرتے ہیں۔ بات صرف یہاں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ رقم اکھٹی کرتے ہیں اور میرے لئے تحائف کے علاوہ ایک عدد کیک بھی لاتے ہیں۔ کیک کاٹا جاتا ہے تو میں صرف کاٹتا ہوں، کھاتے وہی ہیں اور شوق سے کھاتے ہیں۔ تینوں بچوں میں بڑی بیٹی اپنے کارڈ پر بڑی سنجیدہ عبارت لکھتی ہے اور پینٹنگ میں اپنیمہارت کا بھی بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ سرگوشیاں اس لیے کرتے ہیں کہ مجھے کانوں کان خبر نہ ہو اور وہ سارا اہتمام کر کے مجھے سرپرائز دیں۔ میں بھی انھیں یہی محسوس کرواتا ہوں کہ جیسے میں واقعی اُن کے جملہ انتظامات سے بالکل بے خبر ہوں تاکہ وہ اپنے سرپرائز کو مکمل طور پر انجوائے کر سکیں۔مگر اس بار فادرز ڈے پر میں نے انھیں سرپرائز دیا۔ رات کیک کاٹنے اور تحائف کی وصولی کے بعد میں نے انھیں بتایاکہ اگلی صبح ہم سب گاؤں روانہ ہوں گے اور وہاں ان کے دادا کی قبر پر حاضری دیں گے، پھول چڑھائیں گے، دُعا کریں گے اور کچھ وقت قبرستان میں ابا جان کے ساتھ گذاریں گے۔ سب حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی مگر میرے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اپنے کمروں میں جاکر سو گئے۔ میں اپنے کمرے میں سونے کے لئے آیاتوپینتیس سالہ یتیمی کا گھاؤ جیسے اک بار پھر دل میں باپ کی محرومی کے الاؤ بھڑکانے لگا، ستمبر1986کی وہ خوفناک رات اور اُس کے دردناک لمحات جس میں ہمارا باپ ہمیشہ کے لئے دارِفانی سے چلا گیا اور محضچندلمحات میں ہماری جنت نظیر دنیا اجڑ کر رہ گئی اور باغ تمنا کا پُر بہار موسم یکسر خزاں میں بدل گیا۔ اپنے عہد کے معتبر ناموں میں سے ایک بڑا نام اور اُردو فارسی پڑھانے میں پنجاب کے پروفیسرز میں یکتا مقام رکھنے والے والدِ گرامی صرف اکاون برس کی عمر میں اپنے سارے خواب ہمارے حوالے کر کے ربِ کریم کے حکم کے سامنے جبینِ نیاز جھکائے عالمِ ارواح جاپہنچے۔ ہماری لاڈ پیار سے بھری زندگی لمحات میں غم اور بے بسی کی بدصورت تصویر بن گئی۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے، وضو کیا، نوافل ادا کئے اور اپنے والد کی پسندیدہ سورة مزمّل کی تلاوت کی اور اُن کی مغفرت کی دُعا کر کے سو گیا۔
اگلی صبح ہم سب تیار ہو کر تقریباً نو بجے گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے۔ گھر سے نکلتے ہی ڈھیر سارے پھول خرید ے اور براستہ موٹروے پینسرہ انٹرچینج جا اُترے۔ اس کے بعد جھنگ فیصل آباد روڈ پر لگ بھگ پندرہ کلومیٹرکی مسافت کے بعد بھوانہ کی طرف مڑگئے اور وہاں سے ٹھیک بیس کلومیٹر کے بعد ہمارے آبائی گاؤں سے پانچ سو گز پہلے قبرستان آتا ہے جو ہم سب کی آخری آرام گاہ ہے اور وہیں ہمارے والدِ گرامی کی قبر بھی ہے۔ راستے میں تینوں بچوں نے کافی سوالات پوچھے اور اُن میں چند اہم سوالوں کے جواب بھی مانگے۔ بیٹی نے دریافت کیا ،” آپ کی کامیابی میں دادا جان کا کیا کردار ہے کیونکہ وہ بہت پہلے اللہ میاں کے پاس چلے گئے؟“میں نے اُسے وضاحت سے سمجھایا کہ کس طرح وہ ہمارے لئے ایک رول ماڈل تھے، کس طرح انہوں نے سینکڑوں شاگردوں کی مالی معاونت کے ذریعے اعلیٰ تعلیم دلوائی ، کس طرح وہ ہمارے لئے بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے اور ہمارے ساتھ اُن کا اظہار بھی فخر سے کیا کرتے تھے ۔بڑے خواب ہی دراصل بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور ہمیں جُہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا پیکر بناتے ہیں۔میں نے اسے ابّا جان کے تین بڑے خواب بتائے جنہیں ہمسب بھائیوں نے پورے خلوص اور سچائی سے پورا کیا اور آج وہ سارے خواب ہم جی رہے ہیں تو ہمیں اپنے والد محترم کی بلند پایہ سوچ پر فخر ہے۔ اُن کا پہلا خواب ہمارا گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ تھا تو ہم سات میں سے چھ بھائی راوین بنے اور لگ بھگ بیس سال مسلسل ہم گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم درسگاہ کے درودیوار سے جڑے رہے۔ اُن کا دوسرا بڑا خواب ہمارا پاکستان کی اعلیٰ ترین سِول سروس میں شمولیت تھا جِسے ہم نے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے اور اپنی والدہ کی بے پناہ دعاؤں کے سبب پورا کیا۔والدِ محترم کا سب سے بڑا خواب اپنے پسماندہ علاقہ بھوانہ کے ہونہار بچوں کے متعلق تھا اور وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ وہ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر وہاں ایک شاندار تعلیمی ادارہ بنائیں گے اور اِس مٹی کا قرض چکائیں گے، بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم و تربیت دے کر انھیں ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے مواقع فراہم کریں گے۔ اُن کا خواب تھا کہ بھوانہ کے ہر گھر میں ڈاکٹر، انجینئر، آرمی آفیسر، سی ایس ایس اور پی ایم ایس آفیسرز پیدا ہوں۔ کیونکہ اُن کے نزدیک مقامی بچوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں، صرف مواقع نہیں تھے۔ اُن کے اِس خواب کو بھی ہم نے مکمل کیا اور سات سال قبل والدین کے نام سے منسوب ادارہ قائم کیا گیا۔ اِس طرح ہماری کامیابی میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اپنی والدہ کی دعاؤں کے بعد سب سے کلیدی کردار ہمارے مرحوم والد کے اُن بڑے خوابوں کا ہے جن کو عملی حقیقت بناتے بناتے ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ تینوں بچے میری باتیں غور سے سُنتے رہے اوریوں ہماراسفر بھی مکمل ہو گیا۔ اب ہم اپنے گاؤں کے قبرستان کے سامنے آن پہنچے، گاڑی سے اُترے اور پھول کی پتیاں لیے ابّا جان کی آخری آرام گاہ پر حاضر ہوگئے۔
ہمیں دیکھتے ہی قبرستان کے مجاور بالٹیوں میں پانی بھر لائے۔ میں نے قبر کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر بوسہ لیا، پانی سے قبر کی ٹائلز پر جمی مٹی کو صاف کیا اور مکمل صفائی کے بعد اپنے تینوں بچوں کے ساتھ گلاب کی پتیاں ڈال کر ساری قبر کو پھولوں سے لاد دیا۔ میں نے قرآنِ پاک سے تلاوت کی تو بچوں نے اپنے اپنے انداز میں دعائیں مانگیں۔ میں دعا مانگنے لگا تو میری آنکھیں بھیگ گئی اور میں نے دیکھا تو تینوں بچے اپنے اپنے آنسو روکنے میں مصروف تھے۔ چھوٹے بیٹے نے اپنا سب سے اہم سوال محفوظ رکھا ہوا تھا،کہنے لگا” مجھے پتہ ہے آپ پہلے بھی پھول لے کر دادا جان کے پاس آتے ہیں لیکن آج ہمیں کیوں ساتھ لے آئے؟“ میں نے ابّا جان کے پہلومیں موجود خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جب میں مر جاؤں گا تو اس جگہ میری قبر ہوگی ، پھر آپ تینوں بہن بھائی اپنے دادا کی قبر کے ساتھ میری قبر بھی پھول ڈالنے آیا کرنا کیونکہ اولاد پر والدین کا آخری قرض دعاءِ مغفرت کے علاوہ چار پھول ہی تو ہوتے ہیں۔ وہ پریشان ہوا اور فوراً میرے ساتھ لپٹ کر کہنے لگا کہ ہم نے آپ کو مرنے ہی نہیں دینا۔ میں نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا”تم ابھی بہت چھوٹے ہو، زندگی اورموت کی آنکھ مچولی بھلا تمھاری سمجھ میں کہاں آئے گی ،آؤ تمہاری دادی اماں گاؤں میں کھانے پر ہمارا انتظار کر رہی ہیں“!۔شہرِخموشاں کے مکینوں کو الوداعی سلام کیا تو ساغر صدیقی کا یہ شعر یاد آگیا:
(جاری ہے)
جوان اولاد ایک طرف اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتیہے تو دوسری طرف اپنے بچوں کی کفالت پر اپنا تن من دھن قربان کردیتی ہے۔
والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت سے لیکر روزگار کی فراہمی اور پھر شادی تک کی جملہ ذمہّ داریان نبھاتے نبھاتے اپنی زندگی ہار جاتے ہیں مگر اپنے بچوں کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے وہ کوئی کسر باقی نہیں اٹھارکھتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر دن،ہر لمحہ،ہر گھڑی ماں باپ کی خدمت،اطاعت اور تابعداری میں گزرتی ہے تو ہمارے لئے ہراک دن مدرزڈے بھی ہوتا ہے اور فادرز ڈے بھی۔اس کے باوجود باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی مئی میں مدرزڈے تو جون میں فادرزڈے منایا جاتا ہے ۔اب سوشل میڈیا نے یہ کام مزید منظم کردیا ہے جس کی تشہیر اور نشرواشاعت کا اہتمام بڑی دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔ہر سال کی طرح گذشتہ دنوں پھر فادرز ڈے آیا تو ایک روز قبل ہی میرے تینوں بچوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کھُسر پھُسر شروع کر دی اور اُن کی سرگوشیاں بتدریج بڑھنے لگیں۔ وہ اپنے انداز میں چھوٹے چھوٹے کارڈ ڈیزائن کرتے ہیں اور اُن پر مجھ سے محبت کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے رقم کرتے ہیں، میری تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اپنے دستخط کرکے رات بارہ بجے مجھے پیش کرتے ہیں۔ بات صرف یہاں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ رقم اکھٹی کرتے ہیں اور میرے لئے تحائف کے علاوہ ایک عدد کیک بھی لاتے ہیں۔ کیک کاٹا جاتا ہے تو میں صرف کاٹتا ہوں، کھاتے وہی ہیں اور شوق سے کھاتے ہیں۔ تینوں بچوں میں بڑی بیٹی اپنے کارڈ پر بڑی سنجیدہ عبارت لکھتی ہے اور پینٹنگ میں اپنیمہارت کا بھی بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ سرگوشیاں اس لیے کرتے ہیں کہ مجھے کانوں کان خبر نہ ہو اور وہ سارا اہتمام کر کے مجھے سرپرائز دیں۔ میں بھی انھیں یہی محسوس کرواتا ہوں کہ جیسے میں واقعی اُن کے جملہ انتظامات سے بالکل بے خبر ہوں تاکہ وہ اپنے سرپرائز کو مکمل طور پر انجوائے کر سکیں۔مگر اس بار فادرز ڈے پر میں نے انھیں سرپرائز دیا۔ رات کیک کاٹنے اور تحائف کی وصولی کے بعد میں نے انھیں بتایاکہ اگلی صبح ہم سب گاؤں روانہ ہوں گے اور وہاں ان کے دادا کی قبر پر حاضری دیں گے، پھول چڑھائیں گے، دُعا کریں گے اور کچھ وقت قبرستان میں ابا جان کے ساتھ گذاریں گے۔ سب حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی مگر میرے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اپنے کمروں میں جاکر سو گئے۔ میں اپنے کمرے میں سونے کے لئے آیاتوپینتیس سالہ یتیمی کا گھاؤ جیسے اک بار پھر دل میں باپ کی محرومی کے الاؤ بھڑکانے لگا، ستمبر1986کی وہ خوفناک رات اور اُس کے دردناک لمحات جس میں ہمارا باپ ہمیشہ کے لئے دارِفانی سے چلا گیا اور محضچندلمحات میں ہماری جنت نظیر دنیا اجڑ کر رہ گئی اور باغ تمنا کا پُر بہار موسم یکسر خزاں میں بدل گیا۔ اپنے عہد کے معتبر ناموں میں سے ایک بڑا نام اور اُردو فارسی پڑھانے میں پنجاب کے پروفیسرز میں یکتا مقام رکھنے والے والدِ گرامی صرف اکاون برس کی عمر میں اپنے سارے خواب ہمارے حوالے کر کے ربِ کریم کے حکم کے سامنے جبینِ نیاز جھکائے عالمِ ارواح جاپہنچے۔ ہماری لاڈ پیار سے بھری زندگی لمحات میں غم اور بے بسی کی بدصورت تصویر بن گئی۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے، وضو کیا، نوافل ادا کئے اور اپنے والد کی پسندیدہ سورة مزمّل کی تلاوت کی اور اُن کی مغفرت کی دُعا کر کے سو گیا۔
اگلی صبح ہم سب تیار ہو کر تقریباً نو بجے گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے۔ گھر سے نکلتے ہی ڈھیر سارے پھول خرید ے اور براستہ موٹروے پینسرہ انٹرچینج جا اُترے۔ اس کے بعد جھنگ فیصل آباد روڈ پر لگ بھگ پندرہ کلومیٹرکی مسافت کے بعد بھوانہ کی طرف مڑگئے اور وہاں سے ٹھیک بیس کلومیٹر کے بعد ہمارے آبائی گاؤں سے پانچ سو گز پہلے قبرستان آتا ہے جو ہم سب کی آخری آرام گاہ ہے اور وہیں ہمارے والدِ گرامی کی قبر بھی ہے۔ راستے میں تینوں بچوں نے کافی سوالات پوچھے اور اُن میں چند اہم سوالوں کے جواب بھی مانگے۔ بیٹی نے دریافت کیا ،” آپ کی کامیابی میں دادا جان کا کیا کردار ہے کیونکہ وہ بہت پہلے اللہ میاں کے پاس چلے گئے؟“میں نے اُسے وضاحت سے سمجھایا کہ کس طرح وہ ہمارے لئے ایک رول ماڈل تھے، کس طرح انہوں نے سینکڑوں شاگردوں کی مالی معاونت کے ذریعے اعلیٰ تعلیم دلوائی ، کس طرح وہ ہمارے لئے بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے اور ہمارے ساتھ اُن کا اظہار بھی فخر سے کیا کرتے تھے ۔بڑے خواب ہی دراصل بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور ہمیں جُہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا پیکر بناتے ہیں۔میں نے اسے ابّا جان کے تین بڑے خواب بتائے جنہیں ہمسب بھائیوں نے پورے خلوص اور سچائی سے پورا کیا اور آج وہ سارے خواب ہم جی رہے ہیں تو ہمیں اپنے والد محترم کی بلند پایہ سوچ پر فخر ہے۔ اُن کا پہلا خواب ہمارا گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ تھا تو ہم سات میں سے چھ بھائی راوین بنے اور لگ بھگ بیس سال مسلسل ہم گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم درسگاہ کے درودیوار سے جڑے رہے۔ اُن کا دوسرا بڑا خواب ہمارا پاکستان کی اعلیٰ ترین سِول سروس میں شمولیت تھا جِسے ہم نے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے اور اپنی والدہ کی بے پناہ دعاؤں کے سبب پورا کیا۔والدِ محترم کا سب سے بڑا خواب اپنے پسماندہ علاقہ بھوانہ کے ہونہار بچوں کے متعلق تھا اور وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ وہ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر وہاں ایک شاندار تعلیمی ادارہ بنائیں گے اور اِس مٹی کا قرض چکائیں گے، بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم و تربیت دے کر انھیں ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے مواقع فراہم کریں گے۔ اُن کا خواب تھا کہ بھوانہ کے ہر گھر میں ڈاکٹر، انجینئر، آرمی آفیسر، سی ایس ایس اور پی ایم ایس آفیسرز پیدا ہوں۔ کیونکہ اُن کے نزدیک مقامی بچوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں، صرف مواقع نہیں تھے۔ اُن کے اِس خواب کو بھی ہم نے مکمل کیا اور سات سال قبل والدین کے نام سے منسوب ادارہ قائم کیا گیا۔ اِس طرح ہماری کامیابی میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اپنی والدہ کی دعاؤں کے بعد سب سے کلیدی کردار ہمارے مرحوم والد کے اُن بڑے خوابوں کا ہے جن کو عملی حقیقت بناتے بناتے ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ تینوں بچے میری باتیں غور سے سُنتے رہے اوریوں ہماراسفر بھی مکمل ہو گیا۔ اب ہم اپنے گاؤں کے قبرستان کے سامنے آن پہنچے، گاڑی سے اُترے اور پھول کی پتیاں لیے ابّا جان کی آخری آرام گاہ پر حاضر ہوگئے۔
ہمیں دیکھتے ہی قبرستان کے مجاور بالٹیوں میں پانی بھر لائے۔ میں نے قبر کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر بوسہ لیا، پانی سے قبر کی ٹائلز پر جمی مٹی کو صاف کیا اور مکمل صفائی کے بعد اپنے تینوں بچوں کے ساتھ گلاب کی پتیاں ڈال کر ساری قبر کو پھولوں سے لاد دیا۔ میں نے قرآنِ پاک سے تلاوت کی تو بچوں نے اپنے اپنے انداز میں دعائیں مانگیں۔ میں دعا مانگنے لگا تو میری آنکھیں بھیگ گئی اور میں نے دیکھا تو تینوں بچے اپنے اپنے آنسو روکنے میں مصروف تھے۔ چھوٹے بیٹے نے اپنا سب سے اہم سوال محفوظ رکھا ہوا تھا،کہنے لگا” مجھے پتہ ہے آپ پہلے بھی پھول لے کر دادا جان کے پاس آتے ہیں لیکن آج ہمیں کیوں ساتھ لے آئے؟“ میں نے ابّا جان کے پہلومیں موجود خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جب میں مر جاؤں گا تو اس جگہ میری قبر ہوگی ، پھر آپ تینوں بہن بھائی اپنے دادا کی قبر کے ساتھ میری قبر بھی پھول ڈالنے آیا کرنا کیونکہ اولاد پر والدین کا آخری قرض دعاءِ مغفرت کے علاوہ چار پھول ہی تو ہوتے ہیں۔ وہ پریشان ہوا اور فوراً میرے ساتھ لپٹ کر کہنے لگا کہ ہم نے آپ کو مرنے ہی نہیں دینا۔ میں نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا”تم ابھی بہت چھوٹے ہو، زندگی اورموت کی آنکھ مچولی بھلا تمھاری سمجھ میں کہاں آئے گی ،آؤ تمہاری دادی اماں گاؤں میں کھانے پر ہمارا انتظار کر رہی ہیں“!۔شہرِخموشاں کے مکینوں کو الوداعی سلام کیا تو ساغر صدیقی کا یہ شعر یاد آگیا:
یادرکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھُولوں کا
قرض ہے تم پہ چار پھُولوں کا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.