”دلِ ماروشن“ کی پہلی سالگرہ

ہفتہ 12 جون 2021

Asad Tahir Jappa

اسد طاہر جپہ

تخلیق اک حساس اورپیچیدہ عمل ہے جو تخلیق کار کے خونِ جگر سے نمو پاتا ہے اوریوں عالمِ ارواح سے اتر کر لوحِ قرطاس پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جذبوں کی سچائی اور مشاہدات کی باریک بینی فن پاروں کو ابدی زندگی عطا کرتی ہے۔ ہر فنکار کے لئے اس کا اک اک فن پارہ دراصل شاہکارکا روپ دھار لیتا ہے اور یوں اس کے لئے اس کے اپنے تخلیق کئے گئے فن پاروں میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔

شاعر کے لئے اس کا ہر شعر لازوال ادبی حیثیت رکھتا ہے تومصّور اپنی ہر اک تصویر سے عشق کرتا ہے۔ اسی طرح ادیب اور قلمکار کو اپنے اِک اِک حرف سے پیار ہو جاتا ہے اور اس کے لئے اس کی ہر اک تحریر اپنے یگانہ اسلوب اور منفرد اندازِ بیاں سے اچھوتی تخلیق کی تصویر بن جاتی ہے۔

(جاری ہے)

مشہور برطانوی افسانہ نگار چارلس ڈکنز سے کسی نے پوچھا کہ اسے اپنا کونسا ناول سب سے زیادہ پسند تھا تو اس نے برجستہ جواب دیا کہ اس کے لئے اس کے تمام ناولز ایک جیسے ہیں کیونکہ باپ کو اپنے تمام بیٹے یکساں پیارے ہوتے ہیں، اس کے ناولز اس کی اولاد کی طرح ہیں لہٰذا وہ ان سے ایک جیسی محبت کرتا ہے۔

” دلِ ماروشن“ میری اکلوتی اولاد ہے جسے گذشتہ برس بارہ جون کو روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر جگہ ملی اور اک نوزائیدہ بچے کی طرح پہلے اس نے پہلے بیٹھنااور اٹھنا سیکھاپھر آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور اب مسلسل آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ پورا سال حالتِ سفر میں رہا ، کبھی رکا نہیں اور نہ ہی پیچھے مڑ کے دیکھا بلکہ اپنی منزل کی کھوج آگے بڑھتا، سفر کاٹتا نظر آرہا ہے۔

آپ سب اس کے ہمرکاب بھی ہیں اور اس کی جہدِ مسلسل کے گواہ بھی۔ کل بارہ جون ہے اور اس کی پہلی سالگرہ جس میں آپ سب کو شامل کر رہا ہوں اور ملتمس ہوں کہ آپ اس کی درازیِ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی صحت و سلامتی کے لئے بھی دعا گو رہیں۔
گذشتہ برس کورونا کے غیر مرئی جرثومے نے اچانک چہار سو پوری دنیا کو خوف اور موت کے خونی حصار میں جکڑ لیا تو پوری انسانیت پر سکتہ کا عالم طاری ہو گیا۔

انسانی خوشیوں کے چاند کو گرہن لگ گیا، کاروبارِ حیات بُری طرح متاثر ہوا، معاشی زندگی تباہ و برباد ہونا شروع ہوئی، انسان انسان سے خوفزدہ ہونے لگا، سماجی فاصلہ لازم ٹھہرا اور معاشرتی ڈھانچہ اپنی ساکھ کھونے لگا۔ ہر طرف ذہنی دباؤ، نفسیاتی کشمکش، جذباباتی ہیجان، خاندانی انتشار اور رشتوں میں بگاڑ نمایاں ہونے لگا۔ آنکھوں میں روشنی کی بجائے اندھیرا چھانے لگا اور مایوسی کی تیز ہواؤں نے دل میں جلنے والے امید و آرزو کے چراغ بجھانے شروع کر دیئے۔

دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو گویا ساری کائنات اک جیل کا روپ اختیار کر گئی جس میں غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی عام ہوئی تو انسان کا جینا دوبھر ہوگیا ۔ خاندانی جھگڑے معمول بن گئے اور بات گھریلو تشدد پر آن پہنچی حتیٰ کہ طلاق کی شرح میں اچانک ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس بے یقینی اور اضطرب کی کیفیت میں آئے روز سوشل میڈیا پر طرح طرح کی افواہیں اور بدگمانیاں پھیلائی گئیں اور کبھی کبھی تو دنیا کے خاتمے کے آثار اور اسباب کے واضح امکانات پر ٹھوس دلیلیں بھی دی جانے لگیں۔

میں نے ان حالات کا بغور جائزہ لیا اور شبِ ظلمت کے شکوہ کی بجائے اپنے حصے کا دیپ جلانے کا فیصلہ کیا ۔اگرچہ مجھے مکمل ادراک تھا کہ میرا کردار بھڑکتی ہوئی آتش ِ نمرود کے دہکتے شعلوں پر اپنی چونچ میں پانی کی چند بوندیں بھر کر لانے والی چڑیا سے زیادہ بڑا نہ تھا پھر بھی میں نے کرونا کے خلاف جنگ آرائی کا فیصلہ کر لیا اور اپنے قلم کو کمان بنا کر الفاظ کے تیر دشمن کے ٹھکانوں پر برسانا شروع کئے اور چاروں طرف پھیلتی مایوسی اور بے یقینی میں امید، اثبات اور یقینِ محکم کے چراغ جلانے شروع کئے۔

اسی لئے کالم کا نام ”دلِ ماروشن“ رکھا گیا اور سال بھر اس نے اپنے نام کی لاج رکھنے کی حتی المقدور کاوش کی۔
تقریباًبارہ ماہ میں پچاس مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لا کر اپنی معلومات، مشاہدات، یاداشت، فکری استدلال اور علمی حوالوں کی روشنی میں ہفتہ وار کالم میں مثبت سوچ اور امید کے پیغام کو عام کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستانی کامیاب نوجوانوں کی سبق آموز کہانیاں بھی بیان کی گئیں اور دنیا کے بڑے انسانوں کی سوانح عمری سے سبق حاصل کرنے کی جستجو بھی کی گئی تاکہ اُن کے نقشِ پا کو نشانِ منزل بنا کر بڑے خوابوں کو عملی حقیقت میں ڈھالنے کے اسباب تلاش کئے جائیں۔

پاکستانی معاشرت اور معیشت کی کج رویوں پر بات کی گئی اور سیاسی موضوعات سے دانستہ کنارہ کشی اختیار کر کے قومی مسائل اور اُن کے حل کی بابت سیر حاصل بحث کی گئی اور کئی مرتبہ حتمی نتیجہ اخذ کرنے کی بجائے اسے قارئین پر چھوڑ دیا گیا۔ کشمیر کے معصوم نہتے مسلمانوں پر مودی سرکار کے ظلم و ستم کو بھی اجاگر کیا تو غزہ کے معصوم فاتحین کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا اور مسجدِ اقصیٰ کے مسئلہ پر عالمی برادری کی منافقت اور مسلمانوں کی عمومی بے حسی کا نوحہ بھی پڑھا گیا۔

اسی کالم میں روحانی تسکین اور ذہنی سکون کے حصول کے مختلف ذرائع کی بات بھی ہوئی تو دوسری طرف دنیاوی کامیابی کی تلاش میں بے قرار انسان کی مایوسی کی وجوہات بھی زیرِ بحث آئیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو یقینِ محکم، عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل پر مبنی شاعرِ مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال  کے فلسفہ خودی سے بھی روشناس کرایا گیا تو قائدِ اعظم کی سیاسی بصیرت اور قانونی مہارت کے سبب تحریک ِ پاکستان میں پے درپے کامیابیوں اور پاکستان کے خواب کو عملی حقیقت بنانے میں اُن کی عظمت ِ کردار اور لازوال محنت کو بھی دل کھول کر کالم کی زینت بنایا گیا۔

مگران تمام موضوعات کے تنوع اور جامعیت کے باوجود مرکزی نقطہ باغِ تمنا میں امید کے پھول کھلانے اور آمدِ بہار کی نوید سنانے پر مرکوز رکھا گیا اور یہی اس کالم کی منفرد پہچان کا ذریعہ بھی ہے۔
بہت سے قارئین، رفقاء کار، سوشل میڈیا کے احباب اور ذاتی دوستوں کے لئے ”دلِ ماروشن“ کا ظہور باعث تعجب بھی تھا اور باعثِ تشکر بھی۔ کئی سالوں سے میرے کئی اک ذاتی دوست مجھے کالم لکھنے کی ترغیب دیتے آ رہے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ میرے پاس علمی و فکری پختگی کے ساتھ ساتھ تاریخی حوالوں اور روز مرہ مشاہدات پر مبنی وسیع معلومات کا ذخیرہ موجود تھا جو کہ کالم نگاری کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

لہٰذا میرے کالم پر انہیں بے حد خوشی ہوئی۔ میرے بہت سے پرانے کلاس فیلوز کے لئے اس امر میں کوئی حیران کن پہلو نہیں تھا۔ البتہ سوشل میڈیا سے وابستہ چند احباب جو مجھے ذاتی طور پر اتنا قریب سے نہیں جانتے تھے انہیں ضرور تعجب بھی ہوا اور کچھ پریشانی بھی مگر ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ راتوں رات کالم نگار کوئی نہیں بن جاتا اس کے لئے عمر بھر کی فکری ریاضت ، تعلیمی کارکردگی، تخلیقی استعداد اور عطا ِربّی کے بنیادی عناصر مل کر راہیں ہموار کرتے ہیں اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔

اس کالم کا سفر بہت پہلے شروع ہوا اورزمانہ طالب ِعلمی سے علمی و ادبی سوسائیٹیز، ادبی مجلسوں کی ادارت، بیت بازی، ڈبیٹنگ کلب اور تقریری مقابلہ جات میں شرکت اور مختلف اردو اور انگریزی اخبارات میں وقتاً فوقتاً چھپنے والے مضامین اس کی روح میں شامل ہیں۔اب وقت کی پابندی اور ڈسپلن کو اپنی ذات پر لاگو کر کے ذاتی مشاہدات ، معلومات اور مطالعے کی بنیاد بنا کر حالاتِ حاضرہ سے سبق آموز نتائج اخذ کر کے قارئینِ کرام تک پوری دیانت داری اور طہارت کے ساتھ اپنے خیالات کو پہچانے کا ذریعہ ”دلِ ماروشن“ ہے جو یقینا قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر کر انہیں منور کرنے اور امید نو بہار کی نوید سنانے میں پیش پیش نظر آتا ہے۔

اس سلسلے میں جہاں میرے محسن و عربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل رہا ہے وہاں اُن کے شاگردِ خاص جیدی میاں کی موجودگی بھی ہم سب کے لئے باعثِ راحت و اطمینان رہی ہے۔
قارئینِ کرام! ”دلِ ماروشن“ کی پہلی سالگرہ کو شایانِ شان منانے میں جہاں آپ کی شرکت لازم ہے وہاں آپ کی نیک تمنائیں، پُر خلوص دعائیں اور سچے جذبوں سے لبریز تعریفی الفاظ میرے لئے باعثِ صد افتخار بھی ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہونے کا سبب بھی کیونکہ آپ کے بے پناہ خلوص، حوصلہ افزائی اور پذیرائی نے اس کالم کے سالوں کا سفر دنوں میں کٹنے کا عمل ممکن بنا دیا ہے۔

آپ کی تنقید بھی میرے لئے اصلاح کا پیغام لاتی ہے اورمیں اپنے الفاظ کے چناؤ اور خیالات کے رچاؤ کو مزید آسان بنانے اور اسے قاری کے لئے عام فہم بنانے میں زیادہ محنت اورتوجہ بروئے کار لاتا ہوں۔ یقینا میں آپ سب کی محبتوں اور دعاؤں کا مقروض ہوں اور یہ قرض میں شاید ہی کبھی ادا کر سکوں۔بے یقینی اور نااُمیدی کی آندھیوں میں جلتے ہوئے اس چراغ سے محبت کرنے کا شکریہ!بقولِ شاعر
جلارہا ہوں خود اپنے لہو سے دل کے چراغ
نہ جانے کتنی محبت ہے روشنی سے مجھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :