
آہ ! زینب کی آخری نظم
اتوار 14 جنوری 2018

اشفاق رحمانی
(جاری ہے)
پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی ”میڈیا ڈور“ کے مطابق زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعہ کا مقدمہ وزیراعلی شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور آئی جی پنجاب کے خلاف درج کرنے کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی گئی۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے سربراہ محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت آئینی طور پر شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ قصور میں پیش آنے والے واقعہ کے ذمہ دار وزیر اعلی اور وزیر قانون ہیں۔ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہ کرنے پر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف، وزیر قانون پنجاب راناثناء اللہ اور آئی جی پنجاب کے خلاف اندارج مقدمہ کا حکم دے۔اب جب زینب کے ساتھ ہونیوالی سفاکیت سامنے آئی تو علاقے کے لوگوں کا مشتعل ہونا فطری امر تھا مگر تشدد کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ زینب کے والد نے پرامن احتجاج کی بات کی۔ مگر پرامن اجتماعات کو کچھ لوگ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ شرپسند بھی ہجوم کا حصہ بن کر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ عموماً ایسے ہجوم کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے اگر انتظامیہ عقل و خرد سے کام لے تو نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے بھی جدید دور میں کئی طریقے ہیں۔ بڑے سے بڑا ہجوم بھی بپھر جائے تو لاٹھی چارج آخری آپشن ہوتا ہے۔ اپنے لوگوں پر فائرنگ سرے سے آپشن ہے ہی نہیں۔ انتہائی ناگزیرحالت میں بھی ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے اور امن قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے سیدھی فائرنگ کو پہلے آپشن کے طور پر اختیار کرتے دیکھے گئے ہیں جس سے حالات سلجھنے تو کیا ہوں‘ مزید الجھتے چلے جاتے اور قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ پھر رینجرز اور فوج کو طلب کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی بھی کاغذی کارروائی پوری کرنے کیلئے فٹافٹ تشکیل دیدی۔ بچی کے والد نے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔کچھ لوگ نصیحت کررہے ہیں کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں؟ کیا بچوں کو گھروں میں قید کردیا جائے۔ یہ پتھر کا دور نہیں ہے‘ جدید دور ہے۔ ایسا ظلم تو شاید پتھر کے دور میں بھی نہ ہوتا ہو۔ اگر بچے گھر سے باہر جائیں تو اس کا مطلب کہ جو بھی انہیں اٹھا کرلے جائے‘ انکے ساتھ جو بھی کرے اور قانون کی نظروں سے بچ جائے‘ یہ تو جنگل کا قانون ہوگیا۔ ہمیں بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ یہی نونہالان قوم معمارانِ مملکت ہیں۔ بچوں کے ساتھ جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں‘ ایسے جرائم دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں جس کی سزا موت ہے۔ جس کے تحت متاثرہ بچی یا بچے کے لواحقین بھی مجرم کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ بچوں کو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسے قوانین کی اشد ضرورت ہے جن کا عنوان ہی یہ ہو کہ جو بچوں کو ہاتھ لگائے پھانسی کی سزا پائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اشفاق رحمانی کے کالمز
-
کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم…؟!!
جمعرات 11 نومبر 2021
-
کرتار پور کیسے آباد ہوا؟
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
سوشل میڈیا رولز 2021، نفسیاتی سائنس اور درپیش چیلنجز!!
بدھ 20 اکتوبر 2021
-
آپ ان پانچ لوگوں کا مجموعہ ہیں!
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
عمر شریف کا ”ماں اسپتال“ …!
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
آپ کا خاندان محفوظ تو پاکستان محفوظ!!
منگل 28 ستمبر 2021
-
مسئلہ احسان مانی نہیں ہے!
اتوار 29 اگست 2021
-
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے وابستہ ”اقتصادیات“
ہفتہ 31 جولائی 2021
اشفاق رحمانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.