امریکہ، نیٹو کا افغانستان سے انخلاء اور قرآن

منگل 18 مئی 2021

Atif Gilani

عاطف گیلانی

 وہی ہے جس نے نکالا اہل کتاب کے کافروں کو ان کے ٹھکانوں سے (ان کے) پہلے ہی اجتماعِ لشکر پر،تمہیں گمان بھی نہ تھا کہ وہ  اہل کتاب نکلیں‌ گے اور وہ خیال کرتے تھے کہ ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچا لیں گے، تو ان پر آیا اللہ، ایسی طرف سے جس کا انھیں گمان (بھی) نہ تھا،
اور اللہ نے ان کے دلوں‌ میں رعب  ڈالا (مومنوں کا) اور وہ اپنے ہاتھوں سے اور مومنوں کے ہاتھوں ‌سے اپنے مکان برباد کرنے لگے، تو اے بصیرت والو سبق حاصل کرو۔


اور اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ان کا انخلا لکھ رکھا ہوتا،
تو وہ انھیں (اسی وقت) دنیا میں عذاب دیتا اور ان کے لیے آخرت میں جہنم کا عذاب ہے۔
یہ اس لیے ہے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی، اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ اس کو سخت سزا دینے والا ہے۔

(جاری ہے)


سورۃ الحشر آیت نمبر 2 تا 4
قرآن کی اِن آیات کو افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں پڑھیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ قرآن کا بیان 1400 سال پہلے بھی اور آج کے دور میں بھی ویلڈ ہے، قرآن ہر دور کے لیے ہے۔


اور اہل کتاب کا طرز عمل 1400 سال پہلے بھی اور آج بھی یکساں ہے۔
اللہ ہی نے اہل کتاب کے کافروں کو یعنی نیٹو کو افغانستان میں ان کے فوجی ٹھکانوں سے ان کے قلعوں سے اور ان کی ایئر بیسس سے نکالا، ان کے پہلے ہی اجتماعی لشکر پر،
نیٹو کا دنیا میں یہ باقاعدہ پہلا اجتماعی اجتماعِ لشکر تھا۔
اور مسلمان دنیا کو یہ گمان بھی نہ تھا کے پورا نیٹو (اہل کتاب) کا لشکر جو کے دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کا ایک مشترکہ لشکر ہے، افغانستان میں جا کر شکست کھا جائے گا اور یوں رسوا ہو کر اپنے فوجی ٹھکانوں اور فوجی قلعوں سے نکلے گا۔

تو اللہ ان پر غالب ہوا یا یوں کہہ لیں کہ اللہ نے ان کی شکست اور ذلالت اس جگہ لکھی جہاں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے،
ایک ایسا ملک جو دنیا کے لحاظ سے سب سے پسماندہ مانا جاتا تھا، جہان یو ایس ایس آر سے جنگ اور خانہ جنگی کی وجہ سے نہ کوئی حکومت تھی، نہ کوئی کاروبار، اور نہ انفراسٹرکچر تھا، صرف اللہ کا نام لینے والے اللہ کے بندے تھے اور اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے خواہشمند لوگ تھے۔


اللہ نے اپنے ان بندوں کو  فتح اور کامیابی عطاء فرمائی جو بے سروسامانی کی حالت میں دنیا کی مضبوط ترین فوجی قوتوں سے نبردآزما ہو گئے۔
تو اللہ نے اپنے مخلص بندوں کا رعب دنیا کے دلوں میں ڈال دیا خاص طور پے ان کے دلوں میں جو ان مومنوں سے لڑنے آئے تھے۔
اور جاتی دفعہ، انخلاء کے وقت انہوں نے اپنی ائیر بیسس فوجی اڈے، فوجی ٹھکانے، فوجیوں کے مکانات تباہ کرنے شروع کر دیے ہیں اور افغانستان کے مومن بھی ان کے ٹھکانے اور اڈے تباہ کر رہے ہیں بلکل ویسے ہی جیسے مدینہ میں اہل کتاب کو جب اللہ نے مومنوں کے ذریعے سے مدینہ سے نکالا تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے مکان اور قلعے تباہ کرنے شروع کر دیے کہ بعد میں یہ مسلمانوں کے کام نہ آئیں اور ساتھ ساتھ مسلمان بھی ان کے قلعے تباہ کر رہے تھے، آج بھی اہل کتاب کا لشکر افعانستان سے بے آبرُو ہو کر نکلتے وقت اپنے مکان اور قلعے اس لیے تباہ کر رہا یے کہ بعد میں طالبان حکومت ان کو استعمال نہ کر سکے۔


اللہ قرآن میں ہمیں بتا چکا ہے کہ اگر 1400 سال پہلے یا اس موجودہ دور میں اللہ نے ان کے انخلاء کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو وہیں پر ان پر اللہ کا عذاب آ جاتا لیکن اللہ نے اُن پر دنیا کے بڑے عذاب کا فیصلہ بعد کے لیے قربِ قیامت میں کر رکھا ہے اور یہ بات قرآن کی بہت سی آیات میں واضع درج ہے جیسا کہ سورۃ الملک آیت نمبر 25-26-27-28
 اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہِ (عذاب) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو ؟ ۔


آپ فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ علم اللہ کے پاس ہے۔ اور اس کے سوا نہیں کہ میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
پھر جب وہ اسے (عذاب کو) نزدیک آتا دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے جنہوں نے کفر کیا اور کہا جائے گا یہ ہے وہ جو تم مانگتے تھے۔
آپ فرما دیں بھلا دیکھو تو اگر اللہ ہلاک کر دے مجھے اور (انہیں) جو میرے ساتھ ہیں یا ہم پر رحم فرمائے تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا ؟۔


ان آیات میں اہل کتاب کے کفار کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دی جارہی ہے جو یا تو رسول اور صحابہ کی زندگی میں ہی اہل کتاب پر آئے گا یا رسول اور ان کے صحابہ کے بعد آئے گا،
اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اہل کتاب پر من حیث القوم حضرت محمد اور ان کے صحابہ کے دور میں کوئی عذاب نہیں آیا، اور جو آیا تھا وہ اہل کتاب کے ایک بہت ہی چھوٹے گروہ پر آیا تھا جس کے بارے میں اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ وہ تو عذاب کا کچھ حصہ تھا۔


تو ان کے عذاب کا وعدہ ابھی پورا ہونا ہے اور یہ والا وعدہ قربِ قیامت میں ہی ہے جو کہ احادیث سے بلکل ہی واضح ہے۔
اور اس کے بعد جہنم کا عذاب تو ان کے لیے ہے ہی۔
اور ماضی میں سب عذاب ان پر اس لیے آئے تھے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے تھے تو یہ اللہ کا اصول آج بھی قائم ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرے گا اللہ اس کو سخت عذاب دے گا چاہے وہ اہل کتاب کے کافر ہوں یا "امتِ مسلمہ" کے کافر ہوں۔


اور اگر آپ اس موجودہ منظر میں انڈیا کا کردار معلوم کرنے کے خواہشمند ہیں تو قرآن کی اسی سورۃ الحشر کی آیت نمبر 11 پڑھ لیں سب حالات آپ پر واضح ہو جائیں گے۔
 کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقوں کو نہیں دیکھا ؟ وہ اپنے بھائیوں بندوں کو کہتے ہیں جو کافر ہوئے، اہل کتاب میں سے،
البتہ اگر تم نکالے گئے تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکل جائیں‌ گے اور تمہارے بارے میں کبھی ہم کسی کا حکم نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی ہوئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے،
  اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بیشک وہ جھوٹے ہیں۔


  سورۃ الحشر آیت نمبر 11
سورۃ الحشر کی آیت نمبر 2 میں ایک جملہ تھا،
"تو اے بصیرت والو سبق حاصل کرو"۔
تو مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور (قرآن) سے دیکھتا ہے۔
حدیثِ نبوی (ترمذی، الجامع، ابواب التفسیر، 145:2)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :