الوادع نہیں ،بلکہ آگے بڑھو

ہفتہ 28 دسمبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

ٹی ایس ایلیٹ اپنی شاہکار نظم” دی ڈرائی سالوے جز“ The Dry Salvages میں کہتا ہے کہ مسافرو!الوداع نہیں بلکہ آگے بڑھو ۔اس مختصر مگر جامع نصیحت آمیزجملے میں اُمید و جہد مسلسل کاپیغام ہے۔ زندگی میں کامیابی وکامرانی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ زندگی کے ضابطوں کو سمجھتے ہوئے مصائب ومشکلات کے طوفانوں کا سامنابہادری سے کیا جائے ۔

کامیابی ایک مسلسل سفر کا نام ہے اہم یہ ہے کہ زندگی کی جنگ میں امید ترک نہیں ہونی چاہئے ۔ہوسکتا ہے جسے ہم تاریکی سمجھ رہے ہوں یہی صبح کاذب ، صبح صادق کا آغاز ہو۔وقت اور زمانہ زنجیر ایام ہے جس کی کڑیاں روز وشب کی صور ت میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ٹی ایس ایلیٹ جیسانامور شاعر وڈرامہ نگار جو سال میں ایک دو ہی نظمیں لکھتا تھالیکن اس کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی یہ نظمیں ادب میں ایک واقعہ ہو کہ الفاظ میں
On the field of battle
not fare well,
But Fare Forward,Voyagers.
کہ حوادثات زمانہ سے سبق سیکھتے ہوئے انسان کو ہر حال میں آگے بڑھتے رہنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

ایلیٹ تاریخی شعور پر بہت زور دیتا ہے تاریخی شعور کے معنی یہ ہیں کہ ماضی کو حال میں زندہ دیکھا جائے ۔اسی نظم کا ایک مصرعہ ہے Not Escaping from past ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے نئے عزم و ارادے اورہمت سے منزل کی جانب بڑھنا ہوگا۔سال 2019 بہت سی تلخ و شیریں یادیں لیکر رخصت ہورہا ہے اور 2020 کی آمد آمد ہے ۔اس نئے سال کی آمدہمارے کانوں میں سرگوشی کررہی ہے کہ اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتاہے ،پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے ۔

ضروری ہے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر انفرادی واجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کریں کہ کیا کھویا ،کیاپایا ،کیا دیکھا ،کیا سیکھا،کیا سمجھا ؟ہم نے دستیاب وقت سے استفادہ کیا یا وقت ضائع ہی کیا ؟ نیاسال ہمیں 12 ماہ، 52 ہفتے ،365 دن،8760 گھنٹے ، 5,25,600 منٹ ، 3,15,36,000 سیکنڈزکا وقت دیتا ہے کہ کچھ کرسکتے ہوتو کرلو ۔یہ وقت عظیم نعمت ہے اس کی جو قدر کرتا ہے وہی دنیا میں کامیاب و کامران ہوتا ہے ۔

میر حسن کے بقول
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
دوکر راہی نے وقت ضائع کرنے والوں کو اپنے الفاظ میں یوں کہاہے
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کرکے چھوڑے گا
مشہور امریکی مصنف میلوڈی بیٹی Melody Beattie نئے سال کے بارے میں کہتا ہے کہ نیا سال ہماری زندگی میں کتاب کے اگلے سبق کی طرح ہے جو ابھی لکھنا باقی ہے ۔

اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم زندگی کی کتاب کے اس نئے صفحہ پر کیا لکھنا چاہتے ہیں ۔سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے مستقبل کوPredict کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو Create کیا جائے ۔علامہ محمد اقبال کچھ نیا کرنے کی امنگ پیدا کرنے کی ترغیب یوں دیتے ہیں
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نئے سال کو کیسا بسر کرنا چاہتے ہیں ؟ ہماری منصوبہ بندی کیا ہے ؟ ہمارے وسائل کیا ہیں ؟ ہماری منزل کیا ہے ؟ کونسے نئے ٹارگٹ ہیں ؟ ان ٹارگٹس کے حصول میں مشکلات کون سی درپیش آئیں گی ؟ کیا ہم نے خو دکو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے یا ہم وقت کے دھاڑے کو بدلنے کا عزم ،حوصلہ اور ہمت رکھتے ہیں یہ سب ہمارے اوپر منحصر ہے ۔

نارمن ونسینٹ پیل نے اپنی کتاب
Tough Times never last but Tough People Do میں سب کو سبق دیا ہے ہے کہ مشکل حالات ہمیشہ نہیں رہتے مگر مضبوط لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں ۔مضبوط لوگ دنیا اور اس کی تلخ حقیقتوں کو تہہ دل سے قبول کرتے ہیں مگر نااُمید کبھی نہیں ہوتے وہ ہر نئے دن سے کچھ نیا سیکھتے ہیں ۔
27 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر اپنے مشن وجدوجہد آزادی سے پیچھے نہ ہٹنے والے جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا نے کیا خوبصورت بات کہی ہے” ہر کام ہمیشہ ناممکن نظر آتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہوجاتا ہے ۔

نپولین بوناپارٹ سے منصوب ایک قول ہے کہ ”اس کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہے “ ْ۔نئے دن ،نئے موسم ،نئے روز وشب ہمارے منتظر ہیں بس پہلا قدم اٹھانے ،نئے عزم اجاگر کرنے کی دیر ہے ۔زندگی کی ترجیحات کا تعین کرنا بھی ازحد ضروری ہے ۔پروفیسر احمد رفیق اختر اپنی کتاب” مطلع آثار“ میں انسان کی خطا بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اپنی ترجیح اول کو Neglect کرتے ہوئے اس سے کم تر ترجیحات کو بہت وقت دیتے ہیں مگر جب ہمیں اپنی ترجیح اول کی Nostalgic feelings ہونے لگتی ہے افسوس اس وقت ،وقت گزر چکا ہوتا ہے ۔

پھر سوائے پچھتانے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہکچھ وقت نکال کر اپنا محاسبہ کریں اور ماضی کی ناکامیوں ،دکھوں ،تکلیفوں ،پریشانیوں ،اپنوں کی بے وفائیوں ،دشمنوں کی دشمنی کی سوچوں کو پس پشت ڈال کر مستقبل کا سوچیں اور لمحہ حال میں جینا شروع کردیں ۔ظفر اقبال کے بقول
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوار سے پرانا کلینڈراتار دے
مشہور زمانہ فلسفی افلاطون کسی بھی کام کے آغاز کو اس کام کا سب سے اہم حصہ قرار دیتے ہیں۔

اس لئے سب سے اہم کام پہلا قدم اٹھانا اور منزل مقصود تک پہنچنے کا عزم کرنا ہے چاہے سفر میں کتنی بھی مشکلات و رکاوٹیں آئیں انسان منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے مشکل وقت و لمحات تو ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں بس امید کا دامن کبھی نہیں چھوٹنا چاہئے ۔
ناصر کاظمی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب How to stop Worrying and start living میں پریشانیوں سے بچاؤ کا طلسماتی فارمولا بتایا ہے کہ اپنے آپ سے پوچھیں اس کا بدترین نتیجہ کیا وقوع پذیر ہوسکتا ہے ؟اگر کوئی ہے تواس کو قبول کرنے پر تیار ہوجائیں ۔

پھر سکون اور اطمینان کے ساتھ بدترین کوبہترین میں تبدیل کرنے کے لئے آمادہ عمل ہوجائیں۔جان اکٹیس انگریزی کا لافانی شاعر ہے اس کی زندگی دکھوں ،تلخیوں سے بھری ہوئی تھی مگر وہ غم سے رومانس کرتا تھا ۔کیٹس کی شہرہ آفاق نظم An ode to nightingale میں وہ جب جسمانی درد اور بخار میں تپتے ہوئے بلبل کی آواز سنتا ہے تو اس کا تصور اسے غم دنیا سے دور لے جاتا ہے ۔

اس لئے انسان کو کبھی کبھی فطرت سے بھی اپنا رشتہ جوڑنا چاہئے ۔ولیم ورڈز ورتھ ان احساسات کو Spontaneous overflow of powerful feelings جب الفاظ خود بخود اپنا راستہ بنانے لگتے ہیں ۔یہ اعلی و ارفع جذبات کا بہاؤ فطرت کی خالص روح سے رابطے کا نتیجہ ہے ۔اسی طرح شیلے (Shelley)بھی خوبصورتی اور حسن کا زندگی بھر عاشق رہا اسی لئے اس کی شاعری میں غنائیت اور مٹھاس کا عنصرنمایاں تھا اس کے ساتھ ہی شیلے بھی انسان کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو جگانے کی اپنی طور پر سعی کرتا ہے ۔

شیلے کے مطابق انسان خوشگوار زندگی تبھی گزار سکتا ہے جب وہ آزاد ہو اور اسی آزادی کے لئے شیلے انسانوں کو اکساتا بھی ہے ۔شیلے کا نظریہ ہے کہ غلامی تمام برائیوں کی جڑہے ۔ تو اس لئے ہمیں اپنے ساتھ عزم کرنا ہے کہ ہم نے سوچ وفکرکی آزادی حاصل کرنی ہے ، یہ آزادی ہی تمام آزادیوں کی بنیاد ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کے دکھ سکھ ،کا جتنا احاطہ شکسپئیر نے کیا ہے ،شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے کیا ہو،یہی وجہ ہے کہ ہر پڑھنے والے کو اس کے ڈراموں میں اپنا عکس نظر آتا ہے ۔

شکسپئیر کہتا ہے کہ فطرت کا لمس پوری دنیا کوقریب تر کردیتا ہے ۔شکسپئراپنی نظم The seven ages of man میں دنیا کو ایک سٹیج کہتا ہے جس میں ہر انسان زندگی کی مختلف مراحل میں مختلف کردار ادا کرتا ہے ۔اور ہر کردار کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے اس لئے اپنے وقت کا انتظار کرنا چاہئے ۔ معین وقت سے پہلے محض آرزو کرنے سے کچھ نہیں ملتا ۔آرزو کے ساتھ ایک قابل عمل روڈ میپ اور استقامت کے ساتھ جدوجہد ضروری ہے تب جاکر کامیابی ملتی ہے ۔

میر حسن صاحب اس سفر میں آنی والی مشکلات کی عکاسی ان الفاظ میں کرتے ہیں
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں
مایا اینگلو Maya Angelou کہتی ہیں کہ اگر آپ کسی چیز کونا پسند کرتے ہیں تو اس کو تبدیل کردیں اگر آپ اس کو تبدیل نہیں کرسکتے تو اپنا رویہ بدل لیں ۔اس لئے تلخ حالات ،مشکلات اور ناموافق حالات و ماحول کے شکوے کرنے کی بجائے اپنے آپ کو اس قابل بناناہوگا کہ یہ ناموافق حالات آپ کے موافق بن جائیں ۔

کیونکہ ہر تاریک شب کے بعد سحر طلوع ہوتی ہے فیض احمد فیض کے بقول
دل نااُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
جو دکھ ماضی کا حصہ تھے وہ دکھ اور وقت کٹ گیا ،اب نئے تقاضے ہمارے منتظر ہیں ۔درحقیقت نئے سال کے ساتھ نئی تفکر ،نئی منزل ،نئے احساس ،نئے راستوں جیسے عناصر کومجتمع کرلیا جائے تو ہم امیدوں اور امنگوں کا دیپ جلاسکتے ہیں اس امید کے دیپ سے ہمارا گھر اور معاشرہ سب روشن ہوگا ۔

حالات کا رونا رونے کی بجائے اپنے حصہ کی شمع جلا یں گے تو یہ ملک ترقی کرے گا اور حقیقی تبدیلی بھی آئے گی ۔بڑا مشہور محاورہ ہے کہ عظمت روسا کے گھروں سے نہیں پید اہوتی ۔عظمت آسمانوں سے نہیں ڈھلتی ۔بڑے خاندانوں کے لوگوں میں نہیں ہوتی بلکہ Adversity is the school of all greatness یہ مشہور کہاوت ہے ،دنیا کے ہر شعبے میں قیادت انہوں نے ہی سنبھالی جنہوں نے انسانی مسائل کو سب سے نچلے درجے پردیکھا ، سخت مشکلات و حالات کے جبرو ستم کا خند ہ پیشانی سے مقابلہ کیا ۔

مگر اس کے لئے لازم ہے کہ آپ کے دل میں آرزو ہو ،یہ آرزو دل کو ہمہ وقت جلاتی اور تنگ کرتی رہے اور کامیابی کی اُمید دلاتی رہے
وصال یار بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یارفقط آرزوکی بات نہیں
نئے سال کے موقع پر ہر شخص اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئے اپنے آپ سے وعدے کرتا ہے توالیزبیتھ سیول (Elizabeth Sewell)کی نظم New Year Resolutions
سے بہتر کوئی تجویز نہیں ہوسکتی
ٰI will drain long Draughts of quiet as purgation ,remember twice daily who iam ,will lie o nights in the bony arms of reality and be comforted
تو ہمیں نئے سال کے موقع پر خود احتسابی وخودشناسی سے بہرور کرنا ہوگااپنی خامیوں سے متعارف کروانے والے دل کا وسعتوں سے سامنا بھی کرناہوگااور کمزوریوں پر تنقیدی نگاہ ڈال کر آگے لا لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا ۔

خوداحتسابی کامیابی کے عمل کی پہلی سیڑھی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :