ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

جمعہ 27 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

کرونا وائرس کی وجہ سے دنیامیں لوگوں کے لئے ایک مشکل وقت ہے وہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں بندہیں اور مستقبل کے حوالے سے خدشات وخطرات سر منڈھلا رہے ہیں ۔قوموں کی اجتماعی زندگی و انفرادی زندگی میں آزمائش ومشکل وقت آتا رہتاہے تو یہ انسان کا حالات سے مقابلہ کرنے کا رویہ ہوتا ہے جو اسے کامیاب یا ناکام انسان بناتا ہے ۔وقت کی سب سے اچھی ادا یہ ہے جیسا بھی ہوگزرہی جاتا ہے ۔

قرآن مجید فرقان حمید کی سورة الشرح میں فرمان باری تعالی ہے ۔فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ترجمہ پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔اسی سورہ کی چھٹی آیت مبارکہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ،ترجمہ بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔مشکلات تو آتی رہتی ہیں مشکلات سے نمٹنا ہی اصل فن ہے ۔

(جاری ہے)

فیض احمد فیض نے ایسے ہی وقت کے بارے میں لکھا تھا کہ اس طرح کے وقت میں ہمت وحوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اس مشکل وقت کے بعد بھی زندگی ہے اس مشکل وقت سے سیکھتے ہوئے مستقبل کی تیاری کرنی چاہئے بقول فیض احمد فیض 

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
امریکی مصنف ورجینیا ساتر کے مطابق، ”زندگی بالکل ویسی نہیں جیسا آپ تصور کرتے ہیں، یہ ایک ایسا راستہ ہے جس میں موجود منفی حالات کا مقابلہ مثبت رویوں کے ساتھ کرناپڑتا ہے“۔

مثبت رویہ اگرچہ ایک بہت چھوٹا سا عمل ہے لیکن یہ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر نامساعد حالا ت کے دوران، مثبت رویے کو کامیابی کی کلید قرار دیاجاتا ہے۔ مشکل وقت میں بھی اپنی سوچ مثبت رکھیں کیونکہ سوچ ایک ایسا آلہ ہے جس کا وار کبھی خالی نہیں جاتا۔ مثبت سوچ، مثبت حالات پیدا کرتی ہے جبکہ منفی سوچ، منفی حالات۔بطور پاکستانی شہری اگر ہم موجودہ حالات کو ایک قومی آزمائش سمجھ کر مثبت سوچ کے ساتھ لڑیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ ہم اس مشکل وقت کو بھی احسن طریقے سے گزار لیں گے ۔

چین کی مثال ہمارے سامنے ہیں انہوں نے کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت اقدامات کئے اور عوام نے بھی ان اقدامات میں حکومت سے مکمل تعاون کیا ،ہدایات پر عمل کیا اور اجتماعی مفاد کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی ۔اس مشکل وقت سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کاخیال کرنا چاہئے ،بلخصوص معاشرے کے وہ لوگ جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزی روٹی سے محروم ہوگئے ہیں اہل محلہ ،مخیر حضرات کو ان لوگوں کی دل کھول کر مدد کرنی چاہئے ۔

الطاف حسین حالی نے کہاتھا 
کرو مہربانی تم اہل زمین پر 
خدا مہربان ہوگاعرش بریں پر
حضرت شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں جوشخص دوسروں کے غم سے بے غم ہے آدمی کہلانے کامستحق نہیں ہے ۔رسول اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ ہے ”جوکسی تنگدست پر آسانی کرے گا اللہ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کے راستے کھول دے گا “ (صحیح مسلم )۔جب ساری دنیاگھروں میں محصور ہوکررہ گئی ہے اور ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان نامساعد حالات میں بھی درد ل ،دوسروں کی مدد اورخدمت انسانیت کا جذبہ رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں جو خدمت کے چراغ جلارہے ہیں جس کی سینکڑوں مثالیں ہمیں دیکھنے وسننے میں آرہی ہیں بقول جمیل مظہری 
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر 
یہ کیا کہا کہ ہوا تیزہے زمانے کی 
ہر کسی کو اپنے حصہ کا چراغ ضرورجلانا چاہئے اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے محلہ ،علاقے ،ضلع کے لوگوں کی مشکلات کم کرنے میں کمر بستہ ہوجائے تو پورے ملک میں دیہاڑی داڑمزدور،چھابڑی والے اور سفید پوش جن کا روزانہ کی دیہاڑی کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا وہ بھی اس مصیبت کی گھڑی میں اپنی ضروریات زندگی پوری کرسکیں گے۔

صحیح الجامع میں رسولﷺنے فرما یا: لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔یاان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو۔شاعر نے اسی لئے کہاتھا 
درد دل کے واسطے پیدا کیاانسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیان
 ترمذی شریف کی روایت ہے: ”تم زمین والوں پر رحم کرو آ سمان والا تم پررحم فرمائے گا۔

“بخاری اور مسلم کی روایت ہے:”جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔“اس وقت دکھی ، مجبور ومقہور اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہمارا دینی ،قومی اور انسانی فریضہ ہے ۔
شہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے 
سوچراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے 
ضرورت مندوں کی مدد ضرور کریں جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے فون ،واٹس اپ کے ذریعے رابطہ کریں کو شش کریں برائے راست رابطہ یا سماجی میل جول کم سے کم ہو ۔

حکومت وماہرین کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ دن کا قرنطینہ کرنا چاہئے ۔ اس قرنطینہ کو زحمت کی بجائے رحمت بناتے ہوئے اس میں مستقبل کے بارے میں بیٹھ کر پریشان ہونے کی بجائے مثبت سوچ سوچنی چاہئے اور نئے امکانات ،نئے خیالات ،نئی سوچ ،نئی راہوں کے امکانات کو ایکسپیلورکرنا چاہئے ۔اس بات سے انکار نہیں کہ یہ بہت مشکل وقت ہے اور شاید اس سے پہلے ہم نے کبھی زندگی میں ایسا سوچا ہی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ پوری دنیامیں نفسا نفسی کا عالم ہوگا ،پوری دنیا میں کاروبار زندگی رک جائے گا ،لوگ گھروں میں محصور ہوجائیں گے مگر یہ اب ہوگیا ہے اب اس سے نمٹناکیسے ہے اور اس مشکل وقت کو گزارنا کیسے ہے یہ اہم ہے کہ ماضی کو بیٹھ کر کوستے یا یاد کرتے رہیں یہ غم کی شام ایک دن ختم ہوگی 
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے 
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی توہے 
اس مشکل وقت میں بھی ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے ۔

مشہور قول ہے کہ اُمیدپر دنیا قائم ہے ۔کنفیوشس نے کہاتھا کہ ہمیشہ ُپر امید رہنے والا کبھی دکھی نہیں ہوتا ۔ماہر القادی نے کہاتھا 
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں 
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں 
یہ بات بھی درست ہے کہ جو لوگ کٹھن اور تکلیف دہ حالات کا مقابلہ مردانہ وار کرتے ہیں کامیابی و حسین مستقبل ان کا انتظار کرتاہے ۔

انسان جو کچھ مشکلات و تکلیفوں سے سیکھتاہے وہ عام حالات اور زندگی میں نہیں سیکھ سکتا ۔ جگر مراد آبادی نے کہاتھاکہ جولوگ طوفانوں و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں وہی دنیا کو بدلتے ہیں ۔
جوطوفانوں میں پلتے جارہے ہیں 
وہی دنیا بدلتے جارہے ہیں 
انسان فطرتا سست وکاہل ہے مگردنیامیں کامیابی وکامرانی انہی کا مقدر ٹھہرتی ہے جو طوفانوں سے لڑتے ہیں 
ساحل کے سکون سے کسے انکارہے لیکن 
طوفان سے لڑنے میں مزااور ہی کچھ ہے 
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ گھٹن ،نفسیاتی دباؤ اور ذہنی تناؤ کے ساتھ ہم کچھ بھی مثبت نہیں کرسکتے اور نہ ہی مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔

اس وقت نفسیاتی طور پراضطراب ،کشیدگی وتناؤ اور ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر ہر طرف کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی خبروں کی وجہ سے الجھن و غیر یقینی کی کیفیت سے دوچارہونا فطری سی بات ہے ۔ان حالات میں نفسیاتی طور اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے افراد کومضبوط کرنابہت ضروری ہے ۔بحثیت قوم ہمیں نظم وضبط اور اتحادویکجہتی کی اشد ضرورت ہے سیاسی وسماجی ،لسانی ومذہبی سب اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماعی طور پر ہم نے اس وبا کے خلاف جنگ لڑنی ہے ۔

اس جنگ میں پیرامیڈیکل اسٹاف ،سیکیورٹی فورسز پولیس ،رینجرز ،پاک آرمی کے جوان ،انتظامیہ کے لوگ جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مصروف ہیں ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے ۔اسی طرح میڈیا کے لوگ جو ہر ناگہانی آفت ،مشکل گھڑی میں عوام الناس کو باخبر رکھنے کے لئے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں اس وقت بھی میڈیا نے عوام الناس کو شعور دینے اور احتیاطی تدابیر وصورتحال سے باخبر رکھنے کے لئے بہت احسن کردار ادا کیاہے۔

اس مشکل وقت میں خدمت کرنے والوں کو ڈی مورالائز کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے یہی زندہ قوموں کا شعار ہوتا ہے ۔ایمان ،اتحاد ،یقین ،نظم وضبط ،خدمت خلق اور امید انسداد کرونا کے خلاف جنگ میں ہمارے ہتھیار ہیں ۔
جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے بھی پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :