سعد رفیق اور سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کے استحصال کا نوحہ !!

منگل 31 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئررہنما و سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جوطویل قید کاٹنے کے بعد آجکل ضمانت پر رہا ہیں ان کا نجی ٹی وی چینل پرانٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں جواب
'' میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا '' وہ کرب، تکلیف، دکھ و احساس ہے جو پاکستان کے کروڑوں مخلص وفادار سیاسی کارکنوں کا درد ہے ۔یہ وہ درد ہے جو بطور سیاست و صحافت کے طالبعلم و کارکن میں محسوس کرسکتا ہوں۔

پاکستان کے کرپٹ سیاسی نظام و سیاسی جماعتوں میں خاندانوں کی خاندانی اجارہ داری نے ہمارے نظام میں جمہوری اقدار کو پروان نہیں چڑھنے دیا اور نہ ہی سیاسی کارکنوں کو خلوص، میرٹ، قابلیت و صلاحیت کے بل بوتے پر آگے آنے دیا ہے بدقسمتی سے اس نظام میں ترقی و عہدوں پر نوازنے کے معیار کچھ اور ہیں چاپلوسی، خاندانی غلامی، جی حضوری اورقیادت کی خوشامد کے لئے پیسہ ،قیادت کے ہر اچھے اور برے فعل کا دفاع ،اپنی قیادت کو پوری دنیا کا مسیحا ثابت کرنا اور ٹی وی ٹاک شوز جلسوں میں صرف ان کے گن گانا یہ وہ معیار ہیں جن کی بنا پر سیاسی جماعتوں میں لوگوں کو عہدے دئیے جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اگر کسی جماعت کی حکومت آجائے تو اس میں پارٹی سربراہ اپنے قریبی و من مرضی کے لوگوں کو وزارتوں و اعلی عہدوں سے نوازتا ہے مگر جیسے ہی آپ نے اختلاف رائے کی جرات کی یا کسی بات پر مشورہ دیا،یا کسی کام سے منع کیا کہ جناب یہ آپ اور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے اس سے آپکا اور جماعت کا نقصان ہوگا (اس مشورہ میں جتنابھی خلوص شامل ہو ) آپ رندہ درگاہ ہوجائیں گے اور آپکی جگہ پر خوشامدیوں و ابن الوقت ٹولے کی ہر بات مانی جائے گی اور انہیں ہی نوازا جائے گا چونکہ سربراہان صرف خوشامد سنتے ہیں اور انہیں خوشامد پسند ہے ۔

بقول احمد حماد
تیرے حماد کو لوگوں نے بتایا ہی نہیں تھا
شاہ کو بولنے والے نہیں اچھے لگتے
پاکستان میں جمہوریت کے نہ پنپنے کی بہت سے وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قائدین چند موقع پرست خوشامدیوں اور جی حضور ٹولے میں گر جاتے ہیں اور اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو میاں نواز شریف کا ہواہے ۔مختصر ا خواجہ سعد رفیق جیسے سیاسی ورکر جو اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے آئے ہیں اور انہوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں طویل سیاسی جدوجہد کے دوران سیاسی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر ان خدمات کی بنا پر انہیں پنجاب میں اپوزیشن لیڈر بنا یا جانا چاہیے تھا اگر وہ ہوتے تو پنجاب میں ن لیگ کی پوزیشن مختلف ہوتی جو آج ہے ۔

2018 کے الیکشن میں خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کا مقابلہ کیا اور عمران خان کوبہت ٹف ٹائم دیا قومی اسمبلی سیٹ ہارنے کے باوجود صوبائی اسمبلی کی نشست جیت گئے تو اس وقت سب سیاسی لوگوں کو امید تھی کہ خواجہ سعد رفیق کی شکل میں مسلم لیگ ن کو پنجاب اسمبلی میں ایک طاقتور و قابل اپو زیشن لیڈر مل گیا ہے اور قوی امید بھی تھی کہ ان کو اپوزیشن لیڈر بنایا جائے گا مگر حسب سابق یہ ہمہ بھی حمزہ شہباز شریف کے سر پربیٹھا کیونکہ شریف فیملی اپنے علاوہ کسی اہم عہدے پر کسی کو قابل نہیں سمجھتی ۔

وفاق میں اپوزیشن لیڈر بھی شریف خاندان سے یعنی شہباز شریف اور پنجاب میں میاں حمزہ شہباز شریف ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ شریف فیملی اپنے علاوہ باقی سب لوگوں کو استعمال کرتی ہے اور اہم عہدے اپنے پاس رکھتی ہے جس کا ن لیگ کو بہت نقصان بھی ہوا ہے اور ہورہا ہے ۔مسلم لیگ ن میں قربانیاں دینے والے اور طویل سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی قائدین کی کمی نہیں ہے مگر ان کو پارٹی میں وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دی جانی چاہئے ان رہنماؤں کی فہرست بہت طویل ہے جو ہر مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ مخلص رہے حتی کہ جب شریف فیملی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے باہر چلی گئی تھے یہ لوگ جیلیں کاٹ رہے تھے ،جمہوریت کے نعرے بلند کرتے ہوئے پولیس کے ڈنڈے و لاٹھی چارج برداشت کررہے تھے مگر جب نوازشریف پر قسمت دوبارہ مہربان ہوئی وہ تیسری بار ملک کے وزیراعظم اور ان کے بھائی پنجاب کے وزیراعلی بن گئے تو امید تھی کہ وہ اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان سیاسی کارکنوں کو اہمیت دیں گے مگر یہ سب امیدیں خاک میں مل گئیں ۔

اپنے دور اقتدار میں ابن الوقت لوگوں کو نوازنے کے علاوہ میاں نواشریف نے جماعت کو مضبوط نہیں کیا ۔گراس روٹ لیول تک نیٹ ورک نہیں بنایا ،اپنے ساتھ مخلص و وفادار لوگوں کو اہمیت نہیں دی ،اپنے حلقہ مشاورت کو وسیع نہیں کیا ۔چند لوگوں میں گر کر جو فیصلے کئے یا اپنی بیٹی مریم نواز کو مختار کل بنانے کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

خواجہ سعد رفیق صاحب مسلم لیگ ن کے ساتھ بہت مخلص ہیں اس بات کا اندازہ مجھے ان کے ساتھ ایک نشست میں ہوا (خالصتا فیملی کے دو تین لوگ یا قریبی جاننے والے تھے اس لیے میڈیا والے جملے یا بیان بازی نہیں ہوسکتی اور ان کے ساتھ میرا تعارف و تعلق بھی میڈیا والا نہیں تھا۔اس لئے ہمارے ساتھ گفتگو میں میڈیا والے جملے یا روایتی سیاسی بیان بازی بھی نہیں تھی اس لیے ان کی باتوں میں بناوٹ نہیں خلوص اور سچ پر مبنی تلخ حقیقتیں تھیں) انہوں نے میاں برادران کو بہت اچھے اور خلوص پر مبنی مشورے دیے تھے کہ آپ یہ کام کریں اور یہ کام نہ کریں مگر...................
وہ امانت ہے یہاں تفصیل نہیں لکھی جا سکتی مگر اس گفتگو میں کرب، دکھ اور تکلیف تھی کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہونی چاہیے، گراس روٹ لیول پر نیٹ ورک ہونا چاہیے، جماعت میں باقاعدہ الیکشن ہونا چاہیے، کارکنوں کی تربیت اور جماعت میں بتدریج ترقی ہونی چاہیے ۔

یہ سب باتیں میرے بھی دل کی آواز ہیں مگر خواجہ سعد رفیق جیسے لوگوں کی قربانیوں و جیلیں کاٹنے کے بعد یہ صورت حال دیکھتا ہو تو مجھے بہت دکھ اور تکلیف ہوتی ہے ۔مگر خواجہ سعد رفیق بھائی نے ہمت کی ہے اور قوم کو بتایا ہے کہ کچھ سوالوں کے جواب ان کے پاس بھی نہیں ہیں۔بہت سے لوگوں میں تو یہ اخلاقی جرات بھی نہیں ہے ۔ اینکر کا سوال تھا کہ سعد بھائی آپ لوگ قربانیاں دیتے ہیں نظریاتی ہیں،گراس روٹ لیول سے اوپر آئے ہیں ،چالیس پچاس سال کی طویل جدوجہد ہے تو آپکو پنجاب میں اپوزیشن لیڈر کیوں نہیں بنایا ہر اہم پوسٹ پر شریف فیملی کا ہی حق کیوں ہے تو اس کا جواب میں سعد رفیق صاحب کا ایک جملہ ہمارے نظام کی بے بسی اور ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کا نوحہ ہے ۔

کاش پاکستان میں صحیح جمہوریت آسکے اور سیاسی جماعتوں میں بھی وہی جمہوریت ہو جس کا وہ جماعتیں ملک میں مطالبہ کرتی ہیں ۔سعد رفیق صاحب آپ ہمت کریں اور قوم کے نوجوانوں کی جمہوری تربیت کریں کیونکہ یہ کام ایک سیاسی کارکن ہی کرسکتا ہے اور آپ یہ کام کرسکتے ہیں ۔یہ المیہ صرف مسلم لیگ ن کا نہیں ہے یہ المیہ و نوحہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا ہے ۔

سب جماعتوں میں پارٹی سربراہ کے خاندان و چند افراد کی اجارہ داری ہے اور سیاسی کارکنوں بیچارے صرف نعرے لگانے و جلسوں کی رونق بڑھانے کے لئے ہیں ۔ جب لیڈر کو ضرورت ہوتی ہے تو کارکنوں کی یاد آتی ہے تب کارکنوں کو اپنااثاثہ و پتہ نہیں کیا کچھ کہتے ہیں ، الیکشن کے دنوں کی مثال کو دیکھ لیں سارا قصہ جمہوریت سمجھ میں آجائے گا ۔اگر ہم سیاسی جماعت کی بات کریں تو سیاسی جماعت میں ممبران کو اپنے خیالات کے اظہار کی اجازت ہونی چاہئے ۔

دوم خواتین کی رکنیت کو اہمیت دی جانی چاہئے اور میرٹ کی بنا پر ان کو عہدے بھی دیئے جائیں ۔تیسرا پارٹی معاملات میں تمام ممبران کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔چوتھا اور اہم اختلاف رائے و نظریات کو برداشت کیا جائے ۔پانچواں فیصلہ سازی کے طریقہ کار اور طے کئے گے اصولوں کو ماننا ۔چھٹا رہنماؤں کو ممبران اور سپورٹرز کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے ،ساتواں جماعت میں باقاعدہ اور فری اینڈ فئیر الیکشن ہونا چاہئے ۔

سیاسی کارکنوں کی تربیت کا باقاعدہ طریقہ کار ہونا چاہئے تاکہ گراس روٹ لیول تک کارکنوں کی تربیت ہو اور جماعت کا ڈھانچہ یونین کونسل اور وارڈ لیول تک ہو ۔ جماعت میں کارکنوں کو قابلیت ،صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔جماعت میں کسی فرد واحد کی بجائے اجتماعی فیصلہ سازی کے لئے وسیع مشاورت ہونی چاہئے ۔

کاش پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوری اقدارپروان چڑھ سکیں اور ملک میں بھی حقیقی عوامی شراکتی جمہوریت آسکے ۔ سیاسی قائدین کو بھی سمجھ لینا چاہئے ان کا اثاثہ سیاسی کارکن اور ان کی جماعت کا گراس روٹ لیول تک نیٹ ورک ہے ۔ کسی دوسری طاقت کی بیساکھیوں پر چڑھ کر اگر اقتدار تک پہنچ بھی جائیں تو وہ بیساکھیاں ناقابل اعتبار وعارضی ہیں ۔سیاسی قیادت کی اصل طاقت عوام اور اس کے مخلص کارکن ہے یہ بات اگر سمجھ میں آجائے تو شاید کسی کو اسٹیبلشمنٹ یا مخصوص طاقتوں کی مدد کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ۔ اس سے جمہوریت بھی آئے گی اور پارلیمنٹ بھی طاقتور ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :