سینیٹ انتخابات یا ضمیرفروشی کا بازار ؟

جمعرات 11 فروری 2021

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
سینیٹ کے ووٹوں کی خرید وفروخت کی شرمناک داستان اور نوٹ لو ووٹ دو کی منڈی کا نوحہ کن الفاظ میں لکھا جائے سمجھ میں نہیں آرہا ۔اس سے بھی زیادہ افسوسناک عمل یہ ہے کہ بے شرمی وڈھٹائی سے اس مکروہ ضمیر فروشی کے حق میں دلائل بھی گھڑے جارہے ہیں اور واضح ثبوتوں کے باوجود ڈھٹائی سے انکار بھی کیا جارہا ہے ۔

سینیٹ کے انتخابات میں پیسہ کے ذریعے ووٹ خریدنے کے الزامات لگتے رہتے ہیں مگر انتخابات کو منصفانہ ،غیر جانبدرانہ اور شفاف بنانے کے لئے آج تک کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ اصل مسئلہ نظام انتخاب کی مکمل اصلاح ہے جب تک نظام میں سرجری نہیں ہوتی اور اصلاحات کا پیکج نہیں آتا، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا یہ دھندہ ایسے ہی چلتا رہے گا ۔

(جاری ہے)


مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
سیاسی جماعتیں و سیاسی قائدین خود ہارس ٹریڈنگ ،ووٹ خریدنے اور بیچنے کے دھندے میں شریک ہیں اس لئے اس نظام میں اصلاحات ان کے مفاد میں نہیں ۔وقتی الزام تراشی و ڈنگ ٹپاؤ بیانات کے علاوہ سینیٹ الیکشن میں اصلاحات کے لئے حکومت و اپوزیشن نے اب تک سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی ؟مشترکہ بل کیوں نہیں آیا ؟ کیا پارلیمنٹ کے فلور یا متعلقہ کمیٹیوں میں انتخابی اصلاحات پر بحث ہوئی ؟ حکومت نے سپریم کورٹ میں پہلے صدارتی ریفرنس بھیج دیا پھر پارلیمنٹ میں ترمیم پیش کردی وہ بھی اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر ۔

اپوزیشن کا الزام یہ ہے کہ حکومت شفافیت کے لئے نہیں بلکہ فرینڈز آف عمران خان کو نوازنے کے لئے اوپن بیلٹ لانا چاہتی ہے ۔معاملہ سپریم کورٹ و پارلیمنٹ میں ہونے کے باوجود حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا ۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے جب اس بارے میں صحافیوں نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت نہیں ۔

حکومتی وزرا ، ترجمان و نمائندگان اس بات کا تسلی بخش جواب دینے میں تاحال ناکام ہیں کہ جب وہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آئینی ترمیم پاس نہیں کرواسکتے تو پارلیمنٹ میں کیوں لے کر گئے ہیں اور دوسرا اس ترمیم و آرڈیننس کی ٹائمنگ پر بھی تجزیہ کار سوال اٹھا رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے سنئیر رہنما رضاربانی و شیری رحمان نے تو صدارتی آرڈیننس کو پارلیمنٹ ،آئین و جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے بلکل مسترد کردیا ہے ۔

مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کل کو وفاقی پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کا بھی آرڈیننس آجائے گا تو کیا کریں گے ؟۔آئینی ترمیم کا جو طریقہ کار آئین میں طے ہے اس کے مطابق اس پر بحث اور منظوری ہونی چاہئے۔ موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے تو اس کو اپوزیشن قیادت کی بجائے اپنی قیادت و ترجمانوں کے بیانات و طرز عمل سے پیدا کردہ مسائل و مشکلات کا سامنا رہا ہے ،اب بھی بظاہر ایسا ہی لگتا ہے ۔

حکومت نے آئینی وقانونی پوزیشن معلوم ہونے کے باوجود یہ سب کیوں کیا ؟
اگر شفافیت ہی لانی ہے تو پھر شفافیت صرف سینیٹر کے انتخاب میں کیوں ،چئیرمین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ سے کیوں نہیں ؟” سینیٹ آف دی ہول “ کو حکومت نے شامل کیوں نہیں کیا ؟ حکومت بھی اپوزیشن کی طرح سیاسی چال چل رہی ہے ؟ مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے میثاق جمہوریت کے آرٹیکل 23 میں سینیٹ الیکشن شفافیت کے لئے اوپن بیلٹنگ کا اعادہ کیا تھا مگر اب مکر گئے ہیں کیونکہ اس وقت سیاسی مفادات کے خلاف ہے۔

ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی و اخلاقی اقدار کا نام و نشان نہیں ہے ۔جمہوریت و جمہوری اقدار محض اقتدار حاصل کرنے کا ڈھونگ عوام کو سبز باغ دیکھانے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہے ۔اصل سچائی صرف دھندا ہے جو دھندے ،سیاسی و ذاتی مفاد کے لئے درست ہے وہ ٹھیک جو دھندہ و مفاد کے خلاف ہے وہ غلط ۔اصل بیانیہ و نظریہ صرف پیسہ ہے ۔

کون کتنے میں خریدے گا ،کون کتنے میں بکے گا ؟اقتدار کو دوام دینے یا اقتدار کے ایوانوں تک جائز و ناجائز کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟ اصل مسئلہ اخلاقیات یا شفافیت نہیں ،ریٹ ہے ؟ ضمیر ،سیاسی و اخلاقی اقدار ، انفرادی و اجتماعی اخلاقیات ، اصول اورانصاف یہ سب ڈھونگ ہے ،قصے کہانیاں ہیں ۔ نظریاتی و اصولوں کی سیاست ناپید ہے ۔نظریہ اصول یہ صرف بیانات و الیکشن سے پہلے منشور میں لکھنے کے لئے ہے ۔

وطن عزیز میں ووٹوں کی خرید وفروخت کے لئے کھلی منڈیاں لگتی رہی ہیں چھانگا مانگا ہو یا میریٹ اسلام آباد، مالم جبہ کی کہانی ہویا فارمز ہاوٴسز میں نوٹوں کے بیگ لینے دینے کی داستانیں ، ووٹوں کی خریدو فروخت یہ سب قومی سیاست کے دامن پرسیاہ دھبہ تھا ۔مگرانتہا اس وقت ہوگئی جب گذشتہ دنوں سے ٹی وی چینلوں پر سابقہ سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کے بدلے نوٹوں کے پلندے لیتے ہوئے ممبران اسمبلی کو دیکھا جاسکتا ہے ۔

جو شخص ساٹھ ،ستر کروڑ کے ووٹ خرید کر سینیٹ میں جائے گا وہ ملک و قوم کی خدمت اورقانون سازی کرے گا یا اپنا لگایا ہوا مال ڈبل کرے گا اور اپنے کاروباری مفادات کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ اسی طرح شرم آنی چاہئے ان ممبران کو جو نوٹ لیکر ووٹ دیتے ہیں ضمیر فروشی کے بارے میں منتظر قائمی نے کہاتھا
اب کے گرانی ساری حدیں پار کرگئی
سودے میں اب ضمیر بھی ہے جان و تن کے ساتھ
سابقہ سینیٹ الیکشن کے بعد سابق وزیراعلی بلوچستان سردار غوث بخش باروزئی نے کہا تھا کہ ضمیر کے سودے میں کوئٹہ میں پیسہ ختم ہوگیا تو کراچی سے نوٹوں کے ٹرک منگوانے پڑے ۔

اسی طرح پی پی پی قیادت نے آج تک اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ خیبر پختونخوا میں سات ممبران کے ساتھ دو سینیٹر کیسے منتخب کروالئے اور تیسرے کا مقابلہ بھی بہت سخت ہوا تھا، یہ سب نوٹوں کا کمال تھا ۔دوطرفہ تماشہ یہ ہے کہ جب چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو بلاول بھٹو و شہباز شریف نے نیوز کانفرنس میں بہت غصے کا اظہار کیاتھا اور پی پی پی نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی بنائی مگر اس کمیٹی کی رپورٹ اور اس کے نتیجے میں کس کو پارٹی سے نکالا یا تادیبی کاروائی ہوئی آج تک کسی کو نہیں پتہ ۔

مگر بہت سے سوالوں کے جواب آج تک قوم کے سامنے نہیں آئے کہ ان سینیٹرز پر کس نے دباؤ ڈالا ؟ کس نے لالچ دیا ؟ کس نے خرید وفروخت کی ؟ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب آگے کیا ہوگا ؟ بظاہر یہ یہی لگ رہا ہے کہ حکومت کی یہ سیاسی چال تھی جو کامیاب رہی ہے ۔مہنگائی و اپوزیشن کی تحریک سے توجہ ہٹا کر پوری بحث کا رخ حکومت نے سینیٹ اوپن بیلٹ کی طرف موڑ دیا ہے ۔

حکومت خود بھی یہی چاہتی ہے کہ سیکرٹ بیلٹ سے الیکشن ہو ۔وزیراعظم عمران خان نے ابھی سے واضح کردیا ہے کہ اگر اوپن بیلٹنگ نہ ہوئی تو اپوزیشن والے روئیں گے ۔ شہر اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ بات چل رہی ہے کچھ چیزیں جو ہورہی ہیں یہ آصف علی زرداری کے خفیہ گیم پلان کا حصہ ہے کیونکہ وہ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹرمنتخب کروانا چاہتے ہیں ۔

اگر وہ منتخب ہوگئے تو انہیں چئیرمین سینیٹ کا امیدوار کے طور پر بھی سامنے لایا جائے گا جنہیں جیتنے کے لئے 171 قومی اسمبلی سے ووٹ چاہئے اپوزیشن کے ٹوٹل ووٹ ملا کر 149 بنتے ہیں ظاہر ہے باقی وہ تحریک انصاف یا اتحادیوں کے ووٹ توڑیں گے اور یہ بات حکومت کے بڑوں کے علم میں ہے جس کا توڑ کرنے کے لئے حکومت نے ترپ کا یہ پتہ پھینکا ہے ۔ پی ڈی ایم جو حکومت گرانے چلی تھی خود بہت مشکل سے گرتے گرتے بچی ہے ۔

پہلے آر یا پار ،وزیراعظم کے استعفی کی ڈیڈ لائن 31 جنوری ، پھر اسمبلی سے استعفوں سے یوٹرن ، پھر سینیٹ و ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان سے یہ بات واضح ہے کہ اپوزیشن میں شروع دن سے اتفاق و سیاسی حکمت عملی کا فقدان تھا ۔ عمران خان کو یوٹرن کا طعنہ دینے والے اپنی ناقص حکمت عملی و غیر حقیقی دعووں کی وجہ سے خود بڑے بڑے یوٹرن لینے پر مجبور ہوئے ۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے خودناکامی تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک تحریک ہوتی ہے ضروری نہیں اس کے نتائج بھی نکلیں ۔مولانا کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا ہے جیسے لانگ مارچ کے وقت ہوا تھا اور مولانا کو خالی ہاتھ اسلام آباد سے واپس جانا پڑاتھا ۔ نوازشریف نے اسٹبلیشمنٹ کے خلاف جو سخت گیر موقف لندن میں بیٹھ کر لیا تھا اب وہ بھی بیک فٹ پر ہوتے نظر آتے ہیں ۔

اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو عوامی پذیرائی نہیں مل سکی ۔حکومت کی بیڈ گورننس ، نااہلی و نالائقی اور مہنگائی کے باوجود اپوزیشن عوام کو اپنے بیانیے کے ساتھ ملانے میں ناکام نظرآتی ہے ۔ پی ڈی ایم شروع دن سے ایجنڈے و لائحہ عمل میں ایک پیج پر نہیں تھی اور حکمت عملی کا فقدان بھی واضح نظر آرہا تھا ۔ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم نے لانگ مارچ جسے مہنگائی مارچ کا نام دیا ہے اعلان تو کردیا ہے مگر اسے نتیجہ خیز کیسے بنانا ہے اس کی حکمت عملی و لائن آف ایکشن نہیں بتایا ۔

میاں نوازشریف نے جو اسٹیبلشمنٹ مخالف سخت گیر موقف اپنایا تھا اور مولانا نے راولپنڈی میں احتجاجی دھرنے کاجو عندیہ دیا تھا اب وہ اس سے پیچھے ہٹ کر مہنگائی مارچ تک محدود ہوگئے ہیں ۔ جہاں تک پاک فوج کا تعلق ہے پاک فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ قومی اداروں کو سیاست میں گھسیٹا جائے ۔

ہماری بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہر ادارہ اپنا کام نہیں کرتا ۔ مستحکم جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے ذریعے کاروبار مملکت چلاتے ہیں ،پارلیمان ہی سپریم ادارہ ہوتی ہے ،انتظامیہ بھی پارلیمان کو جوابدہ ہوتی ہے مگر پاکستان میں طاقت کئی مراکز میں تقسیم ہے اور پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل اقتدار کس کے پاس ہے ،فیصلے کون کررہاہے اور ناکامیوں کا ذمہ دار کون ہے ؟۔

جمہوریت کی بنیادی شرائط میں شفاف ،غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات ہونا ضروری ہے مگر ہمارے ہاں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے ۔ الیکشن قابلیت و میرٹ کی بجائے پیسہ کا کھیل بن گیا ہے ۔ جب تک موجودہ انتخابی نظام کو نہیں بدلا جاتا تب تک ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی بلکہ یہ کھیل تماشہ ایسے ہی چلتا رہے گا ۔ورنہ پھر ہمیں منافقت سے بھرپور نام نہاد بیانیہ سننے کو ملتا رہے گا جلسوں میں ”ووٹ کو عزت دو“او ر ڈرائنگ روم میں” نوٹ لو ووٹ دو “ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :