ہن ساڈا کھبرانا بن دا اے !!

منگل 23 جون 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے عوام کو روز کوئی نہ کوئی جھٹکا لگتا ہی رہتا ہے ۔ یہ جھٹکا لگا نے والا کوئی اور نہیں عمران خان کے وزرا و مشیر ہوتے ہیں ۔ ہر وزیر و مشیر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم نہ رہ جائے ۔ اگر مخالفین پر سیاسی الزام تراشی و کرپشن کے الزامات زیادہ لگانے پر انعام دیا جائے تو اس فہرست میں مارکنگ کرنے والے کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا بہت سخت مقابلہ ہوگا الزام تراشی میں ۔

اگر ان کی وزارت کی کارکردگی کا مقابلہ کروایا جائے تو وہ زیرو جمع زیرو جمع زیرو جمع زیرو سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتی ۔اب عوام تنگ آمد، بجنگ آمد پوچھنے پر مجبور ہیں کہ جناب آپ کی حکومت کی کارکردگی کیا ہے ؟ جو طوطا مینا کی کہانی آپ ہمیں سنا کر بہلا رہے ہیں یہ ہم سب کو معلوم ہے آپ ہمیں اپنی کارکردگی بتائیں اور یہ بتائیں آپ کی حکومت نے عام آدمی کی زندگی میں کتنی آسانی پیدا کی ؟ عوام کو کتنا ریلیف دیا ؟ مہنگائی کتنی کم کی ؟ کاروبا ر کی آسانی کے لئے کیا کیا ؟ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کیا کیا ؟ آپ کرپشن کے خاتمے کانعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے آپ صرف اتنا بتا دیں کہ چوروں ،لٹیروں ،ڈاکووں سے لوٹا ہوا مال قومی خزانے میں کتنا جمع ہوا ؟ احتسابی عمل کے منطقی نتائج کیوں نظر نہیں آرہے ؟ معاشی شرح نمو منفی0.38 تک کیوں گرگئی ہے ؟ میر تقی میر نے کہا تھا
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
آپ کی حکومت نے تاریخ کے سب سے زیادہ نوٹ کیوں چھاپے ؟ آپ کی حکومت جو ایف بی آر میں اصلاحات کا ایجنڈہ لیکر آئی تھی وہ اصلاحات کہاں ہیں ؟ اگر وہ اصلاحات ہوگئی ہیں تو ٹیکس کولیکشن کا ہدف کیوں پورا نہیں ہوسکا ؟ آپکی حکومت نے 5500 ارب کا ہدف رکھا ، جس پر تین دفعہ نظر ثانی کی گئی اور جو ریونیو کولیکشن ہوئی ہے وہ تقریبا 3800 ارب کے قریب ہے ۔

(جاری ہے)

تاریخی خسارے کا بجٹ آپ کی حکومت نے پیش کیا ہے اس سب کے باوجود عام آدمی کی زندگی اجیرن کیوں ہوگئی ہے ؟ آپ تو میگا پراجیکٹس کی بجائے انسانی ترقی کا ایجنڈہ لیکر آئے تھے تو آپ کے دور میں تعلیم و صحت حکومت کی اولین ترجیح کیوں نہیں ہے ؟ بیان بازی میں تو آپکا کوئی ثانی نہیں مگر عملی اقدامات کہاں ہیں ؟ وہ پولیس ریفارمز کہاں ہیں ؟ کہاں ہے بدلا ہوا پاکستان ؟ کیا ہے نیا پاکستان ؟ کہاں ہے تبدیلی ؟ کہاں غریب و امیرکے لئے ایک قانون ؟ کہاں ہے وہ عمران خان جس نے اس ملک کے مافیاز کو شکست دینی تھی ؟ گذشتہ روز بھی عمران خان نے کہا کہ مافیاز کو نہیں چھوڑوں گا تو جناب وزیراعظم ان مافیاز پر گرفت ہوکیوں نہیں رہی سوال تو یہ ہے ؟ جس وزیر مشیر کارکردگی پوچھوتو وہ جواب دیتا ہے ملک میں نواز مافیا ، زرداری مافیا ،شوگر مافیا ، پٹرول مافیا ، مہنگائی مافیا، لینڈ مافیا ، ذخیرہ اندوز مافیا ، آٹا مافیا ،سیاسی مافیا اور بیوروکریٹ مافیا ز کی وجہ سے کوئی کام صحیح نہیں ہورہا ۔

تو ان سے کوئی پوچھے آپ کو عوام نے ووٹ اس لئے دئیے تھے کہ آپ عوام کو ان مافیاز سے نجات دلائیں اور کے خلاف ایکشن کریں ۔آپکا کام ہمیں انفارمیشن دینا نہیں ہے آپکا کام ایکشن کرنا ہے وہ ایکشن جو کہیں نظر نہیں آتا ۔ وہ گڈ گورننس جو کہیں نظر نہیں آتی آپکی حکومت کا وہ کام ہے عوام کو بتانا کافی نہیں ہے ۔ مومن خان مومن کے بقول عوام سے وعدہ تھا تبدیلی کا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
فواد چوہدی جو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہیں انہوں نے نیا کٹہ کھول دیا ہے کہ حکومتی بڑوں کی آپس میں نہ بننے کی وجہ سے حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور انہوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ تحریک انصاف میں سیاسی رسہ کشی عروج پرہے ۔

جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت سے ہٹوایا اور اسد عمر نے واپس آکر جہانگیر ترین کا پتہ گول کردیا ۔ شاہ محمود قریشی و جہانگیر ترین کی لابنگ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ شاہ محمود قریشی سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی وجہ سے انکی وزیراعلی پنجاب بننے کی دیرینہ خواہش پوری نہیں ہوئی ۔ ان کو صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہروا کر وزارت اعلی کی دوڑ سے فارغ کرنے والے بھی جہانگیر ترین ہیں ۔

فواد چوہدری نے سیاسی لوگوں کی بجائے غیر منتخب لوگوں کو اہم عہدے دینے پر بھی سرعام تنقید کی ہے جو وہ پہلے بھی کرچکے ہیں ۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار جیسے کمزور وزیراعلیٰ پر بھی تحریک انصاف کے اندر سے بہت زیادہ تنقید ہورہی ہے مگر عمران خان ان کو وزیراعلی پنجاب لگائے رکھنے پر بضد ہیں ۔ یاران نکتہ دان کے بقول عمران خان نے پنجاب اور کے پی میں کمزور وزرا ء اعلی کا انتخاب کیا ہے تاکہ ان کی ہر بات مانی جائے ۔

مگر اس ساری انا و ضد بازی میں ملک کا جو ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے یہ کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ رہی سہی کسر وزرا ء کے متنازعہ بیانات پوری کردیتے ہیں ۔ کورونا لاک ڈاؤن پر کنفیوژن اور قوت فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو جوناقابل تلافی نقصان پہنچا وہ تو ایک طرف ۔اب حالت یہ کہ پاکستان دنیا میں کورونا پھیلاؤ والے ممالک میں 14 ویں نمبر پر آگیا ہے اور پہلے سے ناقص نظام صحت اس کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا ۔

اسپتالوں کے بیڈز مریضوں سے بھر چکے ہیں ۔وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے ،گیس سلنڈرز کئی گنا قیمت پر مل رہے ہیں ۔ مہنگائی مافیاز کے آگے حکومت بے بس ہے ۔ حکومت نے قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کرکے عدلیہ کے خلاف بھی ایک محاذ کھولا ہوا ہے ۔سردار اختر مینگل کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان ، اپوزیشن کے رابطے ، مولانا ایک بھر پھر متحرک ایسے میں فواد چوہدری کا تہلکہ خیز انکشافات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے بہت سے لوگ ٹائمنگ کے تال میل کہیں اور ملا رہے ہیں ۔

ایسے میں زرتاج گل صاحبہ نے کورونا کی قوم کو نئی تعریف سمجھائی ہے ۔کچھ دن پہلے وزیر صحت پنجاب محترمہ یاسمین راشد صاحبہ نے لاہور کی عوام کو الگ مخلوق قراردے دیا تھا ساتھ ہی کورونا پھیلاؤ کا سارا ملبہ عوام پر ڈال دیا تھا ۔ وفاقی وزیر مراد سعید صاحب جو قومی اسمبلی میں شریف خاندان و زرداری خاندان کے خلاف روز تقریر کرنے میں مشہور ہیں ان سے بھی عوام پوچھتی ہے کہ جناب وہ کروڑوں،اربوں ڈالر کدھر ہیں جو آپ نے باہرسے لیکر آنے تھے اور اس سے آئی ایم ایف کا قرضہ بھی اتارنا تھا ۔

آپ کی حکومت نے تو ریکارڈ قرضہ لیا ہے اپنے بائس ماہ کے دورانیہ میں ۔فیصل واڈا جنہوں نے کہاتھا کہ ایک ہفتہ تک نوکریاں ہی نوکریاں آرہی ہیں ان موصوف کو کوئی بتائیں کہ آپ کے دور حکومت میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں ۔ شہزاد اکبر صاحب جو احتساب احتساب کی رٹ لگائے رکھتے ہیں ان موصوف کو کوئی بتائے ان کا کام لوٹی ہوئی دولت کے ثبوت متعلقہ اداروں میں دیکر ان کو سزا دلوانا اور رقم واپس لانا ہے ۔

میڈیا پر بیٹھ کر بیان بازی و قوم کو بتانا کہ یہ سب چور ہیں یہ عوام کو پتہ چل گیا ہے اب آگے کی بات کریں یہ سب چورن پرانا ہوگیا ہے ۔خسرو بختیار صاحب موصوف کو کوئی بتائے کہ وہ جنوبی پنجاب کی عوام کو جنوبی پنجاب صوبے کا لولی پاپ دیکر منتخب ہوئے تھے ۔ وزارت لینے کے بعد آپکو غریب لوگوں کا درد کیوں نہیں جاگتا ؟ وہ صوبہ کیوں نہیں بن سکا ؟اور بہت سے شگوفے اس دور میں ہورہے ہیں مگر اصل مسئلہ ہے غریب آدمی کی بڑھتی ہوئی مشکلات ۔

اس کا حل کیا ہے ؟ بلاول بھٹو زرداری یا شہباز شریف جو اپوزیشن میں ہیں ان کے پاس بھی کوئی متبادل نہیں ہے ۔وہ بھی صرف باتیں کرتے ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ اس کے علاوہ کوئی متبادل نظام انہوں نے نہیں دیا ۔ جب بھی تحریک انصاف کے حامیوں سے بات ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم جیسے بھی ہیں ہمیں برداشت کریں کیونکہ اداروں و قوم کے پاس اس وقت عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے ۔

وفاقی و سندھ حکومت کی محاذآرائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔جب پوری قوم کو یکجہتی کی ضرورت تھی مگر ہماری سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انا و ذاتی و سیاسی مفادات کے کھول سے باہر نہیں نکل سکیں ۔ وفاقی حکومت کے نمائندہ سندھ کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور سندھ کے وزراء وفاقی حکومت و تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف ۔بلاول بھٹو زرادری نے گذشتہ دنوں پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ وفاق ان کے 229 ارب روپے کم دے رہا ہے ۔

عمران خان نے سندھ کا دورہ کیا اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات کرنا بھی گواراہ نہیں کیا تو اس ساری صورتحال میں قومی یکجہتی کیسے آئے گی ؟ کیا کسی بھی ملک کی قیادت کا ہنگائی صورتحال میں رویہ یہ ہوتا ہے ؟عمران خان نے اٹھارویں ترمیم میں ترمیم واین ایف سی ایوارڈ کی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ان کا موقف ہے کہ وفاق صوبوں کو پیسے دینے کے بعد کنگال ہوجاتا ہے اور وزرا اعلی بادشاہ بن گئے ہیں ان کے پاس بہت اختیارات ہیں ۔

مگر اصل سوال بھول گئے کہ وہ تو خود اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے ۔داغ دہلوی نے کہاتھا
غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کیااقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے نظریات تبدیل کر لئے ہیں ؟ کیا عمران خان اب وہ والے عمران خان نہیں رہے ؟ کیا اب نئے دوستوں کے ساتھ عمران خان پرانے دوستوں کو بھول گئے ہیں ؟ دوستوں سے یاد آیا کل ایک دوست نے عمران خان کے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہر القادری کا وڈیوکلپ شئیر کیا ہوا تھا جس میں ڈاکٹر طاہر القادری عمران خان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کا وعدہ یاد دلوا رہے تھے ۔

بقول ناصر کاظمی
تیری مجبوریاں درست مگر
تونے وعدہ کیا تھا یاد توکر
ڈاکٹر طاہرالقادری کے بقول عمران خان نے ان کے ساتھ ہر محاذ پر انصاف کی جنگ لڑنے کا وعدہ کیا تھا مگر وزیراعظم بننے کے بعد وہ بیان دینا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ حالانکہ الیکشن سے پہلے عمران خان و تحریک انصاف کے لوگ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا منجن بیچا کرتے تھے ۔

بھولے بھالے ،شریف اور معصوم ڈاکٹر طاہر القادی کو کوئی بتائے کہ اقتدار کے دنوں کے دوست اور ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد دوست اور ہوتے ہیں ۔اقتدار سے پہلے کے نظریات اور ہوتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد نظریات اور ۔
اقتدار لینے کے لئے نعرے و سبز باغ اور ہوتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد ترجیحات اور ہوتی ہیں۔
جب کہتے ہیں ہم کرتے ہو کیوں وعدہ خلافی
فرماتے ہیں ہنس کر یہ نئی بات نہیں ہے
مختصرا !! عمران خان صاحب اب بھی وقت ہے باتیں نہیں عملی اقدامات کریں اور اپنے وزرا ،مشیروں کی فوج ظفر موج اورمصاحبین کو بھی بیان بازی سے روک کر کام پر لگائیں ورنہ آپکا انجام بھی اپنے سابقین سے الگ نہیں ہوگا ۔

مگر آپ کی ناکامی صرف آپکی ناکامی نہیں ہوگی ان کروڑوں نوجوانوں و تبدیلی کی امید رکھنے والوں و انقلاب کے خواب دیکھنے والوں کے خوابوں کی موت ہوگی ۔آئندہ الیکشن میں ورنہ مرزا غالب کا یہ شعر عملی صورت میں نظر آئے گا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :