دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے

پیر 23 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کوروکنے کے لئے عالمی ادارہ صحت و ماہرین سوشل ڈسٹنسنگ یا سماجی رابطوں میں کمی کو سب سے اہم قرار دے رہے ہیں ۔حکومت پاکستان بار بار لوگوں سے اپیل کررہی ہے کہ لوگ گھر وں میں رہیں اس وقت گھر میں رہنا بہت ضروری ہے ۔ اس وقت تنہا گھر میں رہنا ملک وقوم کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔آج ہمیں من حیث القوم ثابت کرنا ہے کہ ہم ذمہ دار قوم ہیں جو ہر طرح کے چیلنج ومشکلات کا مقابلہ مردانہ وار جرات و ہمت اور نظم و ضبط کے ساتھ کرتی ہیں انشاء اللہ یہ مشکل وقت اللہ کے فضل وکرم سے جلد ختم ہوگا اور ہم بحثیت قوم اس آزمائش سے نکل جائیں گے ۔

سیلف آئسولیشن یا تنہائی یہ ویسے بھی انسان کے لئے بہت ضروری ہے کبھی کبھی انسان کو دنیا کی بھیڑ اور زندگی کے ہنگامے سے دور کچھ وقت اپنے ساتھ بھی گزارنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

کہتے ہیں کہ ہر مشکل وقت میں بھی کوئی نہ کوئی بہتری کا موقع یاامکان موجود ہوتا ہے اس مشکل وقت میں اپنے آپ کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ہے ،اپنے آپ کو کٹہرے میں لانے کا بہترین وقت ہے ساری زندگی لوگوں کووقت دیا مگر اپنے آپ کو وقت نہیں دیا ۔

انسان کا زندگی میں سب سے بڑا سرمایہ حیات انسان خود ہوتا ہے مگر وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ۔فارغ بخار ی نے کہاتھا
پکارا جب مجھے تنہائی نے تویاد آیا
کہ اپنے ساتھ بہت مختصر رہا ہوں میں
گویا یہ اپنے آپ سے ملنے کے دن ہیں ۔یہ تنہائی مصیبت بھی ہے اور نعمت بھی ۔دنیا کے ہر طبقہ فکر ونظر نے خواہ وہ فلسفی ہوں یا شاعر ،خطیب ،صوفیا ،اہل معرفت نے خلوت میں بہت سی خوبیاں پائیں ۔

دنیا کے عظیم ترین انسانوں نے خلوت کو اپنا شعار بنایا ۔کسی بھی انسان کو یکسوئی اور ارتکاز خیال کی جب عادت پڑ جاتی ہے توہنگامے بھی اس یکسوئی میں حارج و مزاحم نہیں ہوسکتے ۔ایمرسن نے کہاتھا ”جاؤ اپنی روح کی پرورش کرو ،ہم جنسوں سے دوری اختیار کرواور اپنی عادتوں کو خلوت کے سانچے میں ڈھال لو،اس وقت تمہارے قوائے باطنی کلی طور پر اپنے جلال وجمال کا مظاہرہ کریں گے ۔

تھوریو نے کہاتھا ”میں نے کسی کواتنا رفیق و مونس نہ پایا جتنا خلوت کو۔جیمس رسل لاول کے بقول خلوت فکر وخیال کے لئے اتنی ہی فائدہ مند ہے جتنی معاشرے سے وابستگی کردار کے لئے مفید ہے ۔مگر سب سے اہم یہ ہے کہ تنہائی کے جاں گسل لمحات گزارے کیسے جائیں فضیل جعفری نے کہاتھا
دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام ودر بھی ہم سفر ہوجائیں گے
تنہائی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسان تنہا ہی دنیا میں آتا ہے اور تنہا ہی دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔


غم ونشاط کی ہر رہ گزر میں تنہاہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں
مومن خان مومن نے اپنے شعر سے تنہائی کو بھی لازوال بنا دیا ہے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
محققین نے کہاہے کہ سماجی علیحدگی اور احساس تنہائی میں فرق واضح کرنا لازمی ہے اپنی مرضی سے سماجی علیحدگی کا مطلب یہ نہیں کہ فرد احساس تنہائی کا شکار ہو۔

سماجی کنارہ کشی کا مطلب یہ نہیں کہ فرد کو احساس تنہائی بھی ہو۔موجودہ حالات کی عکاسی شاعر نے یوں کی ہے
شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کوچلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کوچلئے
انسان کے ساتھیوں میں سے تنہائی بہترین ساتھی ہے کیونکہ یہ کسی بھی وقت ساتھ نہیں چھوڑتی اس سے بے وفائی اور جفا کا کوئی ڈر نہیں ہوتا جب سب لوگ چھوڑ جاتے ہیں تو آخری سہارا تنہائی ہی ہوتی ہے ۔

انبیا ،صوفیا ،فلاسفرز،شعرا ء،ادباء ،مصنفین اور مفکرین یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تنہائیوں کو قیمتی بنایا ۔ان لوگوں کی کامیابیوں کا سفر تنہائیوں سے ہوتا ہوا لوگوں کی جلوتوں اور خلوتوں کو معطر کرگیا ۔شعرا ء اور ادبا ء کے علاوہ مصنفین کی زندگیاں بھی تنہائیوں سے بھرپور ہوتی ہیں غرضیکہ دنیا کا بہترین ادب ،کمال شاعری ،لازوال اور انمٹ نقوش چھوڑنے والی تصنیفات اور افکار تنہائیوں کا ہی عظیم شاہکار ہیں ۔

جمیس پرسیوں کے الفاظ میں خلوت میں ایک گھنٹے کا تفکر قلب کو کئی روز تک آشوب روزگار سے معرکہ آرائی کا حوصلہ بخش دیتا ہے ۔گوئٹے نے کہاتھا کہ انسان کی ناپختہ صلاحیتیں خلوت میں پختگی حاصل کرتی ہیں ۔گبن کے بقول محفل آرائی سے دانش وادراک میں اضافہ ہوتا ہے لیکن خلوت کے مکتب سے صرف نابغہ عصر (جینئس )ہی نکلتے ہیں۔جب سے کرونا وائرس آیا ہے تو میرے دماغ میں مرزا غالب کا یہ شعر گھوم رہا ہے
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہواور ہم زبان کوئی نہ ہو
بے در ودیوار سا اک گھر بنانا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہواور پاسبان کوئی نہ ہو
پڑئیے اگر بیمار تو کوئی نہ تیماردار اور
اگر مرجائیے تو نوحہ خوان کوئی نہ ہو
بی بی سی ،سی این این اور عالمی میڈیا پر اٹلی و دیگر ملکوں میں ہزاروں ہلاکتوں کے بعد سنسان گلیاں بازار ،شاپنگ مالز ،پارک و تفریحی مقامات دیکھ کر انسان کی بے بسی نظرا ٓئی اور اس میں اس وبا سے بچنے کا حل صرف ایسی جگہ ہی ہے جس کو مرزا غالب نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا ۔

کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا رک سی گئی ہے معیشت ٹھپ ،کاروبار زندگی معطل ،گلیاں محلے سنسان تو ایسی ہی دنیا کے بارے میں شاعر نے کہاتھا
سُونجھیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے
مشہور صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے کہاتھا
چل چلئے دُنیا دی اُس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے
آپ مزید فرماتے ہیں
چل بلہیا چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انے
کوئی نہ ساڈی ذات پچھانے، کوئی نہ سانوں منے
بابا بلھے شاہ کہتے ہیں کہ ”چل بلہیا ایسی جگہ چل کر رہتے ہیں جہاں سب اندھے رہتے ہوں اور جہاں کوئی میری ذات نہ جانتا ہو، اور نہ کوئی مجھے مانتا ہو“۔

یہ تو اس بہت بڑی فکر کے حامل شعر کے سادہ سے لفظی معنی ہیں، اور اگر اس شعر کی فکر انگیزی میں کسی نے اترنا ہے تو اتر جائے اور ڈوبتا چلا جائے اور اسرار و رموز سے آشنا ہوتا چلا جائے۔
پاک دھرتی کے باسیو! ، بابا بلھے شاہ، بابا وارث شاہ، بابا فرید شکرگنج، شاہ حسین ،شاہ لطیف، سچل سرمست اور شہباز قلندر ماننے والو!! ان صوفیا نے بھی ساری زندگی تصوف و تزکیہ نفس کی تعلیمات دی اور چلہ کاٹے اگر آپ کو ماہرین صحت کی بات سمجھ نہیں آرہی تو ان بزرگان دین کی تعلیمات پر ہی چند دن کے لئے عمل کرکے دنیاانسانیت کی خدمت کردیں ۔

چند دن اپنے آپ کو گھروں تک محدود کرلیں اس وقت ملک وقوم کی اس سے بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہے اور اس تنہائی کے وقت کو تزکیہ نفس کے لئے استعمال کریں علامہ اقبال رحمتہ اللہ نے فرمایا تھا
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا، مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن
اگر آپ کو دوسروں کی فکر نہیں ہے تو اپنی اور اپنے عزیز رشتہ داروں کی فکرکریں اور گھر میں رہیں تاکہ یہ وبا ء آپ کے گھر تک نہ پہنچ سکے ۔


حضرت بابا فرید فرماتے ہیں
فریدا،، جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
اپنے گریوان میں سر نیواں کر ویکھ
اس شعر میں بابا صاحب نے ایک بہت بڑے معاشرتی مسئلے پر روشنی ڈالی ہے آپ فرماتے ہیں کہ اے انسان، تجھے اللہ نے بہترین عقل دے کر پیدا فرمایا ہے اس لیے تیرا فرض ہے تو اسے استعمال کراور گناہ کے کاموں میں نہ پڑ تاکہ شکر گزار بنے اور اپنے آپ میں دھیان کر اور اپنے رب سے ڈرتا رہ تاکہ اپنے گناہوں کی طرف نگاہ پڑے تو تیرے اندر عاجزی پیدا ہو
آج ہم سب پریشان ہیں کہ ہمارا کاروبا ر تباہ ہوجائے گا ،یہ مشکل آجائے گی ،کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ ساری مصیبتیں ہمارے لئے ہی ہیں بابا فرید فرماتے ہیں
فریدا،، میں جانیادکھ مجھ کودکھ سبھا ایہہ جگ
اچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ
بابا فرید فرماتے ہیں اس دنیامیں ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ دکھی ہے یہ چیز نا شکری کی طرف لیجاتی ہے اس لیے بابا جی نے اپنی مثال دے کے سمجھایا ہے کہ انسان کو صرف اپنی طرف ہی نہیں دوسروں کی طرف بھی دھیان کرنا چاہیے کی وہ کتنے دکھی ہیں اس سے ایک تو دوسروں کے دکھوں کو سمجھنے کا موقع ملے گا دوسرا اللہ کا شکرگزار بندہ بننے میں بھی آسانی ہو گی۔

ایسے موقع پر ہمیں من حیث القوم اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ اگر کسی نے آپ کے ساتھ برا کیا ہے تو اس کو معاف کردیں اور غصہ کی آگ کو پی جائیں
فریدا برے دا بھلا کر غصہ نہ من ہنڈا
دیہی روگ نہ لگیے، پلے سب کچھ پا
فرید تو برے سے اچھا سلوک کر تاکہ غصہ کہیں تیرے دل پر قابض نہ ہوجائے، اگر تم اپنے آپ کو روگ نہیں لگانا چاہتے تو غصہ والی تمام چیزوں کو سمیٹ لو۔

پنجابی شعرا اور صوفیا کا تذکرہ ہو اور حضرت سلطان باہو کا ذکر نہ ہو یہ ہونہیں سکتا آپ فرماتے ہیں
 اُوجَھڑ جھل تے مارو بیلا،جتھے جالن اساڈی آئی ھو۔
جس کدھی نوں ڈھاہ ہمیشاں،اوہ اج ڈھٹھی کَل ڈھائی ھو۔
نِیں جنہاں دے وَہے سراندی،اوہ سکھ نہ سوندے راہی ھو۔
ریت تے پانی جتھیہون اکٹھے باہو،اتھے بنی نہ بَجھدی کائی ھو۔


یہ دنیا خطرناک 'گھنے' خوفناک جنگل اور ویرانے کی مانند ہے اور ہمیں اس میں زندگی گزارنی پڑھ رہی ہے اور اس دنیا کی مثال کسی دریا کے کنارے کی طرح ہے جو ہمیشہ گرنے کے خطرہ سے دو چار رہتا ہے۔ اور ہماری مثال تو اس آدمی کی طرح ہے جو کسی ندی کے کنارے لیٹا ہو اور اس ڈر سے بیدار رہتا ہو کہ کہیں سوتے ہوئے ندی میں نہ گر جائے۔ ریت اور پانی کو ملا کر کوئی مستقل بند نہیں باندھا جا سکتا آخر پانی ریت کو بہا کر لے جائے گا اسی طرح یہ دنیا ریت کی طرح ہے جو ایمان کو بہا لے جاتی ہے اور پھر یہ دنیا فانی ہے اور ریت کے بند کی طرح باقی نہیں رہے گی۔

جیسے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا فانی ہے انسان بے بس ہے دنیا کی ایجادات و ٹیکنالوجی کی بے بسی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایک جرثومے کرونا وائرس نے پوری دنیا کے سائنسدانوں وڈاکٹرز و سپرپاروں کو بے بس کردیا ہے ۔دنیا کی سپر پاور امریکہ کا صدر کہہ رہا ہے کہ خدا سے دعا کرو کہ یہ وبا سے جان چھوٹ جائے ۔اٹلی کے وزیراعظم کہتے ہیں کہ انسان کے بس میں جو ذرائع اور وسائل لگا لئے ہیں اب صرف اس مالک کا کرم چاہئے تب اس وبا سے ہم نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔

بحیثت مسلمان ہمیں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہئے کہ باری تعالی ہم انسان بے بس ہیں ۔تیرا کرم وفضل چاہئے یہ ہوگا تو اس وبا و بیماری سے ہم محفوظ ہوجائیں گے ۔ مگر دعا کے ساتھ ساتھ دوا بہت ضروری ہے ۔
کچھ تواے یارعلاج غم تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو
کرونا وائرس کی اب تک سب سے بڑی دوا سیلف آئسولیشن یا تنہائی ،اپنے آپ کو محدود کرلینا ہی ہے ۔

ہمارے دین اسلام میں حکم ہے صفائی نصف ایمان ہے اس پر عمل کریں اور تمام ممکنہ احتیاطیں کریں ۔ ماسک پہنیں اور ماہرین صحت وحکومت کی ہدایات پر عمل کریں ۔گھر میں رہیں اور وقت ضائع کرنے کی بجائے اس کو مثبت استعمال میں لائیں ۔کتابیں پڑھیں ،آن لائین کورسز سیکھیں ، گھر والوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے وقت دیں ،اپنے آپ کو وقت دیں ۔

عام حالات میں ہمیں اپنے لئے وقت نہیں ملتا ۔چند دنوں کے لئے زندگی کے ہنگامے اور افراتفری کی زندگی سے بریک ملی ہے تو اسے غنیمت جانیں اور اس مشکل یا مصیبت کو مواقع میں بدل دیں ۔دنیامیں کا میاب وہی ہوتا ہے جو ہر مشکل و ناکامی میں کامیابی کا امکان ڈھونڈ لیتا ہے ۔جب زندگی میں سب دروازے بظاہر بند ہوتے نظر آئیں تب بھی ایک دروازہ ،کھڑکی یا راستہ ضرور کھلا ہوتا ہے ۔

ہمیں وہ راستہ تلاش کرنا ہے ۔ہر وقت اچھے کی امید رکھنی چاہئے اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہے ۔لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:''جو اللہ سے مانگنا چھوڑ دے،اللہ اس پر ناراض ہوجاتا ہے۔

''ایک اور حدیث مبارکہ ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ قابل عزت نہیں۔''اللہ سے دعا کرکے اس کی رحمت ضرور طلب کریں مگر احتیاط ضرور کریں کیونکہ اسلام میں تقدیر با تدبیر کا حکم ہے ۔حضرت شیخ سعد ی شیرازی  فرماتے ہیں شیر سے پنجہ آزمائی کرنا اور تلوار پر مکہ مارنا عقلمندوں کا کام نہیں ۔اس لئے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں اور حکومت کی ہدایات پر مکمل عمل کریں اپنے لئے ،اس پیارے وطن کے پیارے باسیوں کے لئے ،سب سے بڑھ کر مملکت خداد پاکستان کے لئے ۔ 70 سال قبل اس قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی آج اس ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے انشااللہ ہم ایک ذمہ دار قوم بن کردیکھائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :