میڈ اِن پاکستان ضروری کیوں؟

جمعرات 7 مئی 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

کورونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کاروبار زندگی کو روان رکھنے کے لئے گھروں میں بیٹھ کرجدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے ۔پاکستان کی طرح بہت سے ممالک نے معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے لئے لاک ڈاؤن میں نرمی کی ہے ۔لاک ڈاوٴن میں نرمی کے فیصلے کے اثرات ،خدشات و تحفظات ،نقصانات پر بحث ایک الگ موضوع ہے ۔سیاسی بیان بازی ،وفاقی و سندھ حکومت کی چپقلش ،شہباز شریف کا ڈیل کا بیان، اٹھارویں ترمیم میں ترامیم کی بحث کی ٹائمنگ ،آٹااور چینی بحران کے ذمہ داران اور فائدہ اٹھانے والے لوگوں کی رپورٹ جو 25 اپریل کو آنی تھی کی بحث میں ایک چیز جو ہماری قومی قیادت اور پالیسی سازوں ،تجزیہ کاروں ،اینکروں کی بحث وتوجہ کا موضوع نہیں بن سکی وہ ہے پوسٹ کورونا زندگی یعنی جب یہ کورونا بحران سے دنیا اور ہم نکلے گیں تب کیا چیلنجز درپیش ہونگے ؟ اس وقت تباہ حال معیشت کو سہار ا کیسے دیا جائے گا ؟ وہ چھوٹے کاروبار جو بند ہوگئے ہیں ان کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کیا جائے گا ؟ انڈسٹری کو کیسے بہتر بنایا جائے گا تاکہ ہماری مصنوعات کا معیار جلد از جلد بہتر ہوسکے تاکہ ہم ان کو برآمدکرسکیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو ۔

(جاری ہے)

لاکھوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کاخدشہ ہے ان کو دوبارہ سے برسر روزگار کیسے کرنا ہے ؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن پر بحث ہونی چاہئے مگر بدقسمتی سے ہماری حکومت کنفیوزڈ ہے وہ آج تک لاک ڈاوٴن کی بحث سے ہی آگے نہیں نکل سکی ۔ اپوزیشن کے پاس بھی محض الزام تراشی کے علاوہ کوئی متبادل نظام یا منصوبہ نہیں ہے وہ بھی صرف بیان بازی سے کام لے رہی ہے ۔

میاں شہباز شریف جو لندن سے کورونا ریلیف سرگرمیوں میں حصہ لینے کا دعوی کرکے پاکستان تشریف لائے تھے انہوں نے ایک صحافی کوانٹرویو دیتے ہوئے مقتدر حلقوں کے ساتھ ڈیل و رابطوں کا بیان دے کر نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے ۔شیخ رشید کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم و نیب قوانین میں تبدیلی و اپوزیشن رہنماؤں بلخصوص میاں نوازشریف و مریم نواز ،حمزہ شہباز ،آصف زرداری و دیگر کو ریلیف کے بدلے ڈیل ہوجائے گی ۔

ستم ظریفی تو یہ ہے جب پوری قوم کورونا پھیلاؤ کی وجہ سے پریشان ہے اور ان کی نام نہاد قیادت اپنے سیاسی مفادات کی جنگ لڑتے ہوئے ڈیل وڈھیل کی کوششیں کررہی ہے ۔ اسی سے اندازہ ہوجاتاہے کہ انہیں قوم کے مستقبل کی کتنی فکر ہے اور اپنی ذاتی دولت کا بچاؤ ،سیاسی مفادات کتنے عزیز ہیں ۔ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پوسٹ کورونادنیا بدل جائے گی ،نیوورلڈ آرڈر ہوگا اس میں صحت و دیگر چیزیں دفاع سے زیادہ اہمیت کی حامل ہونگی ۔

کاروبار ٹیکنالوجی پر منتقل ہوجائیں گے اور وہی قومیں بچ سکیں گی جو خوراک و دیگر معاملات میں خود کفیل ہونگی ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی لوکل پراڈکٹ کو اہمیت دینی ہے یعنی ”میڈ ان پاکستان “اشیاء کو فروغ دینا ہے ۔ اپنی مقامی مصنوعات کے لیئے خام مال خود تیار کرنے کی ہنگامی تیاری کرنی ہوگی ۔سمال انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا ۔

وزارت صنعت وتجارت ،خزانہ و دیگر متعلقہ اداروں کو عالمی اداروں پر ریسرچ کرکے وہاں سے ماہرین کی خدمات لیکر فورا نئے ماڈل متعارف کروانے چاہئے تاکہ اس ماڈل پر لوگ چھوٹی سی فیکٹری لگا کر اس میں وہ چیزیں تیار کرسکیں مثلا اب بچوں کے کھلونے جو بازار میں 10 سے 15 روپے کا فروخت ہوتا ہے وہ بھی ہم چین سے منگواتے ہیں ۔ اسی طرح گاڑیوں ،موٹرسائیکلوں ودیگر انڈسٹری کی پاکستان میں صرف اسمبلنگ ہوتی ہے اس کے تمام پرزے ہم چین ،جاپان ودیگر ممالک سے منگواتے ہیں ۔

اسی طرح الیکٹرانکس اشیاء کے پرزے و تمام سامان باہر سے آتاہے یہاں پر اسمبلنگ کرکے ہم فروخت کرتے ہیں ۔ارباب اختیارو اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی طور پر ایسی منصوبہ بندی کریں کہ ہم خام مال ،پرزے مقامی طور پر تیار کرسکیں ۔ گوجرانوالہ ،گجرات یہاں پر بہت سی الیکٹرانکس کی اشیا ء تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں ان کو سہولیات و رہنمائی دی جائیں کہ وہ پرزے و ضروری اشیا بھی باہر سے منگوانے کی بجائے خود مقامی طور پر تیا ر کروائیں ۔

وزیراعظم نے بلکل درست تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ایٹم بم بنانے والا ملک وینٹی لیٹر کیوں نہیں بنا سکتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس سمت توجہ ہی نہیں دی ۔ہماری ترجیحات میں کبھی یہ چیز نہیں رہی کہ ہم نے میڈ ان پاکستان کو پرموٹ کرنا ہے ۔اگر ہم مقامی طور پر تمام اشیاء کو تیار کرنے کا ماڈل تیار کرلیتے ہیں اور حکومت نجی کاروبار کرنے والے لوگوں کو مکمل سہولیات یا آسان اقساط پر قرضے ،لائسنس و دیگر تیکنکی رہنمائی مہیا کرتی ہے تو ہم لاکھوں لوگوں کو باعزت روزگار بھی دے سکتے ہیں اور اپنی معیشت کو بھی پاؤں پر کھڑا کرسکتے ہیں ۔

چین کی مثال ہمارے سامنے ہیں انہوں نے اپنی لیبر کو بہتر ،منظم انداز میں استعمال کیا ہے اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی معیشت کو دنیا کی بہترین معیشت بنایا ہے ۔سمال انڈسٹریز کو فروغ دیناپاکستان جیسے ملک میں کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ہماریے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہیں صرف ان کو منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرنا ہے ۔اسی طرح ہم زرعی ملک ہیں اگر ہم اپنے کسانوں کو مکمل سہولیات دیں اور زراعت پر توجہ دیں تو اپنی زرعی وفوڈ پراڈکٹس کو پوری دنیا میں برآمد کرکے اربوں ڈالرز سالانہ کماسکتے ہیں ۔

زراعت جس پر ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کا انحصارہے اس کی بہتری کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی کیونکہ حکومت میں موجود اشرافیہ کے نمائندگان سرمایہ دار ،جاگیردار اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔غریب کسان بیچارہ ہمیشہ محنت و مشقت کرتا ہے مگر اس کو اس کی فصل کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا ۔ناقص بیج ، مہنگی کھاد ،غیر معیاری ادویات و سپرے ،بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ بے رحم موسم ،آندھی طوفان و دیگر مشکلات کے بعد فصل تیار ہوجاتی ہے تو مڈل مین و دیگر لوگ اس کولوٹ لیتے ہیں جو چیز کسان 100 روپے کی فروخت کرتا ہے وہی مارکیٹ میں عام صارف تک پہنچتے پہنچتے 200 روپے تک کی ہوجاتی ہے یعنی دوگنا ۔

مگر اس کسان کو اس کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا ۔ایوب خان کے دور میں پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل بنائی گئی تھی ۔ اسی طرح صوبوں میں ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہے مگر یہ کوئی کام نہیں کررہے اور نہ کوئی ان کو پوچھنے والا ہے کہ اتنی مراعات و تنخواہیں لینے کے باوجود آپکی کارکردگی کیا ہے ؟ ان شعبوں نے کیا جدید تحقیق کی ہے کہ اس بیج کو کاشت کرنے سے اوسط پیداوار 50 سے 100من فی ایکڑ کیسے ہوسکتی ہے ؟ کونسی فصل کاشت کریں ؟کونسی زیادہ مفید ہے ؟ دنیا میں گندم کا یہ بیج یا چاول کی یہ قسم زیادہ اچھی پیداوار دے رہی ہے کسان یہ کاشتکار کریں عملا رہنمائی کا کوئی میکنزم نہیں ہے ۔

صرف زبانی جمع خرچ یا کاغذی کاروائی کی حد تک یہ محکمہ کام کرتے ہیں ۔ اب دنیامیں سبزیوں کی کاشت کے لئے ٹنل فارمنگ کا تصور بہت کامیاب جارہا ہے مگر پاکستان میں کسان اپنی مدد آپ کے تحت اس پر کچھ کام کررہے ہیں مگر حکومتی سطح پر نہ تو ان کو قرضے یا سہولیات ،رہنمائی کچھ بھی مدد نہیں ملتی ۔ اگر ہم ٹماٹر ،پیاز ،مٹر ،کدو ،ہری مرچ ، آلو ،بھنڈی ،کریلے ،شملا مرچ ، شلجم ،گوبھی ودیگر سبزیوں کی کاشت کے لئے رہنمائی دے اور ان کے بیج دنیا سے منگوائیں ،ٹنل فارمنگ و ادویات و دیگر لوازمات کے بارے میں رہنمائی وسہولیات دیں ۔

اس سے نہ صرف ہم خوراک میں خودکفیل ہوسکیں گے بلکہ ان اشیا ء کو پوری دنیامیں برآمد کرسکیں گے ۔ اسی طرح ہمارے باسمتی چاول کی پوری دنیا میں ڈیمانڈ ہے مگر ہماری حکومت نے اس کی پیداوار بڑھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔کپاس کی فصل جو ٹیکسٹائل انڈسٹری کو خام مال فراہم کرتی ہے جنوبی پنجاب و دیگر علاقے اس فصل کے لئے بہت موضوع ہیں مگر سنڈی ودیگر بیماریوں کی وجہ سے فصل تباہ ہورہی ہے مگر ہمارے پالیسی سازوں کے کان پر جون تک نہیں رینگی کہ ان کسانوں کی کوئی مدد کرے ۔

مہنگے داموں ملنے والی زرعی ادویات و سپرے کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی یا کہہ لیں دو نمبر ادویات کی بھر مار ہوتی ہے ۔ جن اداروں کی ذمہ داری ہے کہ معیار چیک کریں وہ ان کمپنیوں کے ساتھ ملے ہوتے اور ان سے دیہاڑی لگاتے ہیں ۔اعلی سطح پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بیچارہ کسان مارا جاتا ہے اور اس کی فصل سپرے کرنے کے باوجود تباہ ہوجاتی ہے مگر وہ بے بس ہوتا ہے ۔

اپنا خون پسینہ بہا کر اگر فصل تیار ہوجاتی ہے تو حکومتی سطح پر پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے اس اجناس کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا ۔ہمارے پھلوں بلخصوص آم ،کینو کی دنیا میں بہت ڈیمانڈ ہے مگر ہمارے باغات ختم ہورہے ہیں ۔اگر حکومت نئے باغ لگانے والوں کو رہنمائی کیساتھ آسان اقساط پر قرضے و دیگر سہولیات فراہم کرے تو ہم آم ،کینو ودیگر پھلوں کو برآمد کرکے کروڑوں ڈالرز سالانہ کماسکتے ہیں ۔

مگر شرط یہ ہے اس کو برآمد کرنے کی پالیسی و دیگر معاملات کو بہت آسان فہم بنایا جائے اور کسانوں کو گائیڈ کیا جائے تاکہ ان کو ان کی محنت کا معاوضہ بھی مل سکے ۔پالیسی سازی میں کسانوں کو شامل کیا جائے اگر کسانوں کی پالیسی سرمایہ دار یا بیوروکریٹ بنائیں گے جن کو زمینی حقائق و مشکلات کا اندازہ نہیں تو زراعت کا یہی حال رہے گا ۔زراعت کے فروغ کیساتھ ہمیں دیہاتوں میں مال مویشی ،ڈیری فارمنگ ، کیٹل فارمنگ کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ دیہاتوں میں لوگوں کو روزگار مل سکے اس سے بیروزگاری میں کمی ہوگی اور ڈیری ضروریات بھی پوری ہونگی ۔

ڈیری مصنوعات کو برآمد کرکے بہت پیسہ بھی کمایا جاسکتا ہے ۔ دیہاتوں میں خواتین دستکاری ، گھریلو سمال انڈسٹری کی تربیت دیکر لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کروانے کی ترغیب دینی ہوگی اور خواتین کوبھی تربیت دیکر برسرروزگار کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔اگر ہمارے ارباب اختیار و اقتدار فیصلہ کرلیں کہ ہم نے ہر چیز کو باہر سے منگوانے کی بجائے خود تیار کرنا ہے اور اپنی مصنوعات یعنی ”میڈ ان پاکستان “ کو فروغ دینا ہے تو ہم اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا بھی کرسکتے ہیں اور اس معاشی بحران سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل سکتے ہیں ۔

معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی شوبزنس انڈسٹری کوبھی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا تاکہ ہمیں ترکی یا کسی دوسرے ملک کے فلموں ،ڈراموں کو اپنے ٹی وی چینل پر دکھانے کی بجائے اپنے ڈرامے دکھائیں اور ہماری نوجوان نسل کے ہیرو بھی اپنے لوگ و اپنے کردار ہو ۔ کاش ہمارے ملک میں بھی معیاری پروڈکشن ہو، ایک دن آئے جیسے ہم ترکی کا ڈرامہ ارطغرل پی ٹی وی پر دکھا رہے ہیں کوئی پاکستانی ڈرامہ ترکی کے نیشنل ٹی وی چینل پر دکھایا جائے تو میرے لئے اصل خوشی کی بات اس دن ہوگی ۔ کاش میڈ ان پاکستان ہماری پہلی ترجیح بن جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :