وزیراعظم پاکستان کو خوابوں کا نیا جہا ں عوام کو دیکھانے کا ملکہ حاصل ہے اور اس فن کا بھرپور استعمال وہ الیکشن مہم سے لیکر اب تک کررہے ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے خوابوں کے جہاں آباد کرنے کے حوالے سے صورتحال کی عکاسی یوں کی تھی
پھر یوں ہواکہ نیند نہ آئی تمام عمر
دیکھا تھا اک خواب کبھی جاگتے ہوئے
وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی عوام کو جاگتی آنکھوں کے ساتھ دن کے اجالے میں حسین خواب دیکھاتے ہیں جن کی عملی تعبیر شاید خود ان کو بھی معلوم نہیں ہوتی ۔
14 اپریل کو لاک ڈاؤن ختم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ہونے والی قومی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد وزرا اور مشیروں کے ساتھ میڈیا بریفنگ میں بھی عمران خان نے اسی فن کا مظاہرہ بہت خوبصورتی سے کیا ۔
(جاری ہے)
انہوں نے اتنے بدترین حالات میں بھی قوم کو سب اچھے کا مژدہ جاں فزا سناتے ہوئے کچھ شعبوں کو کھولنے کا اعلان کیا اور کچھ حسب سابق بند رہیں گے ۔
یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلہ سے مزید کنفیوژن بڑھی ہیچونکہ وزیراعظم وہماری قیادت پہلے دن سے کنفیوژڈ ہے کہ کرنا کیا ہے ؟۔ تعمیراتی شعبہ و اس سے متعلقہ شعبوں کومکمل طور پر کھول دینے سے جو مسائل پیدا ہوں گے ان کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا ۔اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا جارہا کہ جب مزدورایک ساتھ کام کریں گے تو وہاں سوشل ڈیسٹنسگ (سماجی دوری )کیسے ہوگی ؟ملکی معیشت و سوشل ڈیسٹنگ کی پالیسی کو ساتھ ساتھ لیکر چلنے کا خواب باتوں کی حد تک تو بہت اچھا ہے مگر عملی طور پر شاید ممکن نہیں منیر نیاز ی صاحب نے کہا تھا
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لئے
ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بہت مشکل وقت ہے ایک طرف ملکی معیشت کی بقا کا سوا ل ہے تو دوسری طرف انسانی جانوں کی صحت وسلامتی کا چیلنج ہے ۔
ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی ہے ۔ قیادت کی قابلیت و صلاحیتوں کا صحیح پتہ مشکل حالات ،بحرانوں اورآزمائشوں میں لگتا ہے ۔عام حالات میں تو معاملات عام صلاحیتوں کے حامل افراد بھی چلا لیتے ہیں قیادت کی منفرد صلاحیتوں ،قوت فیصلہ یا ذہانت وقابلیت کا اندازہ بحرانوں کے دوران ہوتا ہے ۔اس مشکل وقت میں عمران خان نے قوم کو اُمید و حوصلہ تو اپنی تقریروں سے دیا ہے جو خوش آئند ہے قیادت کو یہی کرنا چاہئے اس کے ساتھ اگر ہم عملی اقدامات کا جائزہ لیں تو صورتحال اس کے برعکس و بہت مایوس کن ہے ۔
عمران خان صاحب اپنی ہر تقریر میں ایک ہی بات کرتے ہیں بقول ناصر کاظمی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
جوباتیں پریس کانفرنسز ،میڈیا ٹاک شوز میں حکومتی عہدیدران کی جانب سے بتائی جاتی ہیں عملی طور پر گراؤنڈ میں حالات اس سے مختلف ہیں ۔
زندگی خواب دیکھتی ہے مگر
زندگی زندگی ہے خواب نہیں
صرف عوام کو حسین وخوشنماخواب دیکھانے سے کام نہیں چلتا کچھ عملی اقدامات بھی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔
حکومتی عہدیدران اب تک اپنی کارکردگی بتانے کی بجائے ہر چیز کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر کرپشن ونااہلی کے الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں ۔حکومتی وزرا و معاونین خصوصی ،مشیران کی فوج ظفر موج کا کردار کوئی قابل ستائش نہیں ہے بلخصوص کچھ وزرا کی جانب سے جو سیاسی مخالفین کے لئے زبان استعمال کی جاتی ہے وہ قابل مذمت بھی ہے ۔سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس صاحب نے انسداد کرونا کے حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کرتے ہوئے سخت سرزنش بھی کی ہے ۔
حکومتی ٹیم ممیں اتنے زیادہ وزیروں ،مشیروں ،معاونین خصوصی کی موجودگی پر سوال بھی اٹھایا گیا ہے ۔ ڈاخکٹر ظفر مرزا کوفورا ہٹانے کے حوالے سے ریمارکس پر تجزیہ نگاروں و سیاسی قیادت نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے ۔ ہر ادارے کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرناچاہئے ،چیک اینڈ بیلنس جمہوریت کا لازمی جزو ہے مگر دوسروں کے کام میں مداخلت سے اداروں میں محاذ آرائی جنم لیتی ہے جو کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
ایسے بحران میں جس وقت قوم ساری سیاسی قیادت ،تمام اداروں کو کورونا کے خلاف جنگ میں ایک پیج پر دیکھنا چاہتی تھی مگر شومئی قسمت وہ پیج مل ہی نہیں رہا جس پر سب نے ایک پیج پر ہونا تھا ۔ ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی پوائنٹ سکورنگ کررہی ہے ۔ بلخصوص سندھ حکومت و وفاقی وزرا کی بیان بازی سے قومی یکجہتی کا خواب پارہ پارہ ہوا ہے ۔وفاق کو بڑا بھائی ہونے کے ناطے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام صوبوں کو ساتھ لیکر چلناچاہئے تھا بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔
صوبوں کوبھی وفاق کے فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے جس طرح کا تعاون کرنا چاہئے تھا اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی مرضی کے فیصلے کررہا ہے جو یکسانیت ہونی چاہئے تھی وہ نظر نہیں آرہی ۔کہنے کی حد تک تو قومی رابطہ کمیٹی میں فیصلے ہوتے ہیں مگر یاران نکتہ دان کے مطابق عملی طور ہر ایک نے ڈھیڑ اینٹ کی الگ مسجد بنائی ہوئی ہے
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ وزیراعظم عمران خان سے مسائل پر بات کرنے کی بجائے میڈیا ٹاک کرکے وفاق سے شکوے وشکایات کرتے نظر آتے ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری نے ایک غیر ملکی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وفاق سست ہے ۔جس کے جواب میں وفاقی وزرا فیصل واوڈا ،مراد سعید ،علی زیدی اور دیگر نے سندھ حکومت و پیپلزپارٹی قیادت پر تنقید کے نشتر برسائے ۔ کیا کسی مہذب ملک و قوم کی قیادت کا رویہ اس طرح کے بحران میں اس طرح کا ہوتا ہے ؟ جن ممالک کی ہم مثالیں دیتے ہیں کیا وہاں کی قیادت بحرانوں سے ایسے نمٹ رہی ہے ؟ رہی بات عوام کی تو عوام کی بڑی تعداد کی غیر سنجیدگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے بہت سے لوگ ماہرین و حکومت کی ہدایات کو سنجیدہ نہ لیتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے تھے ۔
منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اس بحران میں بھی خوب پیسہ بنایا ہے ۔انتظامیہ مہنگائی و ذخیرہ اندوزی کو روکنے میں ناکام ہوئی ہے ۔مختلف شعبوں میں مافیاز کی اجارہ داری ہے وہ اپنی مرضی کے ریٹس پر چیزیں بیچتے ہیں ریاست ان کے آگے بے بس ہے ۔ اب جبکہ آج سے کچھ شعبوں کو کھول دیا جائے گا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جزوی لاک ڈاؤن سے جو ہم کورونا کا پھیلاؤ روکنا چاہتے ہیں وہ ٹارگٹ ہم حاصل کرلیں گے اور ایک مخصوص حد سے زیادہ یہ نہیں پھیلے گا ؟ کیا کورونا بحران سے ہمارے اجتماعی رویے بہتر ہونگے ؟ کیا ہم ہجوم سے قوم بن سکیں گے ؟ کیا ہماری قیادت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر پر منڈھلاتے ہوئے خطرات کو سمجھ سکے گی ؟ کیا ہمارے قائدین ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ذاتی وجماعتی مفادات کو پس پشت ڈال دیں گے ؟ کیا کورونا بحران سے نمٹنے کے لئے ہم حکمت و تدبر سے نقصان کو کم سے کم کرسکتے ہیں ؟ کیا ہم ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں کہ معاشی نقصان بھی کم سے کم ہو اور انسداد کورونا اقدامات بھی ساتھ جاری رہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں و قائدین میں سوائے باتیں کرنے کے عملی اقدامات میں وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی ۔
یہ وہ چند خواہشات و خواب ہیں جو ہر پاکستانی دیکھتا ہے مگر بقول شاعر
بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں
کچھ خواب میرے عین جوانی میں مرے ہیں
اکثر تجزیہ کاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ قوم کو تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔قوم کی تربیت کیسے ہوگی جب ہمارے قائدین کو خود ابھی تربیت کی ضرورت ہے ۔ہم نے کورونا بحران سے کیا سیکھا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ۔
کیونکہ ہم سیکھنے ،سمجھنے کے موڈمیں نہیں ہیں ۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
رہی بات وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تو وہ اپنی شخصیت کے سحر سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلیں ۔اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں اور شہباز شریف ،بلاول بھٹو و دیگر اپوزیشن قائدین کو بلائیں اور وسیع تر مشاورت کے ساتھ اقدامات کریں اور پوری قوم کو ایک پیج پر لائیں ۔
اپوزیشن لیڈر شہبا زشریف یا دوسرے قائدین کے پاس کوئی متبادل تجاویز نہیں ہیں وہ بھی صرف حکومت مخالف بیانات پر اکتفا کررہے ہیں ۔
جوجو صدمے ہم پر گزرے کیسے ان کا بیان کریں
کونسا داغ نکال کے دل سے ثبت سر دیوان کریں
قومی اتحاد اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے سیاستدان اعلی ظرفی کا مظاہرہ نہ کریں اور ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو پہلی ترجیح نہ بنائیں ۔
جب قائدین ایک ایجنڈہ پر متفق ہونگے تو سوشل میڈیا پر کارکنوں نے جوطوفان بدتمیزی مچایا ہوا ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا اور تقسیم در تقسیم کی بجائے اتفاق ،اتحاد اورنظم وضبط کا عملی مظاہر ہ نظر آئے گا ۔مگر جن لوگوں نے قوم کو خواب غفلت سے جگانا تھا ان کا اپنا حال یہ ہے بقول سلیم کوثر ہماری سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے
کہانی لکھتے ہوئے داستان سناتے ہوئے
وہ سوگیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
کسی بھی ہنگامی حالات ،بحران کا مقابلہ قوم کرتی ہے حکومت یا کوئی ایک ادارہ کسی بحران سے اکیلے نہیں لڑسکتا ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ۲۲کروڑلوگوں کو ہجوم سے قوم بنائیں ۔
رہ گئی بات عوام کی تواس میں اکثریت کایہ حال ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھ کر بوریت کا رونا رو رہے ہیں پہلے وقت نہ ملنے کا رونا روتے تھے آجکل بوریت کا رونا روتے ہیں اور تنہائی سے تنگ آئے ہوئے ایک دوست نے کل سوشل میڈیا پر افتخار عارف صاحب کایہ شعر پوسٹ کیا ہوا تھا
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کے مرجانے کو جی چاہتا ہے
کورونا وبا کی وجہ سے جب ہر کوئی دور بھاگ رہا ہے اب تو کوثر نیازی صاحب کے وہ شعر یاد آتے ہیں کہ
جب زیست کے مشکل لمحوں میں اپنے بھی کنارا کرتے
اس وقت بھی ہم اے اہل جہاں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
صیاد نے تیرے اسیروں کو آخر یہ کہہ کر چھوڑ دیا
یہ لوگ قفس میں رہ کر بھی گلشن کا نظارا کرتے ہیں
جذبات میں آ کر مرنا تو مشکل سی کوئی مشکل ہی نہیں
اے جان جہاں ہم تیرے لیے جینا بھی گوارا کرتے ہیں
منجدھار میں ناؤ ڈوب گئی تو موجوں سے آواز آئی
دریائے محبت سے کوثر# یوں پار اتارا کرتے ہیں
اگر کورونا بحران صرف ہم نے یہ سیکھ لیا کہ ہم اختلافات کو بھلا کر اتفاق و اتحاد پیدا کرلیں تو یہ زحمت ہمارے لئے رحمت بن سکتی ہے ۔
یہ آزمائش ہمارے لئے ایک کامیابی کا موقع بن سکتی ہے ۔اس مشکل وقت سے ہم آسانی سے نکل بھی آئیں گے اور انشاء اللہ پاکستان ترقی بھی کرے گا ۔
کوئی یوسف نہیں اس شہر میں تعبیر جودے
خواب آتے ہیں زلیخاکومسلسل کیا کیا
اگر کورونا بحران بھی ہمیں اکٹھا نہ کرسکا اگر ہم نے اب بھی اپنی پرانی روش نہ چھوڑی ۔اگر ہم نے اس بحران سے بھی کچھ نہ سیکھا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے ۔
پھر ہمارا مقدار صرف خوابوں کی دنیا ہی ہے اس خوابوں کی دنیا میں ریت کے محلات بنائیں یا دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم بن جائیں مگر عملی طور ممکن نہیں ہوگا ۔ اب یہ فیصلہ ہم نے بحثیت قوم کرنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے ایک ترقی یافتہ مہذب قوم یا ایک ہجوم جس کی نہ کوئی منزل ہے ،نہ رستہ ،نہ رہبر ورہنما ،نہ ہی منزل تک پہنچنے کی جستجو کرنے والے مسافر ۔
۔۔تو ایسے ہجوم کا انجام کیا ہوگا وہ سب کو معلوم ہی ہے ۔۔۔۔۔سب سے بڑی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان وسیاسی جماعتوں و مقتدر اداروں کے سربراہوں کی ہے کہ وہ قوم کی منزل کا تعین کریں اور درست رستہ بھی دیکھائیں ۔ منزل تک پہنچنے کا زادرہ بھی بتائیں
اب بادہ ومینا سے کہاں بجھتی ہے دل کی
لا ساقی تیرے پاس کوئی شعلہ اگر ہو