خوشامد

منگل 18 فروری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

وطن عزیز میں یہاں ہر فن زوال کاشکار ہے وہاں ایک فن ایسا بھی ہے جودن دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہاہے وہ فن ہے” فن خوشامد“ ۔خوشامد کا تفصیلی وتنقیدی جائزہ لیتے ہیں کیونکہ ہم نے بظاہر خوشامدی کوناکام ہوتے نہیں دیکھا ۔خوشامد کی ”انوسٹمنٹ“ بہت کم رائیگاں جاتی ہے ۔یہ نسخہ ہر شعبہ حیات میں استعمال ہوا ہے لیکن اس تیر بہدف نسخے کواستعمال کرنے کافن ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔

کیونکہ خوشامد ایک ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر ہدف پر پہنچتا ہے ۔فن خوشامد کا ماہر،ہر دور میں سرخرو رہا ہے اور سچ اکثر سرنگوں رہتا ہے اور وقت گزرنے کے بعد حق غالب آبھی جائے تو وہ تاریخ کی کتابوں میں آئندہ نسلوں کے پڑھنے کے لئے ہوتاہے ۔خوشامدیوں کے بارے میں شاعر نے بلکل درست کہاتھا
سوکام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھوجسے دنیامیں خوشامد کا ہے بندہ
چند خوشامدیوں نے تو آجکل ”خوشامد“ کے فن کو جلا بخشتے ہوئے اسے ایک کاروبار کا درجہ دے دیا ہے چنانچہ اب فن خوشامد نئے کاروبار کے طور پر ابھر رہا ہے ۔

(جاری ہے)

قومی سطح سے لیکر آپ کو گلی محلے میں ہر جگہ یہ خوشامدی ٹولہ ،بندہ یابندی ضرور نظر آئے گی ،اس خوشامدی ٹولے کا نعرہ بقول شاعر یوں ہے
خوشامد بڑے کام کی چیز ہے
زمانے میں آرام کی چیز ہے
خوشامد پر کچھ خرچ نہیں آتا
خوشامد کے سودے میں گھاٹا نہیں
 خوشامد کرنا ہر ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ تو وہ صلاحیت ہے جو برسوں ریاضت کرنے اور ٹھوکریں کھانے کے بعد حاصل ہوتی ہے جیسے نقل کے لئے عقل کا ہونا ضروری ہے اسی طرح خوشامد کے لئے بلا کی فہم ودانش درکار ہوتی ہے ۔

ماتھے پڑے ہوئے بل ،آبرو کے ہلکے سے ہلکے اشارے ،آنکھوں میں جلتی بجھتی شمعوں اور غیر محسوس طور پر پھیلتے سکڑتے لبوں کی تحریر پڑھنے والا ہی اس مقام بلند کا حقدار بنتا ہے جسے ”خوشامدی “ کہتے ہیں ۔جن لوگوں کو یہ فن نہیں آتا اور ان کے مزاج میں جی حضوری نہیں ہوتی وہ بے ادب و گستاخ ٹھہرا کر رندہ درگاہ کردئیے جاتے ہیں ایسے زندہ ضمیرلوگوں کی نمائندگی شاعر نے یوں کی ہے
منصب تو ہمیں بھی مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی
یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی ،بس اتنی سی مجبوری تھی
جگر مراد آبادی یوں گویا ہوئے تھے
تری دوری وحضوری کا یہ ہے عجیب عالم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
کچھ لوگ اپنا سچ لیکر سنانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں صائم جی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے
نہیں سننا کسی نے شعر کوئی
یہاں پر جی حضوری چل رہی ہے
شہرہ آفاق اطالوی اہل قلم Albien Count Yittonio نے اپنی کتاب Lella Ummide میں لکھا ہے ”استبداد نے غلام قوموں کو یقین دلا دیا ہے کہ حقوق مانگنے والے ”مجرم “اور حقوق چھوڑنے والے ”وفادار“ ہیں ،مظلوم اگر شکایت کرے تو”مفسد “ہے ،ذہین اور بیدار مغز” ملحد“ ہے ،سست وناکارہ متدین ہے ،نصیحت یا وہ وہ گوئی ہے ،غیرت ”عداوت“ ہے ،خودداری’سرکشی “ہے ،حمیت ”دیوانگی“ ہے ،انسانیت ”حماقت “ہے ،رحم وکرم’ بیماری“ ہے ،ریا اور منافقت ”تدبر“ ہے ،مکاری” دانائی“ ہے ،دناعت لطف ہے ،اور خوشامد” اخلاق “ہے ۔

“ ایسے عہد میں سب سے بڑی خامی یہ متصور ہوتی ہے کہ آپ کوخوشامد نہ آتی ہو،آپ میں عزت نفس موجود ہو۔مشہور زمانہ شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں ”خوشامد کی قینچی عقل وفہم کے پر کاٹ کر انسان کوآزادی پروا ز سے محروم کردیتی ہے ۔خوشامدیوں میں گھرا ہواانسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معزور ہوتا ہے ۔رفتہ رفتہ اس کے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا ،سنتا ،بولتا،سونگھتا و محسوس کرتا ہے ،جو چاپلوسی ٹٹو چاہتے ہیں ۔

جو خوشامدی کیڑے کوکون کی طرح گھس کر اس کے وجود میں پلتے رہتے ہیں ۔جس سربراہ مملکت کی کرسی کو خوشامد کی دھیمک لگ جائے وہ پائیدار نہیں رہتی ،اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اس کی رائے دوسروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے ۔سر سید احمد خان نے کہاتھا ”دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگناہے ،اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی آپ خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کواچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کرکے اپنے دل کوخوش کرتے ہیں ۔

پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم پر اثر کرنے لگتی ہے ۔اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول توخود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے پھر یہی محبت ہم سے باغی ہوجاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جاملتی ہے اور جومحبت ومہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے تھے وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت کویہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کوایسا سمجھتے ہیں اور ان کی اس قدر ،قدر کرتے ہیں تو ہماری عقل خوشامدیوں کے مکروفریب سے اندھی ہوجاتی ہے اور مکروفریب ہماری بیمار طبیعت پر بلکل غالب آجاتاہے ۔

اگر ہر شخص کویہ بات معلوم ہوجائے کہ کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق و کمینہ خصلتوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقیناخوشامد کی خواہش کرنے والاشخص ویسا ہی نالائق ،کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ایسے لوگ بھی ہیں جو خوشامد وچاپلوسی سے متاثر نہ ہونے کے دعوے دار ہیں اور جونہی ان کی کسی خوبی کا ذکر ان کے منہ پر کیاجائے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اگر کبھی ہم اپنے آپ کو یقین دلا بھی دیں کہ ہمیں خوشامد پسند نہیں توغور کرنے پر معلوم ہوگاکہ وہ توصرف خوشامد کا محض ڈھونگ تھاجو ہمیں موقع کی نزاکت کے پیش نظر پسند نہیں آرہاتھا“۔

اگر ہم تاریخ میں جھانکیں توبرصغیر کے بادشاہ اور راجا مہاراجہ اپنی فوج اور دربار کی وجاہت میں اضافے کے لئے قسم قسم کی چیزیں پالاکرتے تھے ۔ان میں ہاتھیوں وشیروں کے شہ زور ،بہادر سپہ سالار ،پہلوان ،گوئیے ،سیاسی وفوجی مشیر ،شاعر اور دین ودنیاکا علم رکھنے والے ماہربھی شامل ہوتے تھے ۔بادشاہوں کے مزاج کے بارے میں یہ بات عام رہی ہے کہ ۔

گاہے بسلامے دگاہ بہ شنامے خلعت بہ ہند ۔چنانچہ قصیدہ پڑھتے ہوئے بھی دربار میں درباریوں کی نگاہیں فرش سے اوپر اٹھنے کی جرات نہیں کرتی تھیں ۔دربار کے ہر وزیر ،مشیر ،گلوگار ،مسخرے یا قصیدہ گو کے لئے ضروری ہوجاتا تھا کہ زندگی بھر ایک ہی آقا کی خوشنودی طبع کی زنجیر اپنے گلے میں ڈالے رہے ۔ان خوش بخت درباریوں میں سے اگر کوئی درباری کسی وقت بادشاہ کی نظروں سے گرگیاتوپھر اس کے لئے دنیاتاریک ہوگئی اور وہ ہر در سے دھتکارہ گیا ۔

چنانچہ اس فن کی کامیابی یہی تھی کہ جس آقا کو ایک دفعہ شیشے میں اتارا ہے ،اسے زندگی بھر شیشے سے باہر نہ نکلنے دے ۔آج کل بادشاہوں کا دور تو نہیں رہا لیکن کیونکہ بڑھتی ہوئی انا اور تکبر کی فضا کی وجہ سے ہر شخص اپنے آپ کوبادشاہ سمجھنے لگا ہے ۔چنانچہ ایسے لوگوں کی شاہانہ فطرت کی تسکین کے لئے معاشرے میں بہت سے خوشامدی و مدح سرائی کرنے والے بھی پیدا ہوگئے ہیں ۔

اور یہ خوشامدی اپنے اسی فن کی بدولت جاہ ومنصب حاصل کرتے ہیں اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا بنظر غائر جائزہ لیں تو زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سر بر آوردہ اور طاقتور لوگوں کے نام ذہن میں لائیں تو ان میں سے کتنے ہیں جوقابلیت ،صلاحیت ولیاقت ،فہم وفراست اور میرٹ کے بل بوتے پر اس مقام پر پہنچے ؟ وہ معاشرے میں محترم المقام کیسے بنے ؟کتنے لوگ ایسے ہیں جو کسی گٹھ جوڑ ،ہیراپھیری ،ضمیر فروشی ،محض چاپلوسی ،بدعنوانی یا محض کسی ”سیاسی حادثے “اور اس حادثے کے ساتھ ”خاندانی رشتے “ کی بدولت شریک اقتدار بنے ؟ کتنے اس وقت کے ارباب اختیارو اقتدار کے تلوے چاٹ کر ،خوشامد کرکے اقتدار کی راہداریوں تک پہنچے ؟ اگر ہم اردگرد نظر دوڑایں توکتنے لوگ ایسے ہیں جولابیوں ،دھڑوں ،برادریوں اور مذہبی فرقوں کے سہارے آگے بڑھنے کی گیم کھیلنے کے ماہر ہیں ؟ قومی سطح سے لیکر معاشرتی سطح تک خوشامدی ٹولے اپنی گیم کھیلتے نظر آتے ہیں ۔

اسی طرح کا حال ہمارے اکثروبیشتر دفتروں کاہے دفتروں میں کچھ لوگوں کا کام صرف ”باس “کی مدح سرائی وخوشامد کرنا ہوتا ہے یہ افسر کے قریب ہوتے ہیں اور افسر کی ساری نوازشات ومہربانیاں بھی اسی مخصوص خوشامدی ٹولے پر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سے حقداروں کوانکا حق نہیں ملتا ۔میرٹ کی پامالی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ اس خوشامدی ٹولے نے باس کوشیشے میں اتارا ہوتا ہے اور اس شیشے میں باس کوان کے سوا کسی میں قابلیت واہلیت نظر نہیں آتی یا جوں کہہ لیں باس تجاہل غافلانہ برتتا ہے ۔

یہی حالات قومی سطح پر نظر آتے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے سربراہ اور اس کے خاندان کی مدح سرائی وخوشامد کرتے ہوئے اعلی مناصب حاصل کرتے ہیں ۔یہ نام نہاد قائدین سارے ٹی وی چینلوں پر اپنے قائدین پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کومسترد کرکے انہیں قوم کا حقیقی مسیحا ثابت کرتے ہیں ۔ اگر ان کی جماعت کی حکومت ہو توجو وزیر ،وزیراعظم کی مدح سرائی میں نمبر لے گا اس کوسب سے اچھی وزارت و انعام کاحقدار ٹھہرے گا ۔

آج کل ایک اور میرٹ بھی ملحوض خاطر رکھاجاتاہے جو وزیر مخالفین کو زیادہ رگڑا دے ،تلخ زبان استعمال کرے ،گھٹیاالقابات دے و دشنام طرازی میں ساری اخلاقی حدود کراس کرجائے وہ بادشاہ سلامت کے سب سے قریبی مصاحبین میں شامل ہونے کاصحیح مستحق قرار پاتا ہے ۔اور یہ وزرا ،مشیر ان کی فوج ظفر موج پھر اپنی جماعت کے سربراہ کو اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ اپنی من مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں ۔

یہ سلسلہ اوپر سے لیکر نیچے تک ایسے ہی چلتا ہے۔بین الااقوامی تناظر میں دیکھیں تو عالمی سربراہوں کے اجلاس میں طاقتور ممالک مثلاصدر امریکہ ،روس وچین کی ترقی پزیرممالک کے سربراہان ایسے خاطر مدارت کرتے ہیں جیسے وہی مائی باپ ہو ں۔اس کوہم کہہ سکتے ہیں وہ اپنے لیول پر خوشامد کررہے ہوتے ہیں تاکہ ان سے قرضہ ومالی فوائد حاصل کرسکیں ۔جب حالات انگڑائی لیتے ہیں تو یہ خوشامدی اتنے ذہین وموقع پرست ہوتے ہیں کہ جس جماعت کواقتدار ملنے کا چانس ہویہ اس جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں پھر اس جماعت کے سربراہ کی مدح سرائی میں قلابے ملاتے ہوئے ایسے دنیاکا سب سے بڑا مسیحا ثابت کردیتے ہیں ۔

تاریخ کی کتابوں کا جائزہ لیں تو ایسے درباری وخوشامدی ہر دور میں موجود رہے ہیں شیخ مبارک اور اس کے بیٹوں نے القابات کے ذریعے مغل بادشاہ اکبر کو باقاعدہ مہدی موعود بنادیاتھا اور دربار کے دوسرے خوشامدیوں نے اسے یہ باور کرادیاتھا کہ وہی صاحب زماں ہے کیونکہ اس میں مہدی کی بڑی نمایاں علامات موجودہیں ۔ابوالفضل نے مہابھارت کے مقدمے میں اکبر کو”خلیفةاللہ “تک لکھاہے ۔

درباروں سے وابسطہ کچھ علما ایسے تھے جواپنے عہد کے فرمانرواؤں کوظل اللہ فی العالمین ،ظل یزدانی ،ظل اللہ فی الارض ،سایہ یزدان پاک اور دین پناہ کے القاب سے یاد کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے تھے اور یہ ایسے حکمرانوں کے لئے بھی استعمال کرتے تھے جن کی نجی زندگی بہت خراب ہوتی ۔حضرت مجدد الف ثانی  ایسے علماء کو”علمائے سو“ کے نام سے یادکرتے تھے ۔

درباروں کی رونق بڑھانے والے یہ ”ارباب فن خوشامد“ صرف مذہبی علماپر شامل نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں سیاسی داؤ پیچ بتانے والے دانشور اور نورتن بھی تھے ۔قصیدے پڑھ کر بادشاہ کے اعتماد کوبحال رکھنے والے شعرا بھی تھے ،گلوکار بھی تھے ،بادشاہ کے خرمن دین ودنیا پر بجلی بن کر گرنے والی رقاصائیں بھی تھیں ۔ہر دور کے حکمرانوں کوفیضی و ابوالفضل مل ہی جاتے ہیں مگر یہ پیدا اس وقت ہوتے ہیں جب ان کی سرپرستی کرنے والا اکبر میسر ہوتا ہے ۔

مگر ان خوشامدیوں و ابن الوقت لوگوں کوچیلنج کرنے والے ،حاکم وقت کے سامنے حق وسچ کہنے والے بھی موجود ہیں جن کوتاریخ سنہری حروف میں یاد کرتی ہے جن لوگوں نے مصلحت کوشی نہ کی بلکہ حق وسچ کا علم ہر حال میں بلند کیا جن لوگوں نے معرفت راز کربلا کا عملی ثبوت دیا بقول شاعر
آسان نہیں ہے معرفت راز کربلا
دل حق شناس دیدہ بیدار چاہئیے
آتی ہے کربلا سے یہ آواز آج بھی
ہاں حق کااعتراف سردار چاہئے
جوزندگی کے رخ سے الٹ دے نقاب کو
وہ بے خودی ،وہ ہوش ،وہ پندار چاہئے
نظریہ کوضرورت اور ضرورت کو نظریہ میں تبدیل کرنے کی غرض سے ایک دفعہ خلیفہ منصور نے امام مالک ،ابن ابی ذوہیب اور امام اعظم ابوحنیفہ  کو بلا کر اپنی خلافت کے بارے میں پوچھا ۔

امام ابوحنیفہ  نے رائے دیتے ہوئے فرمایا ؛” آپ نے ہمیں رضائے خداوندی کے لئے جمع نہیں کیابلکہ آپ لوگوں کویہ بتاناچاہتے ہیں کہ تینوں اہل علم میرے حسب مرضی فتوی دیتے ہیں ،خواہ ڈر کے مارے ہی کیوں نہ ہو،آپ خلیفہ توبن گئے ہیں مگر آپ کی خلافت پر دوصاحب فتوی عالم بھی جمع نہیں ہوئے حالانکہ خلافت مومنین کے اجماع و مشورہ سے قائم ہوتی ہے “ ۔

پروفیسر وارث میر اپنی کتاب ”فلسفہ خوشامد،درباری صحافت وسیاست “ میں لکھتے ہیں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر سچا دانشور ،لکھاری ،صحافی ناقد جس نے باغیانہ روش اپناتے ہوئے اپنے دور کے مروجہ دقیانوسی نظام اور اس کے پس پردہ کرداروں کاچہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی اسے جواباہر طرح کی مخالفت ،مشکلات اور حتی کہ فتوؤں کابھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس امتحان میں سرخرو ہی اہل دانش گردانے گئے جواپنے موقف کی سچائی پر قائم رہے اور اس جدوجہد میں اپنی جان سے گزر گئے ۔

کسی بھی قوم کی ترقی وتنزلی میں اس کے اہل علم ودانش کا کردار بنیادی حثیت کاحامل ہوتا ہے ۔یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کوسمجھنے ،قوموں کے عروج وزوال کے اسباب پر نظر رکھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہواسی قدر وہ قوم ترقی کی منازل آسانی سے طے کرتی ہے ۔لیکن جس قوم کا یہ طبقہ غافل ہوجائے یا اس کی ادائیگی سے پہلوتہی کرے ،اسی قدر اس قوم کے زوال کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔

ریت کی بنیادوں پر تاج محل تعمیر ہوبھی جائیں تو بہت جلد زمین پر آرہتے ہیں ۔وارث میر اپنی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ایسے کئی دانشور شاعر یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنے حکیمانہ شعروں وتحریروں کے ذریعے خلق خدا و خلق خدا پر حکومت کرنے والوں کویہ سمجھانے کی کوشش کہ ہے کہ بعض اوقات حالات کا جونقشہ ظاہری انسانی آنکھ کونظر آتاہے وہ ظاہر ی آنکھ کافریب ہوتا ہے اس نظارے کے پیچھے حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ۔

اس موضوع پر ولیم ورڈزورتھ نے بھی ایک نظم لکھی ہے ۔بعض کلاسیکی تخلیقات کا تجزیہ کرتے ہوئے جدید ادبی نقادوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ان عظیم شہ پاروں میں ،جومناظر و کردار فطری نظرا ٓتے ہیں وہ دراصل غیر فطری ہوتے ہیں مثلا شکسپئیر کے ہملٹ ،کنگ لئیر ،میکبتھ ،اور اوتھیلومیں جومناظر غیر فطری خاموشی اور استحکام کا تاثر دیتے ہیں ،دراصل کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتے ہیں ۔

مگر سوال پیدا ہوتا ہے پاکستان میں عوام کی جنگ لڑنے والے قلم کار کہاں ہیں ؟ پاکستان میں لکھنے والے حساس قومی مسائل اور ملک کے مستقبل کے بارے میں لاتعلقی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں ؟وہ کسی مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کرتے ؟ وہ بے حس کیوں ہوگئے ہیں ؟ وہ کسی اصول ،کسی قدر ،کسی دل کوٹوٹتے ہوئے دیکھ کر ردعمل کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ یہ دانشور اتنے بے فکرے ولاپرواہ کیوں ہیں ؟ اوپر سے لیکر نیچے تک سب جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ سب مصلحت کوشی کا شکار کیوں ہیں ؟ رشوت ستانی ،بدعنوانی ،دھاندلی ،ناانصافی ،جہالت ،جعل سازی ،ملاوٹ ،اقدار کی پامالی پر خاموشی کیوں ہے ؟ رہ گئے بیچارے صحافی تو پاکستان کے صحافی قلم کار نہیں قلم بردار ہیں ۔

رہی بات الیکٹرانک میڈیا کی تو انہیں بریکنگ نیوز سے فرصت نہیں ۔میڈیا مالکان کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں وہ مخصوص لوگوں ،پارٹیوں کی خوشامد کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ان کے ادارے میں کام کرنے والے صحافی اپنے مالکان کی چاپلوسی میں ایک دوسرے سے چار قدم آگے بڑھ کر چاپلوسی کرتے ہیں کہیں وہ پیچھے رہ کر مالکان کی بارگاہ سے انعام واکرام سے محروم نہ رہ جائیں ۔

پاکستان کی سیاسی و صحافتی تاریخ بھری پڑی ہے کہ یہ نام نہاد دانشور جانے والے کی مذمت کرتے ہیں اور آنے والے کے قصیدے پڑھنے میں کوئی قصر نہیں رہنے دیتے ۔تاریخ شاہدہے کہ بیوروکریسی وغرض مند رفقائے کار اور مشیروں نے برسر اقتدار ”باس “کو ہمیشہ یہ یقین دلایا کہ عوام کے دلوں پر ان کی حکمرانی ہے اور وہ ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں اور ان جیسا قابل ودیانتدار دنیامیں اور کوئی نہیں ہے ۔

ایسے لوگ اس فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور چمچہ گیری کی اصطلاع شاید ان لوگوں کے لئے ہی ایجاد ہوئی ہے ان کا مشن بس چمچہ گیری ہوتا ہے
سب چھوڑدے دھندے تخریبی کچھ کام زرا تعمیری کر
کچھ اور نہیں تویار میرے اس دور میں چمچہ گیری کر
ان چمچہ گیروں کی خوشامد و مدح سرائیوں میں ”باس “کرشن ادیب کی یہ نصیحت بھی بھول جاتے ہیں
وقت اس سے چھین لے گا خود پسندی کا غرور
ہاں یقینا وہ خدا بن کر بہت پچھتائے گا
ہمارے جیسے خو د پسندوں کے معاشرے کی عکاسی عین تابش نے یوں کی ہے
خود پسندی کا عجب وہم تھا سب پر طاری
جیسے کوئی بھی کسی کا نہ یہاں ثانی تھا
سیاسی و مذہبی جلسے جلوسوں ، الیکشن مہم میں بلخصوص اپنے قائدین کی جو چاپلوسی و خوشامد کی جاتی ہے شاید اس کی مثال دنیامیں کہیں اور نہیں ملتی ۔

گلاپھاڑ کر لاؤڈ سپیکر پر چلانا ،مصروف چوراہوں پر ،نمایاں عمارتوں پر فلیکس ،بینرز ،دیواروں پر وال چاکنگ ،خوش آمدید کے بینرز سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے ملک میں چاپلوسی کلچر و باس کی نظر میں تابع وفرمانبردار ثابت کرنے کی روش کتنی سرایت کرچکی ہے ۔کرپٹ سیاستدانوں کو پارسا ثابت کرنا ،رائی کا پہاڑ بنانا ،بے پرکی اڑانا ،گرفتاریوں پر ماتم کرنا اور رہائی پر جشن منانا وغیرہ سب خوشامد کی نشانیاں ہیں ۔

ان خوشامدیوں کی خوشامدانہ پالیسیوں پر عمل کرنے سے حکمرانوں کا بوریا بستر جلد گول ہوجاتا ہے بقول بشیر بدر
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے
جس ڈال پر بیٹھے ہووہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
اور بہت سے باس ان خوشامدیوں کے نرغے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ
آسمان اتنی بلندی پہ جواتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمین سے ہی نظر آتاہے
جب یہ اقتدار سے ہٹتے ہیں تو یہی افسران و ابن الوقت سیاستدان ،صحافی ،نام نہاد دانشور خوشامدیوں کا ٹولہ آئندہ حکمرانوں کے استقبال کے لئے ،جانے کی تیاری کرنے والوں کے بارے میں لطائف کی تیاری بیان کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

سیاست دانوں نے ہٹلر کے جوزف گوئبلز کوپروپیگنڈہ کے فن کا سب سے بڑا مام قرار دیا ہے کہاجاتا ہے کہ ہٹلر کی کامیابیوں اور عوام میں مقبولیت کی ایک بڑی وجہ منظم پروپیگنڈہ تھا ۔پروپیگنڈہ کی اس ٹیکنیک کا ذکرہٹلر نے اپنی کتاب ”میری جدوجہد “ میں یوں کیا ہے ”عوام کی جتنی زیادہ تعداد کومتاثر کرنامقصود ہو،پروپیگنڈے کی ذہنی سطح اتنی ہی پست ہونی چاہئے “۔

محض پروپیگنڈے کے زور پر چلنے والی حکومت کوایسے لوگوں کی ضرورت رہتی ہے جوبے مغز فقرہ بازی کر کے عوام کو سبزباغ دکھاتے رہیں اور ان کی گفتگو میں کہیں بھی دلیل ومنطق کی جھلک نظر نہیں آتی،یہ حقیقت پسندی سے کوسوں دور خیال پسندی میں عوام کوالجھا دیتے ہیں ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے سفید جھوٹ کا دریا جتنی جلدی چڑھتا ہے اتنی ہی جلدی اتر بھی جاتا ہے اور دریاکے اترنے کے بعد یکطرفہ پروپیگنڈہ کی غلیظ دھجیاں کیچڑ میں بکھری پڑی آتی ہیں ۔

قصہ مختصرا! اس خوشامد کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں جن میں معاشرے میں ناانصافی و کام چوری کی عادت عام ہوتی ہے ،عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتاہے ،ملک ومعاشرے کی ترقی رک جاتی ہے ،یہ معاشرے کو دھیمک کی طرح کھاجاتی ہے ، میرٹ کی پامالی ہوتی ہے ،قابل وایماندار لوگ کھڈے لائین پر ہوجاتے ہیں ،نالائق و نااہل لوگ اہم عہدوں پر آجاتے ہیں ۔معاشرے پستی کی طرف جانا شروع ہوجاتا ہے ۔

شمیم ترمذی کہتے ہیں کہ جھوٹ ہر دور میں روپ بدل بدل کر اپنے جوہر دکھاتا رہاہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔بس آج کا جھوٹ قدرے سائینٹفک ہوچکا ہے ۔انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی جھوٹ و سچ میں ٹکراؤ ہوا جھوٹ ہمیشہ ہا رالیکن یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ نے کبھی اپنی ہار تسلیم نہیں کی ،اس نے کبھی سچ کے سامنے وقتی طورپرگردن نہیں جھکائی مگر آخری فتح حق و سچ کی ہوتی ہے ۔

یہ اجتماعی نہیں انفرادی سطح پر ہے آجکل رشتوں کا ایک روپ مطلب پرستی بھی ہے یہ ذاتی زندگیوں میں بھی ہے جب تک کٹھ پتلی کی طرح جی حضوری کرتے رہوتو سب ٹھیک ہے ورنہ رشتہ کچے دھاگے کی مانند ٹوٹ جاتا ہے ۔بقول پیارے دوست احمد حماد
برف پر خاک کے جالے نہیں اچھے لگتے
ذہن پر خوف کے تالے نہیں اچھے لگتے
ریت تھکتے ہوئے قدموں کا بُرا مانتی ہے
دشت کو پاؤں کے چھالے نہیں اچھے لگتے
روزِ آئندہ میں ڈھل جا میرے بیتے ہوئے دِن
مُجھے ماضی کے حوالے نہیں اچھے لگتے
اس کا کہنا ہے چراغوں پہ قناعت کر لو
اور مجھے زرد اُجالے نہیں اچھے لگتے
تیرے حمّاد کو لوگوں نے بتایا ہی نہ تھا
شاہ کو بولنے والے نہیں اچھے لگتے
 یہ ہر دور کا المیہ رہا ہے کہ حق و سچ کی بات کرنے والے برسر اقتدار طبقے کواچھے نہیں لگتے ۔

لیکن کیا ہے کہ
بے حسی شرط ہے جینے کے لئے
اور ہمیں احساس کی بیماری ہے
کسی مغربی دانشور کا قول ہے کہ ریاستیں نیکی ،جذبے اور ذہین عوام کے بل بوتے پر قائم ہوتی ہیں اور تب تباہ ہوتی ہیں جب اہلیت وقابلیت کی بجائے خوشامد وچاپلوسی معیار بن جاتی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خوشامدی ٹولے سے جان کیسے چھڑوائی جائے تواس کا سب سے آسان حل ہے کہ حق و سچ کا ساتھ دیا جائے ۔

عموما لوگ سچے لوگو ں کا ساتھ کسی بڑے ظالم کے ڈر سے نہیں دیتے ،جوکہ کمزور ایمان کی نشانی ہے ۔جب تک ہم اجتماعی مفاد کو مدنظر نہیں رکھیں گے ہمارا معاشرہ ایسے ہی خوشامدپسندوں ، بدمعاشوں ،عیاروں ،چوروں ،عیاش لٹیروں ،نالائقوں و نااہلوں کے ہاتھوں یر غمال بنا رہے گا۔حدیث مبارکہ ہے کہ جب کسی نے قرآن پڑھا اور تفقہ فی الدین حاصل کیا ،پھر بادشاہ کے دروازے پر اس کی چاپلوسی کی اور (اس کے ) مال کے لالچ میں آیا تو وہ بادشاہ کے گناہوں کے برابر دوزخ کی آگ میں گھسا ۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ ایک دوسرے کی خوشامد وبے جاتعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :