کیا سرعام سزائے موت مسئلہ کا حل ہے؟

پیر 21 ستمبر 2020

Awais GILANI

اویس گیلانی

 آۓ روز معاشرے میں بڑھتے ہوے عورتوں، بچیوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کے واقعات میں بےحد اظافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی پچھلے کیس میں کوئ خاص پیش رفت ہوتی نہیں کہ نیاکیس سامنے آ جاتا ہے
لیکن موٹروے کے اس المناک واقعے نے قوم کو یک زبان کر دیا ہے۔ بس بہت ہوگیا۔ اب ہمیں معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنا ہو گا۔ آج ملک کی سماجی،  معاشی،  شوبز،  حکومتی،  دینی،  تعلیمی ساری تنظیمیں اور ملک کا ہر شخص یہی مطالبہ کر رہا ہے کہ بس اب اور نہیں۔

  معاشرے سے اس گندے کیڑوں کو ختم کرنا ہو گا۔  
اب لوگوں میں ایک خوف کی فظا ہے۔ کوئ عورت، لڑکی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہی۔ لوگوں کامطالبہ ہے کہ ان مجرموں کو سرعام چوراہوں پر عوام کے سامنے لٹکایا جاے۔ 
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسی سزائیں دے سکتے ہیں؟  
ابھی ایک انٹرویو میں وزیراعظم پاکستان نے کہا" کہ ہمیں ایسے مجرموں کو سرعام لٹکانا چاہیے۔

(جاری ہے)

ہم سزا کے طور پر انکی مردانگی ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔  
جس ملک پر پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جانے کا خدشہ ہو وہ عوام کے مطالبے پر ایسے سرعام چوراہوں پر سزاےموت دینے کا اہل کیسے ہو گا؟
سزائے موت کے بارے میں یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے جرائم پیشہ افراد کو خوفزدہ کیا جاتا ہے،  لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔

  تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ میں ایک دفعہ جیب کترے کو سرعام چوک پر لٹکانا تھا اور اسکو دیکھنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ جہاں جیب کترے کو لٹکایا گیا تھا وہاں موجود بہت سے لوگوں کی جیب کٹ گئ تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سزاے موت مسئلہ کا حل نہیں۔
 بیشتر انسانی حقوق کی تنظیمیں  مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے یا جنسی طور پر ناکارہ بنا دینے کی مخالفت کرتی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 193 میں سے 142 ممالک میں سزائے موت کے قانون کو ختم کر دیا گیا ہے جن میں چند مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ترکی اور دنیا کے دیگر کئی ممالک، جہاں قانون تو موجود ہیں لیکن پھانسی کی سزا دینے کا رجحان کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 29 ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سزاے موت کا قانون تو ہے مگر انہوں نے پچھلے 10 سال سے کسی سزاے موت پر عمل درآمد نہیں کروایا۔

مگر ابھی بھی کئی ممالک ہیں جہاں سزائے موت دی جاتی ہے، جن میں چین، سعودی عرب اور ایران سرفہرست ہیں۔ سعودی عرب کی مثال دی جائے تو بےشمار مجرمان کو پھانسی پر لٹکانے کے باوجود سعودی عرب میں ان جرائم کی شرح میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی.
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ اس جرائم کی شرح کو کم کیا جاے۔ اور ایسی سزا ہو جس پر ہم عمل درامد بھی کرونے کے اہل ہوں۔

ایک مسلہ یہ درپیش ہے کہ اس جرم کی تفتیش کے لیے ہمارے پاس وہ گواہ اور ثبوت کا فقدان بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اول تو لوگ ایسے واقعات پر سامنے آنے سے بھی کتراتے ہیں۔ہمیں لوگوں کی بھی اس معاملے میں اصلاح بھی کرنی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام عدل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تاکہ ایسے جرائم کی بروقت تفتیش، اور انصاف کی فراوانی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :