عورت آزادی مارچ تحریک‎

پیر 15 مارچ 2021

Awais GILANI

اویس گیلانی

حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں عورت آزادی مارچ نے جہاں مقبولیت حاصل کی ہے وہیں بہت سے سوالوں کو بھی جنم لیا ہے۔ جہاں ان احتجاج میں عورت کے حقوق اور انکے مسائل کو اجاگر کرنا تھا وہاں ایسے نا مناسب مطالبے سامنے آ ۓ جو ہماری دینی اور معاشرتی روایات کےمنافی ہیں
یہ بات واقعی سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ کیا پاکستان واقعی ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں خواتین کو بنیادی حقوق نہیں دیے جا رہے۔

کیا واقعی ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو عورت کو حقوق دینے کے خلاف ہے اور اگر تو ایسا ہے تو عورت مارچ جائز ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو پلے کارڈز اور بینرز عورت مارچ کے لیے بناۓ گئے وہ کوئی بھی سنجیدہ معاشرہ برداشت نہیں کرے گا۔
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام سے قبل عورت کے پاس نہ تو حقوق تھے بلکہ عورت کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

اسلام نے ہی عورت کو سر اٹھا کر جینے کا حق دیا ایک پہچان دی یہاں تک کہ عورت کو حق مہر اور وراثت میں حصہ دار بنایا۔
 آج پاکستانی عورت کس برابری، کس آزادی کی بات کرتی ہے وہ آزادی کیا ہے۔  جہاں تک تعلیم اور ملازمت سمیت دیگر معاملات میں برابری کی بات ہے تو اس بات سے ہمارا سیکولر طبقہ انکار نہیں کر سکتا کہ عورت کو اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ آزادی حاصل ہے ۔

آج پاکستانی عورت کاروبار کر رہی ہے۔ ملازمت کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمتوں میں عورتوں کے لیے مخصوص کوٹہ سسٹم ہے۔  آج پاکستانی عورتیں ڈاکٹر، پائلٹس، فورسز، انجینیئر، استاد، صحافی، وزیر، مشیر، زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنی نمائندگی کر رہیں ہیں۔
جہاں تک سوال عورت کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ہے تو اس میں کوئ دوراہے نہیں کہ ان مسائل کا سامنا تو ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے حالیہ 65 ممالک کے اعدادوشمار کے مطابق تقریبآ ایک سال میں 2,50,000 ریپ کیسز رپورٹ ہوے ہیں۔  جبکہ 2021 کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے وہ ممالک جو عورتوں کے لیے غیر محفوظ ہیں ان لسٹ میں بھی پاکستان کا نام موجود نہیں ہے۔  تو سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عورت آزادی مارچ کی تحریک کون چلا رہا ہے؟ ایک اندازے کے مطابق تقریبا یہ 5 سے 10 فیصد کا مخصوص لبرل طبقہ ہے جو پاکستان میں اس تحریک کو پروان چڑھا رہا ہے۔

اگر ان کا مطالبہ عورت کی مغرب طرز کی آزادی کا ہے تو پہلے انہیں مغرب میں عورت کے ساتھ جسی زیادتوں کا اعدوشمار کا جائزہ لینا ہو گا۔ اگر انکا مطالبہ عورت کو شو پیس کی طرح بازار میں بٹھا دینے کا ہے تو انہیں اس ملک کے دینی، اور معاشرتی روایات کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔
احتجاج کرنا، اپنے جائز حقوق کے لیے کھڑے ہونا سب کا آینی اور قانونی حق ہے اور ان جائز حقوق کے لیے میں بلکہ پورا معاشرہ عورتوں کے ساتھ کھڑا ہو گا اگر ان نامناسب پلے کارڈز کی بجاے عورتوں کے جائز ایشوز پر بات کی جاے تو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :