آخر جائیں تو کہاں جائیں

جمعرات 24 اکتوبر 2019

B.A Nadeem

بی. اے. ندیم

آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کیا'' اللہ پاک نے قرآنِ پاک کی اس آیت میں فرما دیا اور اس قرآن کو مکمل ضابطہ اخلاق بنا کر امتِ محمدی کو عطا فرمایا۔ اور علم کی فضیلت کو یہاں تک اہم قرار دیا کہ '' گود سے گور تک علم حاصل کرو''۔ آج ہم معاشرے میں جب دیکھتے ہیں تو علم کی فراوانی ہے ڈگریوں کے انبار لگے ہیں۔

آج اگر ایک شخص کی C۔ V دیکھیں تو اس کی ڈگریوں، کورسز اور ساتھ تجربات کے سرٹیفیکیٹس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس فراوانی علم کے باوجود بے عملی اور جہالت انہی ڈگریوں کے اندر موجود ہے۔ آج ایک کثیر تعداد ایسے جوانوں کی ہے جو بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے کے باوجود علم و آگاہی سے بے بہرہ ور ہیں۔

(جاری ہے)

ہماری سوسائٹی کے موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو دل بہل جاتا ہے۔

آنکھیں غمزدہ ہو جاتی ہیں۔ ہمارے مذہب نے عالم کو دین کا چراغ کہا ہے۔آج اسی دین کے چراغ نے بد اعمالی اور بے عملی کی وجہ سے کتنے معصوم بچے، بچیوں کو مساجد کے حجروں اور مدرسوں میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔ ہمارے مذہب کی رو سے استاد جسے باپ کا درجہ ملا ہے آج پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی تک اچھے نمبروں اور گریڈ کا لالچ دے کر اساتذہ کرام نے جنسی درندگیاں کیں اور استاد جیسے مقدس پیشے کو داغ دار کیا۔

ڈاکٹر ایک مسیحا سمجھا جاتا ہے لیکن اسی مسیحا نے مسیحائی کی آڑ میں آپریشن تھیٹر میں جان بچانے کے بہانے معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ ایک عام بندے سے لے کر بڑے بڑے بیرو کریٹس تک سب نے اس درندگی کے خلاف اپنا کتنا کردار ادا کیا۔ سوشل میڈیا کے مصنفین نے کاپی پیسٹ سے ہٹ کر کیا کیا۔ علماء کرام سے لیکر ایک عام شہری تک ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے اندر چھپے ایسے تمام درندہ نما حیوانوں کو جو انسانوں کے روپ میں پھر رہے ہیں ان کو منظر عام پر لائیں۔

آج والدین مدرسہ میں دین کے حصول کے لیے بچوں کو بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ مسیحاؤں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔سکولوں و کالج کے استادوں اور پروفیسرز پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ والدین بچوں کو وین والوں کے حوالے کرتے وقت ان کی واپسی تک کتنی دعائیں کرتے ہیں اس خوف سے کہ کیا پتا یہ وین ڈرائیور شیطان نہ بن جائے۔ ایسے واقعات تو غیر مسلم معاشرے میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر روز 11 بچے جنسی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔گزشتہ پانچ سالوں میں جنسی درندگی کے 17862 واقعات رونما ہوئے۔ جن میں سے 10620 لڑکیوں کے اور 742 لڑکوں کے ہیں۔ جبکہ پولیس کے پاس صرف 13263 جنسی درندگی کے واقعات رجسٹر ہوئے۔ ان میں سے 112 مجرموں سزا دی گئی۔جن میں سے 25 کوسزائے موت جبکہ 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا دی گئی باقی کو دیگر سزائیں دی گئیں۔

اور ان سب کا قصور وار ہم نے پولیس اور عدلیہ کو ٹھہرا کر اپنا منصف کا حق ادا کر کے بری الزمہ ہو گئے۔ہماری سابقہ حکومت نے 2017 میں تحفظ اطفال بل قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کیا جسکا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت پر ہوا۔ جبکہ موجودہ حکومت نے اس بارے تاحال کیوں قانون سازی نہ کی۔ ابھی بھی وقت ہے اس حساس نوعیت کے موضوع پر قانون سازی کریں۔کل بروزِ قیامت یہی بچے ہمارے گریبان پکڑیں گے اور اس وقت سوائے ندامت کے ہمارے پاس کچھ نہ ہو گا۔ عالمِ دین، قاری، استاد، پرفیسر ڈاکٹر آخر کس پر اعتماد کیا جائے۔یا اپنے بچوں کو درندگی کا شکار ہوتا دیکھ کر چپ ہو جائیں۔ آخر والدین جائیں تو کہاں جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :