بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جنسی درندگی ذمہ دار کون؟

بدھ 22 جنوری 2020

B.A Nadeem

بی. اے. ندیم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے''اللہ کا بہترین بدلہ ان اہلِ ایمان کے لیے ہے کہ جنہیں اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر جاتے ہیں اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں. برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے. اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا. اور جو ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی.

ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں. اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں. ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے. اور جس نے صبر کیا معاف کیا تو یہ بیشک بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے. (شوریٰ 43:36:42)
2015 سے اب تک بچوں سے جنسی زیادتی کے 18 ہزار سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں. اور ایک رپورٹ کے مطابق پولیس کے پاس 13 ہزار سے زائد ایسے واقعات رپورٹ بھی ہوئے ہیں.

اگر حالیہ واقعات کا جائزہ لیا جائے تو 2015 سے اب تک بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کی شرح آئے روز بڑھتی جا رہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 10 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور ان 10 میں سے بمشکل 2 سے 4 کی رپورٹ پولیس کو کی جاتی ہے. جب کہ بقیہ واقعات گمنام کر دیئے جاتے ہیں بنا دیئے جاتے ہیں یا زیادہ تر لوگ اپنی عزت کی خاطر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں.
والدین جہاں دوسری معاشی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہیں اب اپنے کم سن بچوں کو تحفظ نہ ہونے کی وجہ خوف سے دو چار ہیں.

والدین ہر وقت بچوں پر نظر نہیں رکھ سکتے. کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے. اور اسی کمی کا فائدہ یہ درندہ صفت لوگ اٹھا رہے ہیں. عائشہ، زینب، ایمان فاطمہ، نور فاطمہ، لائبہ سلیم، زینب امین اور اب عوض نور جیسی سینکڑوں اور بچیاں جنسی درندگی کے بعد موت کی آغوش میں سو گئیں اور والدین کو نہ ختم ہونے والے صدمہ سے ہمیشہ کے لیے دوچار کر گئیں.مجرموں کو گرفتار تو کیا گیا لیکن حکمرانوں کی نااہلی اور قانون سازی کے فقدان کی وجہ سے سارا ملبہ پولیس کی ناقص تفتیش پر ڈال دیا گیا۔

(جاری ہے)

 محدود وسائل کے اندر پولیس نے ایسے واقعات کی بیخ کنی کی اور مجرم تک پہنچنے اور انصاف کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی.

لیکن ہماری عدالتوں کے معیار کے مطابق ناکافی شہادتوں اور کمی ثبوت کی وجہ ایسے مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے. جنسی درندگی میں خصوصاً بچوں کے ساتھ ایسے واقعات کے لیے بچے یا بچی کی حالتِ زار، میڈیکل چیک اپ، مرد کا میڈیکل، کپڑوں کا پھٹا ہونا، جسم پر ہاتھا پائی کے دوران زخموں کے نشان، جسم پر مادہ منویہ کا پایا جانا، موقعہ پر کسی چیز کا پایا جانا مثلاً شناختی کارڈ، موبائل فون، پیروں کے نشانات، کپڑے، انسانی بال، انگلیوں کے نشان، عورت کا میڈیکل ٹیسٹ، نفسیاتی ٹیسٹ، پریگنینسی ٹیسٹ، ڈی.

این. اے ٹیسٹ اور سب سے بڑھ کر زیادتی کا شکار ہونے والے/ والی کا بیان کیا کافی شہادت نہیں ہے؟ 
گو قانونِ شہادت کی رو سے گواہان کا ہونا ضروری ہے لیکن اس طرح کے واقعات میں گواہی اور شہادتیں چھپا دی جاتی ہیں. جس کی وجہ سے مجرم بچ جاتے ہیں. عدالتوں کو چاہیے کہ جنسی درندگی، ریپ اور زنا، زنا بالجبر جیسے کیسز میں متاثرہ کا بیان اور میڈیکل رپورٹ پر ہی انحصار کرتے ہوئے مجرم کو سزا دی جائے.
حکومت نے 2017 میں تحفظ اطفال بل منظور کیا لیکن اس کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت تک محدود کیا گیا۔لیکن اس پر بھی کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہو رہا۔بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے زیادہ تر واقعات پنجاب کے شہر قصور اور اوکاڑہ میں رونما ہوئے.

جہاں جنسی درندگی کے ساتھ فحش ویڈیوز بھی بنائی گئیں اور ان کو مہنگے داموں بلیک سائٹس پر فروخت کیا گیا۔پنجاب کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ بد فعلی اور جنسی درندگی کے بعد قتل کر دینے والے واقعات اب خیر پختون خواہ میں آئے دن بڑھ رہے ہیں. بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے ایک مافیہ سرگرم ہے جو بچوں کے ساتھ بدفعلی کے بعد جنسی درندگی کی ایسی ویڈیوز مہنگے داموں خرید رہا ہے.

حکومت کو اس بارے سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور قانون سازی کرنی چاہیے.
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 292 اے، 292 بی، 292 سی، 328 اے، 364 اے، 365 بی، 366 اے، 369 اے، 371،371 اے، 371 بی، 372،373،376 اے، 376 بی، 377،377 اے یہ سب دفعات جنسی تشدد اور بد فعلی سے متعلقہ ہیں.
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ 2015 سے اب تک بچوں سے جنسی درندگی کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ان میں % 65 واقعات ایسے ہیں جن میں ملزم متاثرہ کا اپنا ہی قریبی رشتہ دار نکلا.

والدین کی ذمہ داریاں اب کہیں زیادہ بڑھ گئیں ہیں. اپنے بچوں کو بریف کریں ان کو ایسے واقعات سے خبردار کریں تا کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے بروقت عملی اقدام کر سکیں. والدین کے ساتھ ساتھ ہمارے سکولز اور اساتذہ کرام بھی بچوں کو آگاہی فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں. بطور فرد ہمارا بھی فرض ہے کہ جہاں کہیں ایسا واقعہ دیکھیں تو مجرم کو کیفرِکردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں.

کہیں ایسا نہ ہو ہماری خاموش زبانوں، بند آنکھوں اور بہرے کانوں کی وجہ مجرم سزا سے بچ جائے. کیوں کہ اس خاموشی اور چپ کا فائدہ اٹھا کر کوئی درندہ خدانخواستہ ہماری معصوم کلیوں تک نہ پہنچ جائے. اور یہی دیکھنے والے اندھے، سننے والے بہرے اور بولنے والے چپ چاپ کھڑے تماشہ دیکھ کرہمیں چند الفاظ تسلی کے دے کے ایک سبق ہمارے لئیے نہ چھوڑ جائیں. کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ اب ہم نے ایک دوسرے کو تحفط دینا ہے ایک دوسرے کو ہی نہیں اپنے بچوں کو ان درندوں سے بچانا ہے کیوں کہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :