"رمضان نشریات کا ایک تقابلی جائزہ "

ہفتہ 24 اپریل 2021

Baber Ayaz

بابر ایاز

رمضان نشریات کے متعلق پاکستان میں دو آراء پائی جاتی ہیں ۔ ایک حلقہ اسکے خلاف ہے اور ان نشریات کی بندش پر زور دیتا ہے جبکہ دوسرا حلقہ رمضان نشریات کے مثبت اثرات کا قائل ہے۔ درج ذیل تحریر میں دو آراء کا تقابلی جائزہ لے کر خلاصہ پیش کیا گیا ہے ۔                   
ماہ مبارک رمضان رحمتوں، برکتوں اور صبر کا مہینہ ہے ۔

یہ مہینہ جہاں خداوند تعالی کی رضا کی خاطر اپنی تمام خواہشات کو ترک کرنے کا درس دیتا ہے وہی انسانی ہمدردی اور ایثار و نیکی کا جذبہ بھی ابھارتا ہے۔ اس مہینے کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ قرآن پاک اسی مہینہ نازل ہوا ہے ۔ المختصر یہ پورا مہینہ رب کو راضی کرنے اور اسکی خوشنودی حاصل کرنے کا سنہری موقع فراہم کرتاہے ۔ مسلمانان پاکستان بھی اس مہینے خصوصی طور پر عبادات کا انتظام کرتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز کی جانب سے رمضان نشریات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

ان نشریات کے متعلق دو آراء پائی جاتی ہیں ۔ عوام و علماء کرام کا ایک طبقہ ان نشریات کے خلاف ہے جسکی کئ وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ طویل نشریات عوام کے وقت کا ضیاع ہیں ۔ جہاں عوام کو عبادات میں مشغول ہونا چاہیے تھا وہی وہ اپنا تمام وقت ٹی وی سکرین کے سامنے صرف کرتے ہیں ۔   دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹی وی اداکاروں کی میزبانی میں ہونے والی رمضان نشریات میں اسلامی شعائر کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ۔

ٹی وی اداکار جنہیں اسلامی تعلیمات کی زیادہ سوج بوجھ  نہیں ہوتی وہ حساس موضوعات پر ببانگ دہل گفتگو کرتے ہیں جسکی وجہ سے کئی دفعہ علماء کرام کی جانب سے انہیں تنبیہ بھی کی گی ہے۔ نشریات کے دوران منقعد ہونے والے گیم شوز بھی انکی مخالفت کی نمایاں وجہ ہیں  ۔ ان گیم شوز میں جہاں موسیقی کا بھرپور استعمال ہوتا تھا وہی مردوعورت کے درمیان شرعی پردے کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا ۔

گو کہ کورونا وبا کی وجہ سے امسال عوام ان نشریات کا براہ راست حصہ نہیں ہیں لیکن پہلے بدقسمتی سے یہ سب ہوتا رہا ہے۔ درج بالا عوامل کی وجہ سے کئی دفعہ عدالت عالیہ نے نوٹس لے کر سخت سرزنش کی جبکہ علماء کرام اور عوام بھی نالاں نظر آئے ۔ گرچہ یہ باتیں ضرور رونما ہوئی جبکہ ایسی چیزیں
احترام رمضان کے بھی خلاف ہیں لیکن ان عوامل کی وجہ سے رمضان نشریات کو بند کرنا کوئی معقول حل دکھائی نہیں دیتا ۔

ہر شئے کے منفی و مثبت دونوں پہلو ہوتے ہیں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اسکے منفی پہلو کو ترک کر کے مثبت پہلو کو اپنایا جائے ۔ رمضان نشریات کی میزبانی ٹی وی اداکاروں کو دینے کے بجائے کسی سنجیدہ مذہبی شخصیت کو دی جاسکتی ہے ۔ کوگ رمضان میں جہاں وقت صرف کرنے کے لئے فلموں و ڈراموں کا سہارا لیتے تھے وہی اب ان رمضان نشریات کی بدولت نہ صرف انکا جائز طریقے سے وقت گزرتا ہے بلکہ عوام کو بہت سی اسلامی تعلیمات کا پتہ بھی چلتا ہے ۔

اسکے علاوہ رمضان نشریات میں حمد و ثناء پروردگار، نعت رسول مقبول(ص) اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کیا جاتا ہے جو بزات خود عبادات کا حصہ ہیں ۔ بد قسمتی سے ایک دور ایسا بھی تھا کہ علماء کرام باہمی اختلافات کے سبب مخالف طبقے فکر پر کفر کے فتوے لگاتے اور پرامن مکا لمہ تو درکنار ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے  وہی اب ان رمضان نشریات کی بدولت علماء کرام آپس میں مل بیٹھ کر اپنا اپنا نقطہء نظر بیان کرتے ہیں جس سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوتا ہے جبکہ اتحاد امت کی فضاء بھی قائم رہتی ہے ۔

انھی رمضان نشریات کی بدولت کئی مذہبی و سماجی مسائل کا حل ممکن ہوا ہے اور کئی غریب و نادار افراد کی مالی معاونت و پیچیدہ امراض کا علاج بھی ممکن ہوا ہے ۔ دور جدید میں کسی چیز کو ترک کر دینے سے بہتر اسکا مثبت استعمال ہے اور رمضان نشریات ٹی وی کے مثبت استعمال کی نمایاں مثال  ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نشریات میں احترام رمضان اور شرعی حدود کا خیال رکھا جائے تاکہ اس با برکت مہینے کا تقدس بھی برقرار رہے اور عوام الناس تک اسلامی تعلیمات کا سلسلہ بھی جاری رہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :