فرقہ واریت اور بین المسالک ہم آہنگی کا فقدان ۔ آخری قسط

بدھ 22 ستمبر 2021

Baber Ayaz

بابر ایاز

دور جدید میں سوشل میڈیا بھی فرقہ واریت کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔ سوشل میڈیا میں مخالف مسلک کے افراد کو کھل کر کافر اور بے دین قرار دیا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں  آزادی اظہار رائے کے نام پر  مختلف نقطہء نظر رکھنے والے افراد کو نہایت قبیح الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک کلپ میری نظر سے گزرا جس میں ایک لدھیانوی صاحب سر پر قرآن رکھ کر اعلان کر رہے تھے کہ وہ لوگ جو اہلبیت کی محبت کا دم بھرتے ہیں کافر ہیں اور میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر گواہی دے رہا ہوں (معاذ اللہ)۔

فرقہ واریت کو ہوا دینے کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان میں بھی کئی المناک سانحات جنم لے چکے ہیں ۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو بھی مسلک کی بنیاد پر بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

کئی لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڑز چیک کرکے ذبح کیا گیا۔ مسجدوں، امام بارگاہوں اور درگاہوں کو صرف الگ نقطہ نظر رکھنے کی وجہ سے دھماکوں سے اڑا دیا گیا ۔

سن 80 ء کی دہائی میں ریاستی سرپرستی میں فرقہ پرست عناصر نے کھل کر قتل و غارت گری کی۔ مسلمانوں کو یوں دست و گریبان دیکھ کر اسلام کی دشمن قوتیں بھی ہمیں کمزور کرنے کے لئے فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں جو انکے لئے اب ایک موثر ہتھیار بن چکا ہے ۔ معروف عالم دین علامہ امین شہیدی کے مطابق برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 9  شیخ یاسر حبیب  نامی ایک شخص کی سرپرستی کر رہی ہے جسکا کام مخصوص دینی لباس زیب تن کرکے امہات المومینین اور صحابہ کرام کو برا بھلا کہنا ہے۔

جسکے نتیجے میں عوام کے اندر نفرت اور اشتعال انگیز جزبات ابھرتے ہیں ۔  اسی طرح ایک اور شخص سر پر رومال رکھے  اپنے علاوہ باقی سب مسالک کو باطل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ بھارتی مشیر براے قومی سلامتی اجیت دول کا ایک وڈیو کلپ بہت مشہور ہوا تھا جس میں وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے اور انھیں قتل و غارت گری پر امادہ کرنے کے لئے فرقہ واریت کو فروغ دینے پر زور دے رہا تھا۔

گو کہ ہر مکتبہ فکر میں ایسے افراد اور علماء موجود ہیں جو امت کے خیرخواں اور انکے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے نہایت خلوص کیساتھ کوششیں کر رہے ہیں مگر افسوس کہ انکی تعداد بہت کم ہے ۔ مشہور مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل ان گنی چنی شخصیات میں سے ہیں جو فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے نہایت مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں مگر رنجیدہ پہلو یہ ہے کہ خود انکے اپنے حلقے کے بہت نامور افراد ان پر معترض ہوئے اور انکے نسب پر بھی انگشت نمائی کر کے انھیں اس کام سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی ۔

اسی طرح علامہ جواد نقوی بھی فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے پر زور کوششیں کر رہے ہیں اور اس ضمن میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی کانفرنسں اور مشترکہ نماز جماعت بھی قائم کراتے ہیں تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو اور امت کے درمیان احترام و محبت کی فضا بھی قائم ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ شعلہ بیان مکرر اپنی کم علمی اور شعلہ بیانی سے انکی تمام کوششوں پر پانی پھیرتے ہیں ۔

یوں میلاد ہو،  محرم ہو یا رمضان سب سی مقدس مہینے فرقہ واریت کی نظر ہوجاتے ہیں۔                       
یوں تو فرقہ واریت کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے محنت شاقہ اور کئی ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں ۔ ذیل میں چند اہم ذرائع کا ذکر کیا جارہا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر فرقہ واریت کے سدباب کو یقینی بنایا جاسکتا ہے-
فرقہ واریت کو فروغ اکثر مذہبی طبقہ دیتا ہے لہذا ایسے افراد کو برسر منبر لانے کی ضرورت ہے جو معتدل خیالات کے حامل ہوں ۔


فرقہ واریت پر مبنی ایسی کتب جو دوسرے مکتب کو ملحد و کافر ثابت کرنے کے لئے تحریر کی جاتی ہیں تلف کر دی جائیں ۔ اور  ایسی کتب کی نشر و اشاعت سے پہلے حکومتی حکام کو انکا بغور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ عوام کو فرقہ وارانہ مواد سے دور رکھا جاسکے
عقائد کی خودساختہ تشریح بھی فرقہ واریت کا باعث بنتی ہے۔
ہر شخص کو اپنے عقائد کی تشریح کا حق ہونا چاہیے اور کسی دوسرے مکتب کے نظریات جاننے کے لئے اس مکتب کے جید علماء سے رجوع کرنا چاہیے ۔


بین الامسالک ہم آہنگی کے لئے کام کرنے والے علماء کرام اور افراد کی حوصلہ افزائی کرکے انھیں بااختیار عہدوں پر تعینات کرنا چاہیے تاکہ وہ مزید طاقت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کام کریں ۔
 ایک ہی امام اور مسجد میں مختلف مکتبہ فکر کے افراد کو نمازادا کرنے کی ترغیب دی جائے
سوشل میڈیا میں فرقہ واریت پھیلانے والے تمام پیجز کو بند کرکے سخت قوانین نافذ کرنے چاہیے
تکفیریت کو فروغ دینے عناصر کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آیندہ کسی کو امت کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی جرائت نہ ہو۔

۔
 وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے اختلافات کو بھلا کر پھر سے امت واحدہ بن جائیں تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچار کیا جاسکے اور اسلام غالب آجائے ۔ اگر ہم نے فرقہ وارانہ روش کو ترک نہ کیا تو بعید نہیں کہ ہم دنیا کیساتھ ساتھ آخرت کو بھی ضائع کر بیٹھے پھر اسوقت کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اللہ ہم سب کو اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی توفیق دے اور ہر اس بات سے محفوظ رکھے جو امت کے درمیان تفرقہ پھیلانے کا باعث بنے ۔(آمین )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :