افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟

ہفتہ 10 جولائی 2021

Baber Ayaz

بابر ایاز

امریکی صدر کے افغانستان سے انخلاء کے اعلان نے پوری دنیا کی توجہ کو افغانستان پر مرکوز کر ریا ہے ۔ کچھ عرصے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے نکل جایئگا ۔ یاد رہے کہ 11 ستمبر 2021 کو 11/9 حملوں کے بیس سال مکمل ہونگے ۔ اس اعلان کے بعد طالبان جو پہلے ہی کئ افغان علاقوں پر قابض تھے مزید طاقتور ہوگئے اور اب صورتحال یوں ہے کہ آئے روز مختلف افغان علاقوں پر طالبان کے قبضے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ۔

امریکہ زمینی انخلاء کے بعد کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے فضائی اڈوں کو استعمال کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان کے انکار کے بعد سرعت سے اپنی فوجیں افغانستان سے نکال رہا ہے ۔ گزشتہ دنوں امریکہ نے اپنے زیر استعمال افغانستان کی سب سے بڑی بٹگرام ائیر بیس کو بھی خالی کر دیا ہے ۔

(جاری ہے)

طالبان آہستہ آہستہ پورے افغانستان پر قابض ہورہے ہیں ۔

مغربی دفاعی ذرائع کے مطابق طالبان افغانستان کے 100 ضلعوں پر قابض ہیں جبکہ طالبان کا دعوہ ہے کہ 34 صوبوں کے 200 ضلعوں پر انکی حکومت قائم ہے ۔ رواں ہفتے کے آغاز میں طالبان سے جھڑپوں کے بعد 1 ہزار افغان فوجی تاجکستان فرار ہوگئے ہیں ۔
طالبان نے پاکستان، تاجکستان، چین، ترکمانستان اور ایران سے متصل افغان سرحدوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے ۔ ایک طرف افغانستان کے اندر مسلح تصادم اور بے چینی کی کیفیت ہے تو دوسری جانب عالمی برادری مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہی ہے ۔

طالبان افغان فوج سے برسرپیکار ہیں جبکہ دوسری طرف سفارتی محاذ میں بھی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق بروز بدھ طالبان اور افغان حکومتی وفد نے ایران کا دورہ کیا ۔ ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق  دونوں فریقین نے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ طالبان وفد نے روس کا بھی دورہ کرکے یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سر زمین روس کے خلاف استعمال نہیں ہوگی ۔

گزشتہ روز امریکی صدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغانستان سے 31 اگست تک مکمل فوجی انخلاء کا اعلان کیا ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ وہ مزید ایک نئی نسل کو جنگ میں نہیں جھونک سکتے ۔ اب افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان اسٹیک ہولڈرز اور عوام کو کرنا ہے ۔ انھوں نے  خطے کے دیگر ممالک کو بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنے کا کہا ہے ۔ صدر جوبائیڈن کے مطابق طالبان پورے افغانستان پر قابض نہیں ہوسکتے جبکہ طالبان کا دعوہ ہے کہ 85 فیصد افغانستان انکے کنٹرول میں ہے اور مزید چند روز میں پورے افغانستان پر قابض ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بیشتر علاقوں کے عوام طالبان کو خوش آمدید کر رہے ہیں ۔ طالبان کے رویے میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے ۔ گزشتہ روز پاکستانی چینل میں ایک انگریزی چینل کی رپورٹ دکھائی گئی جس میں طالبان خاتون صحافی سے بات کرتے ہوئے لڑکیوں کو تعلیم دلانے اور سوچ میں تبدیلی کا زکر کر رہے تھے ۔ معروف پاکستانی اینکر جناب مبشر لقمان کے یو ٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان سہیل شاہین نے امریکہ کو دعوت دی ہے کہ وہ افغانستان کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لئے آئے گا تو اسے خوش آمدید کہا جایئگا ۔

انکا کہنا تھا کہ ہم امریکہ سمیت دیگر ممالک کو بھی افغانستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کی دعوت دیتے ہیں جو میری نظر میں ایک غیر معمولی بیان ہے ۔ افغان عوام پچھلی چار دہائیوں سے خوف و کرب میں مبتلا ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام،غیر ملکی حملوں، اور طاقت کی رسہ کشی نے انھیں بھوک ، افلاس، بےسروسامانی اور لہولہان افغانستان کے سوا کچھ نہیں دیا ہے ۔

کئی لوگ بے گھر ہوچکے، کئی ماوں کی گودیں اجڑ گئیں، کئی کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا اور کئی گمنام ہوگئے ہیں ۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان کا مستقبل وہاں کے مقامی اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھ چھوڑ کر جارہا ہے تو افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر پر امن سیاسی حل نکالنا ہوگا ۔ اگر دونوں فریقین مخلوط حکومت پر راضی ہوں تو اس سے بہتر سیاسی حل نہیں ہوسکتا ۔

مخلوط حکومت میں طرفین سے وابستہ افراد کو بھی امان حاصل ہوگا جبکہ باہمی شراکت داری سے افغانستان استحکام کی طرف گامزن ہوسکتا ہے ۔ اگر طالبان پورے افغانستان پر قابض ہوتے ہیں جو بظاہر ممکن دکھائی دیتا ہے تو اس صورت میں ذمہ داری انکے کاندھوں پر ہوگی ۔ کئی عالمی طاقتیں طالبان کو شدت پسندی کے روپ میں دیکھتی ہیں ۔ طالبان کو شدت پسندی ترک کر کے حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھنا ہوگا۔

طالبان کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان میں موجود اقلیتیں اور دیگر مسلم مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جان و مال محفوظ ہوں اور انھیں اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہو ۔ طالبان کو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی موثر کردار ادا کرکے انھیں زندگی کے ہر شعبہ میں مناسب نمائندگی دینی ہوگی جبکہ فرسودہ قبائلی رسوم و رواج کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے ۔

طالبان کو چاہیے کہ وہ افغان حکومتی حکام سے معترض ہونے کے بجائے انھیں ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کی دعوت دیں ۔ افغان عوام کو اپنی قیادت کے انتخاب کا حق دینا ہوگا ۔ پاکستان کو بھی اس ضمن میں ہر ممکن کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں امن سے بہتر پاکستان کے حق میں کوئی دوسری بات نہیں ہوسکتی ۔ افغان طالبان اور حکومت ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک پرامن، ترقی یافتہ، اور فلاحی افغانستان میسر ہو ۔

ایک ایسا افغانستان جہاں بچوں کے ہاتھوں میں بندوق کے بجائے قلم ہو، جہاں کی فضاؤں میں بم دھماکوں کے سیاہ دھویں کے بجائے قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوں، ایک ایسا افغانستان جہاں کے ہر باسی کا دل شاد اور گھر آباد ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :