فرقہ واریت اور بین المسالک ہم آہنگی کا فقدان - قسط نمبر 1

منگل 21 ستمبر 2021

Baber Ayaz

بابر ایاز

دور حاضر میں امت مسلمہ کئ مشکلات سے نبردآزما ہے ۔ کچھاپنوں کی نادانیوں اور کچھ غیروں کی کرم فرمانیوں نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ اسلام کے لئے بھی خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ مسلمان جو کسی ذمانے میں دنیا کی مہذب اور مضبوط اقوام میں شامل ہوتے تھے آج بدقسمتی سے کسمپرسی کا شکار ہیں ۔ ۔ مسلم امہ کو آج اخلاقی،سماجی،سیاسی،معاشی، انتظامی اور ثقافتی تنزلی سمیت کئ مسائل کا سامنا ہے ۔

ذیل میں امت کو درپیش سب سے اہم مسلئے کی نشاندہی کرکے اسکے سدباب  کے لئے تجاویز پیش کی گئی ہیں تاکہ آیندہ کے لئے ہم ماضی کے تلخ تجربوں اور غلطیوں کو دہرانے سے باز رہیں اور ایک بار پھر سے امت مرحوم کو اسکا کھویا ہوا مقام دلانے کے لئے کوشاں ہوں                                                                
مسلمانوں کو درپیش مسائل میں سے سب سے اہم اور نازک مسئلہ فرقہ واریت اور بین المسالک  ہم آہنگی کا فقدان ہے ۔

(جاری ہے)


مسلمانوں میں سیاسی فرقے آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد ہی معرض وجود میں آئے تھے لیکن حضرت عثمان (رض) کےدور حکومت میں سیاسی فرقے اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے ۔
حضرت علی(رض) کے دور خلافت میں جنم لینے والی سازشوں اور خلفشاروں نے اس خلیج کو اور مزید واضع کردیا ۔ اسلام میں اعتقادی بنیاد پر وجود میں آنے والا سب سے پہلا گروہ  خوارج کا تھا ۔

خوارج خود کو بہتر مسلمان سمجھتے تھے جبکہ حضرت علی رض اور امیر شام کو مسلمانوں کے درمیان گروہ بندی کا ذمہ دار گردانتے تھے۔ حضرت علی رض نے جنگ نہروان میں گروہ خوارج کو فیصلہ کن شکت دی تھی لیکن انکی باقیات میں سے ایک عبد الرحمن ابن ملجم مرادی (لعین) نے سن 40 ھ کو بوقت نماز فجر تلوار کا وار کرکے آپ رض کو زخمی کر دیا جسکے تین روز بعد 21 رمضان کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔

حضرت علی رض کی شہادت کے بعد اعتقادی خلیج اور واضع ہوگئی۔  آنحضرت ص کے پردہ فرمانے کے بعد مسلمانوں کا ایک گروہ اہلبیت رسول ص کو بعد از رسول ص قابل تقلید سمجھتا جبکہ دوسرا گروہ اصحاب رسول ص کو قابل تقلید سمجھتا ہے ۔۔ آج مسلمانوں کے مکاتب فکر میں فقہ جعفریہ اور فقہ حنیفہ نمایاں ہیں جبکہ فقہ جعفریہ کی بھی کئی شاخیں موجود ہیں اور فقہ حنیفہ بھی مالکی، شافعی اور حنبلی سمیت کئی فقوں میں منقسم ہے ۔

اگر یہ تقسیم صرف نقطہ نظر تک محدود رہتی تو کچھ برا نہ تھا پر افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ نام نام نہاد ملاوں اور پڑھے لکھے جاہلوں نے علمی یا اجتہادی اختلافات کو کفر، تکفیر، بدعت ، گستاخ، اور واجب القتل جیسے نعروں سے اس قدر بھڑکایا ہے کہ اب اس پر پانی ڈالنا بس سے باہر ہوتا جارہا ہے ۔ پہلی
امتوں میں بھی فرقے موجود تھے اور اب بھی ہر مزہب میں کئی مکاتب فکر پائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمان مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو کافر اور بے دین قرار دے کر قتل کے فتوے تک بھی جاری کرتے ہیں(معاذ اللہ) ۔

قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ:-                                                     
 "اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو" (سورہ آل عمران آیت 103)                        
مگر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے آپس میں دست و گریبان ہیں ۔ فرقہ واریت کو فروغ دینے میں جہاں صاحب اقتدار ملوث ہیں وہی مسجد و منبر دو ہاتھ آگے آکر اسے بڑھاوا دے رہا ہے ۔

معمولی سے اختلافات پر مخالف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پر کفر کے فتوے جاری کرکے
انھیں واجب القتل قرار دینے کی مذموم روش جاری ہے ۔ چند دن پہلے ہی ملک میں ایک بار پھر تکفیریت کو بڑھاوا دینے  کی مذموم کوشش کی گئی ۔ اگر ماضی میں بھی نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے خود کو جتنا نقصان پہنچایا ہے شاید ہی کسی دشمن نے انھیں پہنچایا ہو۔

جب چنگیزخان قہرخداوندی کی طرح عالم اسلام کو بخارا تا بلخ تہ و بالا کر رہا تھا اس وقت بھی مسلمان اختلافات کا شکار تھے ۔ مسلمانوں کی دو بڑی طاقتور سلطنتیں؛سلطنت
عثمانیہ اور ایران کی صفوی سلطنت کے مابین ہونے والی لڑائیوں میں بھی اکثر کی وجوہات صرف مسلکی اختلاف تھا ۔ مصر کی فاطمی سلطنت کا خاتمہ بھی صرف مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔

دور حاضر میں بھی فرقہ واریت کا ناسور اور اسکے اثرات واضع ہیں ۔ عالم اسلام کے دو بڑے ممالک سعودیہ اور ایران کے مابین سرد جنگ کے اسباب بھی فرقہ واریت اور نقطہ نظر کا اختلاف ہے۔ یمن اور شام کا بحران بھی مسلکی اختلاف کی بنیاد پر جنم لے چکا ہے۔ ہر کوئی اپنے ہم مسلک افراد کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتا ہے جسکا نتیجہ سیاسی عدم استحکام اور خلفشار کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے ۔

آج معمولی سے اختلافات پر کفر کا فتوی جاری کر دیا جاتا ہے ۔ بات مزید بڑھ کر اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آج بھی مخالف مکتبہ فکر کو باطل ثابت کرنے کے لئے من گھڑت اور بے بنیاد ضعیف روایتوں کا سہارا لے کر انکے عقائد کے رد میں کتب تحریر کی جارہی ہیں ۔ مسجدوں پر باقاعدہ تحریر کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد فلاں فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے بنائی گئی ہے اور اگر دوسرے مکتبہ فکر کا کوئی فرد وہاں نماز ادا کرئے کو اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ فرقہ واریت کی وجہ عقائد کی غلط اور من پسند تشریح بھی  ہے۔ ہمارے ہاں کسی کو اپنے عقیدے کا صحیح سے علم ہو کہ نہ ہو مگر وہ دوسرے کے عقیدے کی خود ساختہ تشریح کرکے اسے دین سے خارج کردینے پر تلا  ہوا ہے ۔ ( جاری ہے/ بقیہ اگلے کالم میں)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :