مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

بدھ 22 جنوری 2020

Bushra Naseem

بشری نسیم

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں فرمایاتھا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنایا جائے گا لیکن یہ کیا ہوا وزیراعظم یو ٹرن کے ماہر تو ویسے بھی ہیں انہوں نے اس بار شاید تاریخ کا بڑ ا یوٹرن لے لیا اور ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب دیکھنے والی قوم کو قبر تک پہنچا دیا اور بھوک ، افلاس ،مہنگائی ، بے روزگاری کے عفریت میں پھنسی ہوئی قوم کو یہ مشورہ دیدیا کہ سکون تو صرف قبر میں ہی ملتا ہے ۔

اب وزیر اعظم کو کون سمجھائے کہ قبر میں بھی انہی کو راحت نصیب ہو گی جن کے اعمال اچھے ہو نگے ۔اس سے تو یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں وطن عزیز میں ٹھٹرتی و جان لیوا سردی میں اپنے بچوں کو گرم کپڑے نہ دلوانے پر خودسوزی کرنے والے لااچار ، غریب باپ کو قبر میں سکون مل گیا ہو گا ۔

(جاری ہے)

تو کیا اب اس کے پانچ بچے بھی سکون کے لئے اپنی جانیں لے لیں ۔

کیونکہ ریاست مدینہ کی طرز پر ملک میں حکومت بنانے والے وزیر اعظم کا یہ قیمتی مشورہ ہے کہ وہ تنگدستی و عسرت اور بھوک سے بلکتے اور گرم کپڑوں کے لئے ترستے بچوں کے رونے سے نہ گھبرائیں بلکہ انہی سمیت سکون کے لئے قبر میں اتر جائیں ۔وزیراعظم سے ہی مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اشرافیہ کو چھوڑ کروڑ غریب عوام کے لئے مفت قبریں بنوا دیں کیونکہ آپ کی ریاست مدینہ میں جینا تو مشکل تھا ہی مرنا بھی دشوار ہو چکا ہے ۔

قبرستان ٹیکس ، قبر بنوانے کی فیس میں اضافے نے 80 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں سے باعزت موت کو گلے لگانے اور بعدازاں وقار سے دفن ہونے کی استطاعت بھی چھین لی ہے ۔ موجودہ حالات میں ایک عام پاکستانی اس مشہور شعر کی صورت بن چکا ہے ۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 
 مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
 یہ بھی بہت بڑی تلخ حقیقت ہے کہ غربت انسان کوگمراہ کردیتی ہے ۔

غربت سے تو نبیوں نے بھی اللہ کی پناہ مانگی تھی لہٰذامشکل ترین دور میں زندگی کیلئے جدوجہدکرتے لوگوں میں مایوسی پھیلانے والے عمل یاگفتگوسے گریز کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ قبر میں سکون کی زندگی میسرآئے گی یا عذاب ملے گا اس کا فیصلہ کرناہمارے اختیار میں نہیں۔ یہ فیصلہ تواعمال کے مطابق عادل حقیقی اللہ رب العزت فرمائے گا۔ بطور مسلمان یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کے مرنے کے بعد کیا ہو گیا وزیر اعظم کیسے کہہ سکتے ہیں سکون قبر میں ہی ملتا ہے کیا انہیں یہ کہنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ مرنے کے بعد جب گھروالے قبر میں اتارکرچلے جاتے ہیں اور فرشتے انسان سے قبر میں سوال وجواب سے فارغ ہو جاتے ہیں تب نیک وپرہیزگار اور گناہ گار قبر میں قیامت تک ایک جیسی پرسکون زندگی گزاریں گے یا پھربرابرعذاب میں مبتلا رہیں گے۔
وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ سکون قبر میں ملے گا میں لیکن اپنے ملک کی اشرافیہ ، امیر و دولتمند طبقے اور قومی وسائل کی بندر بانٹ میں ملوث بااثر خاندانوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکون دنیا میں بھی حاصل ہو سکتا ہے۔

اشرافیہ کے بیوی بچوں کے عیش و آرام اور بیگمات کی لاکھوں نہیں کروڑوں روپوں کی شاپنگ ، ان کے برانڈڈ پہناووں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کیا ان کے لئے تو یہ عارضی زند گی بھی جنت ہے اور ہمارے ملک کے غریبوں کے لئے تو یہ دنیا بھی کسی جہنم سے کم نہیں وہ روز اپنی جائز ضرورتوں کی عدم تکمیل پر مرتے اور جیتے ہیں اب وزیر اعظم کے مشورے نے انہیں حوصلہ دیدیا ہے کہ کوئی غم نہیں اگر انہیں اس دنیا میں سکون نہیں تو مر جائیں! قبر میں سکون میسر ہو گا۔

وزیر اعظم صاحب! آپ 22کروڑ لوگوں کی امید ہے آپ کو تبدیلی ، انصاف ، ترقی کے نام اور وعدے پرمنتخب کیا تو اس نئے پاکستان میں ان کے حصے میں کیا آیا اور اس ڈیڑھ سال میں آپ کی حکومت نے کیا دیا سوائے مایوسی اور صبر کی تلقین کے ۔ٹیکسوں کی بھرمار ، بجلی گیس مہنگی ، پٹرول پہنچ سے باہر ، آٹا ، گھی ،دالیں ، چینی اور سبزیوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ایسے میں سکون تو قبر میں ملے گا مگر کیسے ۔

مرنے کے بعد کفن دفن کا انتظام ، میت پر رونوں والوں کے لئے کھانے کا بندوبست ، قل خوانی پر دیگیں یہ سب کون کرے گا؟ آپ سوچیئے کہ اس کے مرنے پر ریاست مدینہ کی ماڈل حکو مت میں اس کی مہنگائی کی چکی میں پستی ہو ئی اولاد کیا کرے گی کیسے سارا اہتمام و بندو بست کر ے گی ؟۔ میرا تو وزیر اعظم سے ایک ہی بلکہ آخری مطالبہ ہے کہ ہمارے لئے مفت قبریں ہی بنوا دیں تاکہ ہم لوگ آسانی سے انہی میں زندہ دفن ہو جائیں تا کہ ہمیں سکون مل سکے ۔

آفٹر آل ہمارے وزیر اعظم نئے پاکستان کے حکمران کا نیک مشورہ ہے ۔فرمان مصطفی ہے کہ یہ دنیا کی زندگی مومن کے لئے ایک آزمائش ہے ایک قید خانہ ہے(دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے) اور وہ اس میں سزا کاٹ رہا ہے جس کے بعد اس کی ابدی جزا کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے..۔زندگی آسانی کا نام نہیں مشکلات سے عبارت ہے۔ویسے بھی انسان کسی حال میں خوش نہیں۔

ہم نے خود اپنی زندگیوں کو مشکل میں ڈالے رکھنے میں کردار ادا کیا۔خود کو مشکلات میں مبتلا ہم نے خود کئے رکھا۔ہمیں سکون تب ہی ملے گا جب ہماری آخری سانس نکل جائے گی۔خوشی تو اس بات کی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو یہ الہام ہوچکا ہے کہ پاکستان کی غریب ،بے بس ،لا چار عوام کو قبریں نصیب ہو جائیں گی اور انکو قبروں میں سکون مل سکے گا ۔بہت شکریہ حاکم وقت حشر میں پھر ملیں گے۔۔۔۔۔۔۔
 مجھے خوف کہاں موت کا 
 میں تو زندگی سے ڈر گئی ہوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :